اردو کے قاتل ہم! 

عالم نقوی 
ٹھیک ہے کہ اردو کا ابتدائی قتل عام تو بھارتی فرقہ پرست اور منافق سیاست دانوں نے کیا تھا اور انکا ساتھ دینے والے اور
ان کی دوستی کا دم بھرنے والے مسلمان محض منہ دیکھتے رہ گئے تھے اُن کی مجال نہیں تھی کہ منافق فرقہ پرستوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے بر وقت کوئی تدارکی، انسدادی کارروائی کر پاتے۔ آج صاف نظر آتا ہے کہ فراست اور قلیل و طویل منصوبہ بندی سے اُنہیں کوئی واسطہ نہ تھا۔ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ جناب اس وقت کے حالات کا اندازہ نہیں ہے آپ کو، تب تو جینے اور مرنے کے لالے پڑے تھے اور تقسیم وطن کے عذاب کے نتیجے میں لب کشائی کی جراٗت ہی مسلمانوں میں کہاں رہ گئی تھی اُس وقت جو بھی ہو گیا اور جتنا بھی بچ گیا وہی غنیمت ہے۔  ہو سکتا ہے کہ یہی بات درست ہو لیکن آج تو ہم اردو والے خود ہی روز اُردو کا خون کر رہے ہیں اور جب بات کرو تو الزام دوسروں پر دھرکے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا لکھنؤ میں 11 جولائی کو شایع یُسریٰ حسین@timesgroup.com)کی رپورٹ بتاتی ہے کہ لکھنؤ میں اردو کا چل چلاؤ شاید آخری دنوں میں داخل ہو چکا ہے۔ یسریٰ حسین نے لکھا ہے کہ فراق گورکھ پوری نے ایک بار کہا تھا کہ۔۔ اردو اس لیے پڑھو کہ افسر بننے کے بعد افسر لگو بھی۔۔ لیکن امسال لکھنؤ یونیورسٹی کے سال 2016-17کے سیشن میں صرف 9بچوں نے بی اے اردو میں داخلہ لیا ہے جبکہ وہاں انڈر گریجؤیٹ سطح پر 88طلباء کا داخلہ ممکن ہے!یونیورسٹی نے داخلے کی تاریخ میں 12 جولائی تک کی توسیع کی تھی اس لیے اب یہ تو آج کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ بی اے اردو سال اول میں طلباء کی تعداد، دو ہندسوں میں پہنچی یا نہیں لیکن ایسا ہونے کی امید برائے نام ہی ہے کیونکہ حالات مجموعی طورپر ہرگز اطمینان بخش نہیں۔  یونیورسٹی میں اردو پڑھنے والوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی چلی آرہی ہے۔ لیکن ایک اہم بات جو عزیزی یسریٰ حسین کی اس رپورٹ میں نہیں وہ یہ ہے کہ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہء اردو میں عرصہء دراز سے کوئی نئی تقرری بھی نہیں ہوئی ہے۔موجودہ صدر شعبہ عباس رضا نیر، جو غالباً ابھی ریڈر بھی نہیں لکچررہیں، ( اگر وہ ریڈر ہو چکے ہیں تو مجھے معاف فرمائیں )شعبہء اردو میں تقرری پانے والے آخری آدمی ہیں۔  پروفیسر انیس اشفاق کے سبکدوش ہونے کے بعد سے وہاں پروفیسر، ریڈر اور لکچررس کی تمام جگہیں خالی پڑی ہوئی ہیں! طلباء کو پڑھانے کا کام گسٹ فیکلٹی سے لیا جا رہا ہے جنہیں فی لکچر کے حساب سے ایک نہایت معمولی رقم ہاتھ آتی ہے لیکن پی ایچ ڈی کیے ہوئے یہ گسٹ لکچرر بھاگتے بھوت کی لنگوٹی کو غنیمت جانتے ہوئے اس امید پر جی رہے ہیں کہ جب کبھی مستقل تقرریاں ہوں گی تو شاید ان کی یہ محنت کام آجائے! عزیزی یُسریٰ سے ہماری درخواست ہے کہ وہ اس سلسلے میں وائس چانسلر اور رجسٹرار وغیرہ سے مل کر مزیدایک تحقیقی رپورٹ اپنے اخبار میں شایع کروائیں کہ آخر شعبہء اردو کی خالی جگہوں پر نئی تقرریاں کیوں نہیں ہو رہی ہیں!
رہا یہ کہنا کہ جب تک اردو کا رشتہ روزی روٹی سے قائم و استوار نہ ہوگا اردو کی ترقی ناممکن ہے، جھوٹ بھی ہے اور فریب بھی۔  زبانوں کی زندگی روزی روٹی پر نہیں قوموں کی زندگی پر موقوف ہوتی ہے مردہ قوموں کی زبان بھی مردہ ہو جایا کرتی ہے!حقیقت یہ ہے کہ ہم اردو والے چینیوں اور یہودیوں سے بھی گئے گزرے ہیں منڈارن (چینیوں کی زبان ) اور عبرانی(HEBREW)یہودیوں
کی زبان اس لیے دو ہزار سال سے زندہ ہیں کہ دونوں قومیں اپنی زبانوں سے محبت کرتی ہیں۔ ہماری طرح محض ٹَسوے نہیں بہاتیں اور جھوٹے دعوے نہیں کیا کرتیں۔ قریب دو ہزار سال قبل جب رومی مشرکوں نے یہودیوں کو فلسطین سے نکالا تو وہ پوری دنیامیں پھیل گئے اور جہاں رہے وہاں کی زبان بھی سیکھی اور اس میں آخری درجے کی مہارت حاصل کی لیکن اپنی زبان عبرانی کو اپنے گھروں کے اندراس طرح زندہ رکھا کہ جب اپنی سازشوں میں کامیاب ہوکر لاکھوں مسلمانوں کو گھر سے بے گھر کر کے اور ہزاروں کو قتل کر کے جب غاصبانہ طور پر دوبارہ ارض مقدس فلسطین پر قابض ہوئے اور اس کا نام اسرائل رکھا تو عبرانی وہاں کی سرکاری زبان قرار پائی!
کولکاتا میں کئی سوسال سے چینی آباد ہیں۔ ان کی مجموعی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں۔ وہ آرام سے ہندستانی (یعنی اردو)اور بنگالی بولتے ہیں لیکن اپنی زبان کو بھی کسی سرکاری سرپرستی کے بغیر زندہ رکھے ہوئے ہیں۔  وہ چینی زبان میں کتابیں بھی چھاپتے ہیں اور اخبار بھی اور خود ہی اسے رضاکارانہ طور ہر چینی کے گھر پہنچاتے بھی ہیں۔
مگر ہم؟ صرف روتے ہیں، بہانے بناتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں اور ڈرامے کرتے ہیں!اور جو کرنا چاہیے وہی نہیں کرتے کہ اپنے گھروں پر اردو بولیں اور اپنے بچوں کو لازماً! اردو پڑھائیں! صرف اڑسٹھ سال میں ہمارا یہ حال ہوگیا کہ ہم نے اردو کے گھر میں اردو کو یتیم و یسیر بنا ڈالا۔ اگر مہاراشٹر، (کوکن، مراٹھواڑہ اور ودربھ)کرناٹک (بھٹکل)،آندھرا پردیش تلنگانہ(حیدرآباد) اور تمل ناڈو نے اردو کو زندہ نہ رکھا ہوتا تو ہم دلی لکھنؤ بھوپال والوں نے تو اردو کو جیتے جی دفن کر ڈالنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا ہے۔
ہم نے پہلے بھی لکھاہے اور پھر دہراتے ہیں کہ اگر سید ظفر ہاشمی، محمد عارف اقبال، ڈاکٹر ظفر ا لا سلام خان اور عالم نقوی کے نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں نے اردو نہ سیکھی تو، اردو چاہے کہیں بھی زندہ رہے، لکھنؤ اور دلی میں تو اس کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہے گا! رہے نام اللہ کا۔

تبصرے بند ہیں۔