ڈاکٹر ذاکر نائک کے لئے تمام مسلمان آگے آئیں

مقبول احمد سلفی

ہندوستان کا سدا سے رویہ رہا ہے "جرم کسی کا سزاکسی کو”۔  یہ رویہ صرف مسلمانوں کے ساتھ اپنایا جاتا ہے خصوصا ایسے مسلمانوں کے ساتھ جن سے اسلام کا بھلا ہوتا ہو۔ اہل کفار کو معلوم ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی نشرواشاعت روکنی ہو تو عوام کو روکنا مشکل ہے اس لئے مبلغین ومصلحین پر ہی پابندی لگائی جائے ، اسلام پھیلنا آپ خود رک جائے گا۔ اللہ تعالی نے اسلام کو کسی کا محتاج نہیں بنایا ہے یہ سدا پھلتا اور پھولتا رہے  گایہاں تک کہ سارے ادیان باطلہ پہ غالب آجائے گا۔ اس کام کےلئے اللہ تعالی اپنے منتخب بندوں کو سدا  بھیجا ہے اور بھیجتا رہے گا، ان کو زمانے کی باطل طاقتیں کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں ۔

ڈاکٹر ذاکر نائک اس وقت صرف مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے امن کے داعی بن کر ابھرے ہیں اور ان کی انتھک کوششوں سے لوگوں کے اندرعالمی بھائی چارہ کا ماحول پیدا ہوا ہے جس ماحول میں سارے مذاہب کے لوگ بغیر خون خرابہ کئے ایک ساتھ راحت کی سانس لے سکتے ہیں ۔ ایسے امن کے داعی پہ دہشت گردی کا الزام ایسے ہی جیسے امن کو دہشت کا نام دے دیا جائے ۔

میڈیا کسی کو کچھ بھی قرار دے سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے دلائل اور ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیں دہلی میں چاندنی چوک کے پاس کوئی دھماکہ ہو ، کسی اخبار نے کہا القاعدہ کا ہاتھ ہے تو کسی چینل نے کہا لشکر طیبہ کا ہاتھ ہے ۔ بس اسی سے لوگوں میں یہ بات عام ہوجاتی ہے ۔ خبروں کی تحقیق کسے کرنی ہوتی ہے بس سننی ہے اور اعتماد کرلینا ہے ۔ اور اگر سارے میڈیا والے جو بات ایک ساتھ  کہہ دے وہ تو لوگوں کے لئے سوفیصد صحیح ہے چاہے جھوٹ ہی کیوں نہ ہو۔

ہٹلر کے دست راست جوزف گوئبلز کا مشہور زمانہ قول ہے کہ”جھوٹ کو اتنی بار دہراؤ کہ اُس پر سچ کا گمان ہونے لگے۔“

میڈیا  کے لئے جوزف کا یہ قول اصل ہتھیار ہے اسی ہتھیار سے میڈیا جسے چاہتا ہے اپنا شکار بناتا ہے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کے لئے  بھی  یہی حربہ اپنایا جارہاہے ۔ کفر کی ساری طاقت اکٹھی ہوکر انہیں دہشت گردی کے الزام میں ملوث کرنے کے درپے ہیں ۔یہ وہی میڈیا ہے جو 2010 میں ڈاکٹر صاحب کو 100 مؤثر شخصیات میں شامل کرچکا ہے ۔ اور یہ وہی ڈاکٹر صاحب ہیں جنہوں نے اسلامی دنیا کا سب سے بڑا   انعام "شاہ فیصل اوارڈ” حاصل کیا ہے۔  میڈیا کے متعلق ڈاکٹر صاحب کا یہ بیان ہے یہ میڈیا ہیرو کو ولن بناسکتا ہے ۔ آج یہ بات ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔

حکومت نے آپ کی تقاریر پہ چانچ کا حکم دیا ہے ، مجھے لگتا ہے اللہ تعالی کی طرف سے یہ بھی ایک بڑی مصلحت ہے ، اس بہانے کفار کو بھی دین سمجھنے کا موقع ملے گا ۔ اور نہ جانے کتنے لوگ جانچ کے نام پہ ڈاکٹر صاحب کے بیانات سنیں گے ۔ مجھے یقین کامل ہے کہ ویڈیوز سننے کا لوگوں میں منفی اثر کم اور مثبت اثر زیادہ مرتب ہوگا ۔ حق واضح ہوگا اور باطل کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ ان شاء اللہ

اس وقت پوری دنیا میں دعوت دین کے حوالے سے جو سب سے مؤثر شخصیت ہے وہ ڈاکٹر ذاکر نائک ہیں ، سب سے زیادہ ان کے بیانات  سنے جاتے ہیں ۔ ان کے فالوور کی تعداد  اربوں میں ہوگی ، اتنی تعداد کسی ملک کے وزیر اعظم  کے فالوور کی بھی نہیں ہوگی۔ یہ چیزشاید ہندوستان کے پی ایم کو زیادہ ہی کھٹکتی ہے۔

آج جب کفر کی ساری خدائی یک جوٹ ہے اور ڈاکٹر صاحب کو دین کے کاموں سے روکنے کے لئے جال بناجارہاہے ایسے میں ہم مسلمانوں کو فرقہ پرستی چھوڑ کر ایک پلیٹ فارم پہ جمع ہونا چاہئے اور اس مرد مجاہد کو جو ہندوستان جیسے ملک میں جہاں  کی اکثریت ہندو ہے اور ان کو اسلام کی دعوت دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ ان کے اوپر لگائے گئے الزام کی تردید میں تعاون کریں ۔ اس موقع سے میں تمام مکتب فکر کو یہ سوچنے کی دعوت دیتا ہوں کہ آپ اپنے فرقے کا کوئی ایسا مرد مجاہد بتائیں جوبلا خوف وخطر لاکھوں کٹر سے کٹر ہندؤں کے بیچ اسلام کی تبلیغ کرتاہواور انہیں اسلام کی حقانیت کا قائل بھی کرلیتا ہو۔ نیز ہندوستان جیسے متشدد ماحول میں ہزاروں کی تعداد میں اسلام قبول کرتاہو۔ اگر ڈاکٹر صاحب کے بیان سے کوئی ہندو مسلمان ہوتا ہے تو کیا آپ اسے مسلمان نہیں سمجھتے ؟ اگر کفار کے ذہن ودماغ سے اسلام کے تئیں شکوک وشبہات کا ازالہ ہوتا ہے تو آپ کو خوشی نہیں؟ روز بروز ہورہے نئے مسلمانوں سے ہماری تعداد نہیں بڑھ رہی ؟ اسی سے تو ہماری طاقت بنے گی ۔

الحمدمسلک احناف کے بہت سے علماء نے ڈاکٹر صاحب کی  حمایت میں بیان دیا ہے جو مسلم اتحاد کا اچھا تصور دے رہاہے ۔ بریلوی مکتب فکر سے بھی میری گذارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب پہ لگے الزام کی خوشی نہ منائیں بلکہ اس کی تردید کے لئے سامنے آئیں ۔ ڈاکٹر صاحب کا پوری دنیا کے مسلمانوں پہ خصوصا علماء طبقہ پہ قرض ہے ۔ ان کو الزام سے بری الذمہ کراکر اپنے سر سے بوجھ اتاریں۔ دعوت وتبلیغ مسلمانوں اور غیرمسلموں دونوں کے لئے یکساں ہے مگراکثر علماء نے صرف مسلمانوں کی تبلیغ پہ  اکتفاکرلیاوجوہات جو بھی ہوں تاہم خوف اہم اسباب میں سے ہے۔ اس خلا کو اس وقت اگر کوئی صحیح سے پرکر رہا ہے تو بلاشبہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائک ہیں ۔ ہم تمام مکتب فکر کے لوگوں کو اپنے سرسے ڈاکٹر صاحب کا یہ بوجھ اتارنا ہے ۔

ہمارے اندر قطعی یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ وہ ہمارے مسلک کا نہیں ہے ۔ اگر آپ نے ایسا سوچ لیا تو وہ دن دور نہیں جب دہشت گردی کے الزام میں آپ کے بھی علماء، طلباء، مدارس، دینی مراکز اور اصلاحی تنظیموں پر قدغن لگے گی۔

آپ یہ سمجھ لیں ” الکفر ملۃ واحدۃ ” یعنی کافر سب ایک ہی قوم ہیں وہ کبھی ہمارے بھائی اور مددگار نہیں ہوسکتے ۔ آئے دن ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں ، بابری مسجد کا انہدام ہو یا گجرات کا قتل عام ۔ ہمارے بھائی اور ہمارے مددگار اگر کوئی ہوسکتے ہیں تو صرف اور صرف مسلمان ۔ اللہ کا فرمان ہے :

انماالمومنون اخوۃ ۔ مسلمان سب بھائی بھائی ہیں ۔

ڈاکٹر صاحب کا مسئلہ شخصی نہیں بلکہ اسلامی ہے ، اسے شخصی تناظر میں نہ دیکھا جائے ، ہوسکتا ہے آپ کو ڈاکٹر صاحب کے بعض نظریات سے اختلاف ہو ، مجھے بھی بعض افکار سے اختلاف ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس بہانے اسلام اور مسلمانوں کے لئے دہشت گردی کا جواز فراہم کیا جائے ۔

بعض ناسمجھ مسلمان دوسری جماعت کے مسلمانوں پہ کافروں کی طرف سے مصیبت آنے سے خوش ہوتے ہیں ، اور مزید بددعا دیتے ہیں ۔ نبی ﷺ سے محبت کا دم بھرنے والے ایسا کبھی نہیں کرسکتے ، کیونکہ آپ نے تو دشمن کو بھی معاف کیا ، بددعا نہیں دی بلکہ دعا دی ۔اس لئے یہاں ہمیں اچھی طرح  اپنی حقیقت کو سمجھ لینی چاہئے  ۔ہرحال میں اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرنا چاہئے ۔

اللہ تعالی ڈاکٹر ذاکر نائک کے معاملات کو آسان بنائے ، ان پہ الزام لگانے والوں کو  انہیں کے ہاتھ پہ اسلام قبول کرنے کی توفیق دے۔ جو مسلمان نادانی میں ڈاکٹر صاحب سے دشمنی رکھتے ہیں ان کی اصلاح فرمادے اور ڈاکٹرصاحب کو دین کی تبلیغ کے لئے لمبی عمر دے ۔ آمین یارب

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔