مسلم معاشرہ میں والدین پہ ظلم

قمر فلاحی

مرد و زن کے رشتئہ ازدواج سے بندھ جانے کے بعد اس رشتے کا نیا نام زوجین اور والدین ہوجاتا ہے ۔ اس اصطلاح میں گرچہ دونوں شامل ہیں مگر اصلا یہ ایک اصطلاح ہے۔

جو  لوگ اس رشتے کے درمیان کسی بھی طور پہ دیوار ڈالتے ہیں وہ بڑے گنہگار ہیں کیونکہ جن والدین کے آپس میں  ملنے سے بچے وجود میں آتے ہیں وہی بچے ایک دن  انہیں جدا کردیتے ہیں۔

مسلم سماج میں آج یہ وبا پھیل چکی ہے کہ جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو مارے شرم کے ماں باپ الگ الگ کمروں میں سونے لگتے ہیں، نا وہ ساتھ کھاتے ہیں اور نا ہی تنہائی میں ساتھ بیٹھتے ہیں اور اس رواج کو اپنی تہذیبی شان سمجھتے ہیں۔ جان لیں کہ ایسا کرنا سراسر حرام ہے۔

جس اسلام نے ایک شوہر کو یہ بھی اجازت نہیں دی  ہےکہ وہ اپنی خوابگاہ میں اپنے بستر سے اپنی بیوی کو الگ کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے:

وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا﴾ [النساء: ٣٤]

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ خوابگاہ میں بیوی کو الگ کرنے کی اجازت اس صورت میں ہے جب بیوی بغاوت پہ آمادہ ہو اور رشتہ نکاح قریب الختم ہو۔ اس وقت یہ انکے لئے سزا ہوگی۔

لہذا جو لوگ اپنی شریکئہ حیات سے محبت رکھتے ہوئے یہ سزا دے رہے ہیں تو یہ کتنی بڑی سزا وہ دے رہے ہیں۔

ایک شوہر کے لئے یہ کیسے جائز ہے کہ بزرگیت کا بہانہ بناکر ہمیشہ کیلئے اپنی بیوی کو معلق کردے۔

اللہ تعالٰی نے تین اوقات میں والدین کے کمرے میں بغیر اجازت داخل ہونے سے منع فرمایا ہے :

 ۱۔فجر سے پہلے ۲۔ظہر کے وقت ۳۔عشاء بعد  جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (النور٥٨)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ والدین کا الگ سے ایک کمرہ ہوگا جو تاحیات بچوں کے کمرے سے الگ رہے گا۔ والد صاحب کو مہمان خانے میں قطعی نہیں سلایا جائیگا اور نہ انہیں دروازے کا پہریدار بنا کر رکھا جائیگا۔

اللہ سبحانہ کے اس حکم میں بڑی حکمتیں ہیں:

1۔ بڑھاپے میں انحصاری بڑھ جاتی ہے، دونوں ایک دوسرے کے محتاج بن جاتے ہیں۔

2۔ تنہائی میں کبھی کوئی خاص ضرورت پیش آسکتی ہے جسے بیوی ہی پورا کرسکتی ہے۔

3۔ بوڑھوں کیلئے تنہائی خود ایک عذاب ہے جسے اس کی شریکئہ حیات ہی دور کر سکتی ہے۔

4۔ تنہائی میں طرح طرح کے خیالات جنم لیتے ہیں۔ وغیرہ۔

بچے جب بالغ ہوجائیں تو انہیں ایک بستر میں نہ سلایا جائے۔ انکے کمرے اور بستر الگ کئے جائیں ایسا اسلام کا حکم ہے مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ گیا کہ بچے جب بڑے ہوئے تو انہوں ماں باپ کا ہی کمرہ الگ کردیا۔ اور دونوں کو یہ فرمان سنا دیا کہ اب آپ کو تاحیات ایک جگہ نہیں سونا ہے۔ الامان والحفیظ یہ کیسا انصاف ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    یہ ایک معاشرتی المیہ ہے کہ ہم ماں باپ سے دور اور اولاد کے نزدیک ہونے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ تمام ادیان بھی ماں باپ کی عزت و احترام کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔
    لیکن کیا واقعی ہم ماں باپ اور اپنی اولاد کو پیار اور احترام دیتے ہیں۔
    یقیناً دیتے ہیں۔
    لیکن اس پیار اور محبت کے اظہار کے انداز مختلف ہو جاتےہیں۔ اولاد سے بات کرنے کا ہر وقت، وقت ہوتا ہے
    لیکن
    ماں باپ سے پیار اور احترام کے باوجود ان سے بات کرنے کا وقت نہیں نکال سکتے ۔ اور یہی وہ کمی ہے جس کا شکار ماں باپ ہوتے ہیں۔
    آئیے ہم عہد کریں کہ
    ”کچھ ہو جائے۔ صبح و شام خصوصاً اور جب بھی وقت ملے ۔ ماں باپ کے پاس بیٹھ کر ان کی معصوم باتیں سنیں اور اپنی دن کی کارگزاری سنائیں۔ "‘
    یقین رکھئے یہ معمول آپ کے تمام گھر کا ماحول تبدیل کر دے گا۔
    اللہ کی خوشنودی علیحدہ ملے گی۔

تبصرے بند ہیں۔