یوگی کے یم راج

ڈاکٹر سلیم خان

اقتدار سنبھالنے کے بعد یوگی ادیتیہ ناتھ نے بڑے فخر سے اعلان کیا تھا  کہ ہم صوبے میں اور زیادہ لاقانونیت برداشت نہیں کریں گے۔ ہم بہت زیادہ خبردار کرچکے ہیں۔اب ہم لوگ بڑے پیمانے پر کارروائی کرنے جارہے ہیں۔ مجرم اور گینگسٹر یاتو جیل میں ہوں گے یا ریاست چھوڑ کر فرار ہوجائیں گے۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر جرم کریں گے تو ٹھوک دیئے جائیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنی نصف سالگرہ پر پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے ٹویٹ کیا ’’ ۶ ماہ میں ۴۳۰ انکاونٹر اور ۱۸ ہلاکتیں‘‘۔یوگی راج کے پہلے ۱۰ ماہ میں پولس نے ۱۳۳۱ انکاونٹر  کیے جن میں۳۰۹۱ ملزمین کو گرفتار کیا گیا  اور ۴۳ کو مارگرایا۔ اس کارروائی کے خوف سے دس ماہ مہینوں میں  تقریباً ۵۴۰۰ مجرمین نے اپنی ضمانت واپس کرکے خود کو پولس کے حوالے کردیا۔ اس لیے کہ مجرم پیشہ لوگ جیل کو اپنے لیے محفوظ پناہ گاہ  سمجھنے لگے  لیکن منا بجرنگی کے باغپت جیل میں قتل کے بعد صورتحال بدل گئی۔ وہ آخری پناہ گاہ بھی غیر محفوظ ہوچکی ہے۔

 جیل کی چہاردیواری میں ہر ۱۰ ملزم کے اوپر ایک نگہبان ہوتا ہے اگر ویسے میں بھی انسان عدم تحفظ کا شکار ہوجائے تو جہاں دور دور تک کوئی نگہبانی کرنے والا نہ ہو کیا ہوگا۔ یہ سوچ بھی غلط ہے کہ جیل اندر سارے مجرم ہوتے ہیں بلکہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دوتہائی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا مقدمہ زیر سماعت ہو اورعدالت انہیں باعزت رہا کرسکتی ہے۔ ا ب تو نائب وزیراعلیٰ اتر پردیش  کیشو پرشاد موریہ کے الفاظ ہر قیدی کی نیند حرام کیے ہوئے  ہیں۔ انہوں نے  کہا  تھا ’’آج کل مجرم خوفزدہ ہیں سوچ رہے ہیں کہ یاتو وہ جرم چھوڑ دیں یا یوپی  یا ممکن ہے دنیا چھوڑ دیں‘‘۔ بجرنگی کو تو دنیا چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔

جیل کے اندر منا بجرنگی کے قتل  نے ان تمام لوگوں کی دلیل کو تقویت پہنچائی  جو ہندوستان سے فرار ہیں اور اپنی جان کو لاحق خطرے  کے پیش نظر  واپس نہیں  آنا چاہتے۔ ان میں سے ایک تو ڈاکٹر ذاکر نائک ہیں کہ جن کی گرفتاری کا بلبلہ اچانک ابھرا اور پھوٹ گیا۔ملیشیا کے وزیراعظم  مآثر محمد کا بیان اس قدر سخت اور ٹھوس تھا کہ اس نے مستقبل کی بھی  ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ان کے علاوہ وجئے ملیا نے بھی یہی کہا کہ مجھے بلی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ میری جان کو خطرہ ہے۔ ہندوستانی جیل میرے لیے محفوظ نہیں ہے۔  ویسے پہلاج نہلانی وجئے ملیا کی زندگی پر رنگیلا راجہ بنانے جارہے ہیں کوئی بعید نہیں کہ و ہ راجہ آمدنی میں  سنجو کو بھی پیچھے چھوڑ  دے  اس لیے کہ وجئے ملیا کی کہانی سنجے دت سے کہیں زیادہ  رنگین و دلچسپ ہے۔

نیرو  مودی کا معاملہ وجئے ملیا  سے مختلف ہے۔ اس کے نام میں چونکہ  ’مودی‘ شامل  ہے   اس لیے اس کو کوئی بہانہ بنانے کی حاجت نہیں ہوتی۔ مودی للت ہو یا نیرو، مودی مودی ہوتا ہے۔ نیرو نے کہا میں بہت مصروف  ہوں۔  میرے پاس  ہندوستان  تفتیشی ایجنسی کے ساتھ ضائع کرنے کے لیےوقت  نہیں ہے۔ ایسا دوٹوک تضحیک آمیز جواب تو منا بجرنگی نے بھی نہیں دے سکتا تھا لیکن اسے سہہ لیا گیا کیونکہ وہ ایک مودی نے دوسرے مودی کو دیا تھا اور یہ ان کے آپس کا معاملہ تھا۔ یاد کیجیے جب عامر خان نے ذرائع ابلاغ میں کہا تھا کہ  عدم تحفظ کے ماحول میں میری اہلیہ ملک چھوڑنے کا مشورہ دے رہی ہے تو سارے مودی بھکتوں کا خون کھول گیا تھا۔ ان لوگوں نے عامرکو غدار قرار دے کر اس کے بیان کوبھارت ماتا کی توہین قرار دیا تھا۔ اب یہ بات ہندوستان سے مفرور سرمایہ دارساری دنیا کے سامنے کہہ رہے ہیں لیکن دیش بھکتوں کےکان پر جوں نہیں رینگتی۔

وزیراعظم نریندر مودی کے شناسا  اور نیرو مودی کے ماموں میہول چوکسی  نے تو عدالت کو خط لکھ کر  کہہ دیا کہ ہندوستان میرے لیے محفوظ نہیں ہے۔ یہاں عدالت تک میں   ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیںاس لیے میں واپس نہیں آسکتا۔   وہ غالباً دہلی کی عدالت میں کنہیا کمار پر ہونے والے تشدد کا حوالہ دے رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ   عدالت کو کنہیا اور اس کے ساتھی عمر خالد کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا لیکن جے این یو کی  تفتیشی کمیٹی کو مل گیا۔ اس نے ان دونوں پر کی جانے والی تادیبی  کارروائی کو حق بجانب قرار دے دیا۔

میہول چوکسی کی دلیل درست  ہے اس لیے کہ کوئی بعید نہیں کل کو جھارکھنڈ کے  علیم الدین کے قاتلوں کی طرح  سنیل راٹھی کو ضمانت مل جائے اور اتر پردیش کا کوئی دبنگ وزیر اس کا استقبال کرنے کے لیے جینت سنہا کی طرح  جیل   کے دروازے پر پہنچ جائے۔ آگے چل کر  یہ بھی ہوسکتا ہے راٹھی  کے ہاتھ میں کمل پکڑا کر اسے پارلیمانی انتخاب لڑا دیا جائے۔ اس لیے کہ پھولپور، گورکھپور اور کیرانہ کی شرمناک شکست کے بعد اب بی جے پی کو انتخاب جیتنے کے لیے اس کو سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو عوام مودی اور یوگی جیسے باہو بلی کو نہیں پوچھتی وہ بھلا راٹھی کو کیا گھاس ڈالے گی؟

اردو کے مشہور شاعر آنند نرائن ملا الہ باد ہائی کورٹ میں جج کے عہدے پر فائز تھے  انہوں نے ۱۹۶۰ ؁ کے اندر اپنے ایک تاریخ ساز فیصلے میں لکھا تھا ’’میں اپنے ہوش و حواس میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ  ملک میں کوئی ایک بھی  ایسا  قانون شکن گروہ پورے ملک میں نہیں ہے جس کے جرائم کا ریکارڈ ایک واحد منظم اکائی کے قریب تر ہے  اور اس گروہ کا نام ہے ہندوستانی پولس فورس۔ اترپردیش  میں  پولس فورس  مجرموں کا ایک منظم گروہ ہے‘‘۔ جسٹس مارکنڈے کاٹجو اس فیصلے کی بابت لکھتے ہیں اس کی عمومیت کے باعث اس کو ہذف کردیا مگر کچھ حق پسند افسران کے علاوہ اکثر پولس والے  اپنی  بری حرکات کے سبب بدنام ہوچکے ہیں۔ ہندوستان کے عوام کو ان سے تلخ تجربات ہورہے ہیں مثلاً بدسلوکی، رشوت خوری۔ جعلی انکاونٹر، ایف آئی آر درج کرنے سے انکار، رشوت کے بغیر مناسب تفتیش نہ کرنا  اور حراست میں ایذا رسانی یا موت وغیرہ۔  یوگی راج میں ان کی یم راج پولس جسٹس آنند نرائن ملا کے فیصلے کے شواہد پیش کرنے پر تلی ہوئی ہے اور جسٹس کاٹجو کی حرف بہ حرف تائید کررہی ہے۔ افسوس کہ  اس بربریت پر لگام لگانے کے بجائے اسے سراہا جارہا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔