سیکولر اور مغربی ممالک میں خواتین پہ جنسی مظالم

ڈاکٹر احید حسن

امریکی لبرلز کی حقیقت نائن الیون کے بعد سامنے آئی تھی جس میں ہزاروں افراد کو مسلمان ہونے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔یورپ میں 17 سال کی عمر کو پہنچنے تک تقریباً 34 فیصد لڑکیاں کسی نہ کسی صورت میں جنسی زیادتی کی شکار ہوتی ہیں، جبکہ اسی جرم کا نشانہ بننے والے لڑکوں کی تعداد 37 فیصد ہے۔ لڑکیوں کو عموماً جسمانی طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جبکہ لڑکوں کو جسمانی و غیر جسمانی ہر دو طرح سے جنسی تشدد کا سامنا ہے۔گزشتہ سال جنوبی افریقہ میں بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کے ساڑھے تین لاکھ سے زائد واقعات پیش آئے۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ تقریباً 31 فیصد لڑکیوں نے اپنے ساتھ ہونے والے جرائم کی پولیس کو اطلاع کی، جبکہ لڑکوں کی طرف سے پولیس کے ساتھ رابطہ نہیں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق خصوصاً کمسن لڑکے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کے بارے میں کسی کو بتانے سے گھبراتے ہیں۔

2007 کو بی بی سی نے اس حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ برطانیہ میں ہر برس پچاسی ہزار عورتیں اس کا شکار ہوتی ہیں۔ 2009 میں این سی سی پی کی ایک رپورٹ میں اس حقیقت کا انکشاف کیا گیا کہ اٹھارہ برس سے کم عمر کی تقریباً 000،250 لڑکیاں جب کہ سولہ سے انسٹھ سال کے درمیان کی 400,000 خواتین ہر برس ہوس کا شکار ہوتی ہیں۔ مارچ 2012 کو مارٹن بیکفورڈ نے برطانیہ کے ایک اہم اخبار ’’دی ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ میں یہ تفصیل پیش کی کہ جن خواتین پر جنسی حملے ہوتے ہیں ان میں سے پچاسی فیصد اپنی رپورٹ تک درج نہ کراسکیں۔ برطانوی معاشرے کی اکثریت اس کا ذمے دار ذرایع ابلاغ، قانونی نظام اور معاشرے کی اجتماعی ساخت کو قرار دیتی ہے۔ 2003 میں 000،50 خواتین زیادتی کا شکار ہوئیں ۔ ان میں سے صرف 11,867 نے پولیس کے پاس جاکر اپنا مقدمہ درج کرایا اور صرف 629 کو سزا ہوئی۔ یہ ہے یورپ کا وہ انصاف جس کی مثالیں دیتے لبرل سیکولر اور ملحدین تھکتے نہیں۔

رپورٹ کے مطابق انڈیا، نئی دہلی پولیس کی جانب سے سامنے آنے والے سالانہ اعداد و شمار کے مطابق اس شہر میں 2013 میں مختلف جرائم کا تناسب 43 فیصد بڑھ گیا ہے اور گذشتہ سال جرم و جرائم کی تقریبا 74 ہزار وارداتیں ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی کے پولیس اسٹیشنوں میں درج ہوئی ہیں۔بھارت میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے قومی ادارے کا کہنا ہے کہ ملک میں روزانہ اوسطاً جنسی زیادتی کے 92 مقدمے درج ہوتے ہیں۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارتی دارالحکومت دہلی میں فی ایک لاکھ خواتین میں جنسی زیادتی کے معاملات کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

بیورو کے اعداد و شمار کے حساب سے سنہ 2013 میں دہلی میں ریپ کے 1636 مقدمات درج ہوئے جو ملک میں درج ہونے والے مقدمات کا چار اعشاریہ آٹھ پانچ فیصد تھے۔

یہ اعدادوشمار ان واقعات کے ہیں جنھیں پولیس میں رپورٹ کیا گیا اور مقدمہ درج ہوا اور بھارت میں ریپ کے بہت سے معاملے پولیس تھانوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ دہلی میں خواتین کی کل تعداد 87 لاکھ 80 ہزار ہے اور اس حساب سے 2013 میں یہاں ریپ کے مقدمات کی شرح 18.63 فیصد رہی۔ بھارت میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے قومی ادارے کا کہنا ہے کہ ملک میں روزانہ اوسطاً جنسی زیادتی کے 92 مقدمے درج ہوتے ہیں۔ 2014 میں یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے ادارے کے سروے نتائج کے مطابق یونین میں شامل ممالک کی تقریباً ایک تہائی خواتین 15 برس کی عمر سے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار رہی ہیں۔ یہ تعداد چھ کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اب امریکہ پر ایک نظر؛ 2010 کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک منٹ کے دوران 25 لوگ جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس سروے کے نتائج کے مطابق 12 ماہ کے عرصے کے دوران 10 لاکھ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آئے، 60 لاکھ سے زائد مرد اور خواتین کا تعاقب کیا گیا جبکہ 1 لاکھ 20 ہزار مرد و خواتین نے اپنے ہی ساتھی کی جانب سے جنسی زیادتی، جسمانی تشدد یا تعاقب کیے جانے کی شکایت کی۔

اور جو کچھ دن پہلے یورپ میں پکڑا گیا یاد ہے کچھ؟ استاد تھا اور چالیس سال سے بچوں سے جنسی زیادتی کر رہا تھا۔سینکڑوں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا چکا تھا۔ اگر یہ کسی اسلامی ملک یا مولوی کی طرف سے ہوتا تو لبرل اور ملحدین آسمان سر پہ اٹھا لیتے لیکن یہاں ان کا نام نہاد انصاف پسند اور روشن یورپ ہے جس کی گرانٹ کے بغیر ان کے چولہے نہیں جلتے۔

ملحدین  تعصب کی عینک اتار کر ذرا اپنے ہی ان لبرل سیکولر ممالک کی تحقیقات پڑھ لیں جس کے مطابق ان ممالک میں جنسی زیادتی کی شرح باقی ممالک سے کہیں زیادہ ہے اور مولوی بیچارے تو ویسے ہی بدنام ٹھہرے۔ان لبرل سیکولر ممالک کے اخلاقیات کی اصل حقیقت تو خود ان کی اپنی تحقیقات بیان کر رہی ہیں جس میں ایک عورت بھی محفوظ نہیں۔اور واقعی ہماری تو چیخیں نکل گئ ہیں۔ہم تو ٹھہرے پسماندہ بد تمیز ملک۔ملحدین ذرا اپنے لبرل سیکولر ممالک کو تو تمیز سکھا دیں تھوڑی جن کی اسلام کے مقابلے میں ترقی، شعور، امن اور انصاف پسندی کی مثالیں دیتے یہ تھکتے نہیں جہاں عورت کی معذوری کا دوسرا بڑا سبب برائے فرینڈ کا تشدد ہے اور پچاس فیصد سے زیادہ خواتین اپنے پروفیسر بوس اور مرد ساتھیوں کے جنسی حملوں کا نشانہ بنتی ہیں۔پھر اسلامی ممالک پہ تنقید کریں

‏اسرائیل میں غیرت کےنام پر قتل

جرمنی چرچ میں بچوں سےزیادتی

انگلینڈ میں تیزاب گردی

مانچسٹرمیں مسجد نذرآتش

مگر دیسی لبرلز کو اپنے والدین پر بھونکنے کے پیسے نہیں ملتے۔

شرمین عبید چنائے کو مشورہ ہے ان ممالک میں چلی جائیں دس بارہ آسکر مل جائے گے ۔۔۔

نام نہاد ترقی یافتہ امریکہ کی اصل حقیقت جہاں معصوم بچی بھی غیر مرد کیا اپنے سگے  باپ کی جنسی درندگی سے محفوظ نہیں لیکن یہ لوگ پاکستان اور اسلامی ممالک کے جرائم ایسے پیش کرتے ہیں جیسے دنیا بھر کی ساری برائی صرف مسلمان ممالک میں ہے۔

امریکہ میں ایک سکول میں ٹیچر نے 9سالہ بچی کو فحش فلم دیکھتے ہوئے پکڑ لیا۔  دی انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق اس بچی سے جب ٹیچر نے پوچھا کہ تم یہ فحش فلم کیوں دیکھ رہی ہو تو اس نے بتایا کہ ”میں باپ مجھے رات بھر تنگ کرتا رہتا ہے۔ وہ مجھے سونے نہیں دیتا۔“ بچی کی یہ بات سن کر ٹیچر دہل کر رہ گئی اور پولیس کو اطلاع دے دی۔

یہ واقعہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر سین انٹونیو میں پیش آیا ۔تفتیش میں معلوم ہوا کہ یہ بدبخت گزشتہ ایک سال سے اپنی اس معصوم بیٹی کے ساتھ، جب اس کی عمر محض 8سال تھی، یہ کھلواڑ کرتا آ رہا تھا۔

امریکی شہر نیو یارک کے زیر زمین ریلوے نظام یا سب وے سسٹم میں رونما ہونے والے جنسی جرائم کی شرح میں اس سال کے دوران اب تک گزشتہ برس کے مقابلے میں قریب ساٹھ فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
یہ پڑھ لیں کچھ مزید سیکولر اور ملحدین اپنے پسندیدہ شریف اور ترقی یافتہ لبرل سیکولر اور بہت محفوظ ممالک میں عورت پہ ہونے والے جنسی جرم:

لبرل سیکولر امریکا کے فوجی جنرل کی طرف سے بچوں کا ریپ
http://new.juraat.com/2017/07/10/امریکا-کا-اعلیٰ-فوجی-جنرل-جنسی-زیادتی-ک/
لبرلزم کے ٹھیکیدار ملک میں باپ کی بیٹی سے جنسی زیادتی
http://m.dw.com/ur/سوتیلے-باپ-کا-ظلم-دس-سالہ-بیٹی-حاملہ/a-18436102
سیکولرازم کے ٹھیکیدار انڈیا میں باپ کی بیٹی۔ کے سامنے ایک بچی سے جنسی زیادتی
https://www.pakistantribe.com/urdu/2017/07/11/685032
لبرلزم کے ٹھیکیدار ملک میں باپ کی کمسن سگی بیٹی سے جنسی زیادتی
http://www.trt.net.tr/urdu/jnwby-yshy/2015/10/03/khmsn-sgy-bytty-khw-ykh-sl-tkh-drndgy-kh-nshnh-bnnywlgrftr-386867
لبرلزم کے ٹھیکیدار برطانیہ میں باپ کی اپنے ہی بیٹے اور بیٹیوں سے جنسی زیادتی
http://www.dunyapakistan.com/103418/#.WX1M79JRXqA
لبرلزم کے ٹھیکیدار ملک میں خاتون کی لاش سے سیکس
https://www.google.com.pk/amp/s/www.thesun.co.uk/news/3917549/las-vegas-man-sex-dead-body-outside-church/amp/
اور ایک واقعہ۔ملحدین خوش ہوجائیں اب۔عورت کو قتل کرکے اس کی لاش سے سیکس لبرلزم کے ٹھیکیدار ملک میں
https://www.google.com.pk/amp/www.mirror.co.uk/news/world-news/man-killed-woman-continued-sex-7865892.amp

ان دونوں نے میری دس سالہ بیٹی کو نشے کا انجکشن لگایا،  پھر اس کی عصمت دری  کی اور اس کے جسم کے ٹکڑے کر دیئے۔
میں یہ سب دیکھ رہی تھی اورمیں نے انہیں روکا بھی نہیں کیونکہ  مجھے اچھا لگ رہا تھا۔

اس کے بعد میں نے ان دونوں کے ساتھ ہوٹل میں کھانا کھایا اور پوری رات دونوں کے ساتھ انجوائے کرتی رہی‘

یہ بیان ایک روشن خیال اور مہذب عورت کا ہے جو  اپنی دس سالہ بیٹی کی عصمت دری اور قتل  میں ملوث تھی۔

  رومانیہ ،جرمنی ،اسٹریلیا اور انگلینڈ  میں۔۔۔لبرل معاشرے کی دوشیزائیں، جب حالات سے مجبور ہو کر، اپنی سٹڈی اور  رہائشی اخراجات کی ادائیگی کے لیے، اپنی دوشیزگی کسی لبرل سرمایہ دار کو بیچتی ہیں۔ تو میں اس لبرل سے پوچھتا ہوں کہ ، تو نے ایک لڑکی کی مجبوری اور بے بسی کا ناجائز فائدہ کیوں اٹھایا۔ کہاں گئے اسلامی ممالک کو بدحالی اور غربت کا طعنہ دینے والے۔
وہ لندن کی گلیوں میں بھوک سے پریشان، حالات کی ستائی کوئی لڑکی جب ایک برگر  پہ اپنی دوشیزگی ایک لبرل کو فروخت کرتی ہے ۔ تو میں اس لبرل سے پوچھتا ہوں تو نے ایک دیوار سے لگی مجبور  اور بھوکی لڑکی کا ناجائز فائدہ کیوں اٹھایا ۔ کہاں گئے اسلامی ممالک کو بدحالی اور غربت کا طعنہ دینے والے۔

جب ایک لڑکی لبرل معاشرے میں پروسٹیٹوٹ بنتی ہے۔جس کے نازک بدن کو یہ لبرل توڑتے اور نوچتے ہیں۔  تو میں پوچھتا ہوں لبرل سے کہ، وہ ڈاکٹر یا انجینئر یا کچھ اور کیوں نہ بن سکی۔تمہارا معاشرہ تو ہر فرد کو یکساں حقوق دیتا ہے۔  تو ذلت والی زندگی اس لڑکی کا مقدر کیوں۔

جب بنگلور میں ویلنٹائن ڈے پہ گلیوں میں لبرل لونڈےکہاں گئے اسلامی ممالک کو بدحالی اور غربت کا طعنہ دینے والے۔ لڑکیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔اور ان کے نازک جسموں کو توڑتے اور بھنبھوڑتے ہیں۔تو میں ان لبرلز سے پوچھتا ہوں کہ ، تم نےراہ چلتی نہتی لڑکیوں سے ناجائز فائدہ کیوں اٹھایا؟ کہاں گیا یورپ کا روشن، امن پسند معاشرہ۔
وہ سوئیزرلینڈ میں جب عورتیں مردوں کے ناروا   ،رویے  اور بے وفائیوں سے تنگ آ کر جانوروں سے شادیاں کرتی ہیں ۔تو میں پوچھتا ہوں اس لبرل معاشرے سے ۔کہ عورت  کو ایسے ذلیل حالات میں کس نے دھکیلا؟ کہاں گئے اسلامی ممالک کو بدحالی اور غربت کا طعنہ دینے والے۔

جب آسٹریا میں ایک 73 سالا باپ اپنی بیٹی کو قیدی بنا کر 24 سال تک زنا کرتا ہے۔ تو میں پوچھتا ہوں لبرل معاشرے سے۔ کہ ایک بیٹی کو قیدی بنا کر اس کے باپ نے حرام کام کیوں کیا؟

جب زمبابوے اور امریکا  جیسے ملک  میں، بیٹے اپنی ہی ماؤں سے شادیاں کرتے ہیں۔ تو میں پوچھتا ہوں اس  لبرل معاشرے سے۔کہ اتنا ذلیل اور حرام کام کیوں ہو رہا ہے؟ جب کہ عیسائیت اور یہودیت میں بھی یہ جائز نہیں ہے۔

جب کسی لبرل کے گھر ڈاکو آتے ہیں۔اور وہ مال ودولت کے ساتھ ان کی گھریلو عورتوں کی عزت بھی لوٹتے ہیں۔تومیں پوچھتا ہوں کہ کہاں گیا تمہارا امن۔  تو لبرل درست جواب دیتا ہے۔ کہ وہ مجبور تھیں۔

پھر میں پوچھتا ہوں لبرل سے، کہ تجھے اپنی پڑھائی کے لیے دوشیزگی بیچنے والی لڑکی کی مجبوری کیوں نظر نہیں آتی؟تجھے ایک برگر کے لیے اپنا جسم بیچتی لڑکی کی مجبوری کیوں نظر نہیں آتی؟ تجھے اپنے گھریلو حالات سے تنگ آ کر پرسٹیٹوٹ بننے والی لڑکی کی مجبوری کیوں نظر نہیں آتی؟ جب عورتیں تم جیسے لوگوں کی وجہ سے جانوروں سے شادیاں کرتی ہیں تو تمہیں ان کی مجبوری کیوں نظر نہیں آتی۔ جب تم عورت کو پیسے کا لالچ دے کر برہنہ نچاتے ہو ،تو تمہیں اس عورت کی مجبوری کیوں نظر نہیں آتی۔

لبرل معاشروں میں جب سرمایہ دار پیسے پہ سانپ بن کے بیٹھتا ہے۔ تو افراط زر پیدا ہوتا ہے۔پیسہ چند ہاتھوں میں سمٹتا جاتا ہے۔امیر زیادہ امیر اور غریب زیادہ غریب ہوتا جا تا ہے۔ جب غریب دیوار سے جا لگتا ہے۔تو وہ ہر کام کرنے میں مجبور ہو جاتا ہے۔ اس مجبوری کو لبرل کہتا ہے۔Her body Her choice ۔

ریپ کے حوالے سے ٹاپ 10 ملکوں کی فہرست  میں دسویں نمبر پر ملک ایتھوپیا ہے جہاں کی ساٹھ فیصد خواتین کو سیکسوئیل وائلنس کا سامنا کرنا پڑا اور ہر سترہ میں سے ایک خاتون ریپ کا شکار ہوئی.. یاد رہے کہ یہ کوئی مسلمان ملک نہیں بلکہ ایک عیسائی ملک ہے… ریپ کے حوالے سے ہی نوواں بڑا ملک سری لنکا ہے … یہ بھی مسلم ملک نہیں…

خواتین سے بدسلوکی اور بے حرمتی کے حوالے سے فہرست میں آٹھواں بڑا ملک کینیڈا ہے جہاں 2,516,918 ریپ کیسز دو ہزار ایک سے اب تک رجسٹرڈ ہوے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ وہاں کے سرکاری محکموں کا یہ ماننا کہ یہ رجسٹرڈ  کیسز ٹوٹل کا چھ فیصد بھی نہیں …

یاد رہے کینیڈا بھی مسلم ملک نہیں بلکہ ایک لبرل اور آزادی پسند ملک ہے…

ساتواں نمبر  فحاشی و عریانی جسے یار لوگ آزادی اور حقوق بھی کہتے ہیں میں سرفہرست ملک فرانس کا ہے … کیا آپ جانتے ہیں کہ 1980 سے پہلے تک تو یہاں ریپ کوئی  جرم سمجھ ہی نہیں جاتا تھا .. اس کے سدباب کا کوئی قانون سرے سے ہی موجود نہیں تھا   … عورت پر جنسی اور جسمانی تشدد پہ قانون بنایا ہی 1992 کے بعد گیا……

فرانس جیسے لبرل ملک میں سالانہ 75000 ریپ کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں ..

چھٹے پر ٹیکنالوجی کے بادشاہ جرمنی کا نمبر آتا ہے جہاں اب تک 6505468 کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں یاد رہے ان میں سے 240000 سے زیادہ متاثرہ خواتین خودکشی و تشدد سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں … ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتے اس ملک میں انسانیت اتنی ہی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے…….

پانچواں نمبر انگلینڈ کا ہے جہاں ہر 16 سے 56 سال کی عمر کی ہر پانچ میں سے ایک عورت کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے…..
سالانہ چار لاکھ خواتین انگلینڈ میں اپنا وقار کھو بیٹھتی ہیں۔ چوتھے نمبر پر مشہور ملک ریپستان مطلب ہندوستان آتا ہے , جہاں ہر بائیس منٹ بعد ریپ کا ایک کیس رجسٹرڈ کیا جاتا ہے … یاد رہے اعداد و شمار کے ماہرین کے نزدیک یہ تعداد اصل تعداد کا دس فیصد بھی نہیں کیوں کہ پسماندگی کی وجہ سے نوے فیصد خواتین رپورٹ درج نہیں کرواتیں ۔ تیسرے نمبر پہ سویڈن آتا ہے جہاں ہر چار میں سے ایک عورت ریپ اور ہر دو میں سے ایک عورت سیکسوئیل ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہے…..

دوسرے نمبر پہ ساؤتھ افریقہ آتا ہے جہاں بلحاظ آبادی سالانہ 65000 سے زائد کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں … ساؤتھ افریقہ بیبی اینڈ چائلڈ ریپ اور ہراسمنٹ کے حوالے سے بھی دنیا میں بدنام ترین ملک جانا جاتا ہے….  اور آخر میں پہلے نمبر پہ ہے مہذب ترین ملک امریکہ  مہذب اور روشن خیال ملک ہونے کی وجہ سے یہاں کے کیسز بھی کافی عجیب و غریب واقع ہوے ہیں … یہاں ہر چھ میں سے ایک عورت تو ریپ کا لازمی شکار ہوئی ہے پر ہر 33 میں سے ایک مرد بھی عورتوں کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہوا ہے …  19.3% عورتیں اور  3.8% فیصد امریکی مرد  زندگی میں کم ازکم ایک دفعہ ریپ کا لازمی شکار ہوۓ۔

سیکولرازم اور الحاد کے دعویداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں ان سب زیادتیوں کے کیس رپورٹ نہیں ہوتے جب کہ  یورپ  کے ہاں ساری چیزیں رپورٹ ہوتی ہیں جب کہ خود سروے رپورٹ ثابت کر رہی ہے کہ یورپ و امریکہ میں زیادتی کے کافی سارے کیس رپورٹ نہیں کیے جاتے۔اور رپورٹ کے مطابق پہلے ہی ان ممالک میں جنسی زیادتی کی شرح بہت زیادہ ہے اور جو کیس رپورٹ نہیں ہوتے ان کی تعداد الگ ہے۔

ملحدین کہتے ہیں کہ مذہبی اور مولوی لوگوں کا آئی کیو لیول کم ہوتا ہے۔ ذرا کسی سائنسی یا سٹیٹسکس کی تحقیق کا لنک پیش کریں گے جس کے مطابق ثابت ہوتا ہو کہ مولوی طبقے کا آئی کیو لیول عام لوگوں سے کم ہوتا ہے؟

ہم نے ملحدین کے پسندیدہ نام نہاد معصوم شریف، انصاف پسند، ترقی یافتہ اور مظلوم لبرل سیکولر ممالک میں ہونے والے جنسی جرائم کی تفصیل پیش کی ہے۔ملحدین ذرا پڑھ لیں کہ خود تحقیق کے مطابق ان ممالک میں جنسی زیادتی کی شرح باقی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔پھر بعد میں مولوی اور دینی طبقے کے خلاف اپنے خبث باطن کا اظہار کریں۔اور ذرا تعصب کی عینک اتار کر خود انہی لبرل ممالک کی تحقیقات پڑھ کر دیکھ لیں جو ملحدین کے ان لبرل سیکولر ممالک کو ننگا کرکے پیش کر رہی ہیں۔

جب قصور یورپ کا ہو تو کہتے ہیں کہ سارے کافر اور ملحد قصور وار نہیں لیکن جب کوئ قصور کسی مولوی کی طرف سے ہو تب یہ لبرل کہتے ہیں کہ اس کا قصور سب مولویوں کو دینا ٹھیک نہیں؟جب خود پہ بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ سارا لبرلزم قصور وار نہیں۔یہ دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے۔ یہاں ملحدین و سیکولرز کی انسانیت کہاں مر گئ ہے۔ان ممالک میں جتنے جرائم ہیں اتنے تو مسلم ممالک میں بھی نہیں۔خود تحقیق کہ رہی ہے۔لیکن ملحدین کو صرف مولوی ہی لونڈے بازاور زانی لگتے ہیں۔ملحدین ذرا تعصب کی عینک اتار کر اپنے ان لبرل سیکولر جنسیت پرست لونڈے بازوں  اور عورت کی عزت لوٹنے والوں کی بھی خبر لے لیں اگر ذرا مولوی دشمنی کا بخار کچھ کم ہوگیا ہو۔اور رہا ملحدین کا سوال کہ ہمیں اپنے ملک کی فکر ہونی چاہیے تو پھر ملحدین بھی ہمارے ممالک میں برائی کی فکر چھوڑ کر پہلے اس دنیا کی فکر کریں جس میں یہ جرائم میرے ملک سے کئ گنا زیادہ ہیں لیکن نہیں نہیں۔ بات یہ ہے کہ مسلمان ان افعال کو برا سمجھتے ہیں اور ان کے سدباب کا اہتمام۔   جو مسلمان دین کو برطرف رکھ کر انسانیت سوز کام کریں تو اسی لئے اللہ تعالی نے آخرت کا عذاب رکھا ہے۔

ملحد لوگوں کے لئے کیا عذاب کیا ثواب۔ وہ اپنے چار دن لے چسکوں کے لئے پورے معاشرے میں بے حیائی پھیلا ئیں اور پھر اس کے نتیجے میں ہونے والے ظلم سے بھی بری الذمہ ہوجائیں تو یہ تو دوغلہ پن اور کمینگی ہے۔

اوپر موجود تمام اعداد و شمار مختلف ویب سائیٹس سے لئے گئے باقی ویب سائیٹ بھی دیکھیں ان میں بھی ٹاپ ٹین کنٹریز یہی ہیں بس ترتیب آگے پیچھے ہے … ان سب ملکوں میں آپکو کسی مسلم ملک کا نام نظر نہیں آئے گا … اگر آپ تیزاب گردی کے حوالے سے  سرچ کریں تو بھی یہی ملک آپ کو سب سے زیادہ متاثرہ نظر آئیں گے ..  جی یہی وہ ممالک جنہیں ہمارا میڈیا جنت بریں ثابت کرنا چاہتا ہے … جن کی ہمارے ہاں موجود لبرل باندر مثالیں دیتے ہیں … افسوس کہ ہزاروں مختاراں مائیوں اور ملالاؤں پہ مشتعمل   امریکہ اور دوسرے ان ممالک میں کوئی این جی اوز نہیں یہاں کسی شرمین عبید چنائی کو گھاس نہیں ڈالی جاتی .. یہاں کی کوئی این جی او اس بدترین کام پہ اپنے سسٹم پہ نوحہ کناں نظر نہیں آتی … اور مزے کی بات یہ کہ ان ممالک میں کسی ملا مدرسے کا ہولڈ نہیں … عورتوں کے حقوق نہیں دبائے جاتے ہاں عورتوں کے ریپ وہ بخوشی کر دیتے ہیں … چند سال پہلے کہیں پڑھا تھا کہ آزادی نسواں درحقیقت عورت تک پہنچنے کی کوشش کا نام ہے … ابھی جب اعداد شمار دیکھے تو اس بات پہ یقین ہوا کہ واقعی ہی آزادی کے نام پہ اس مہذب معاشرے نے عورت کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا .. اس سے گھر چھینا , تقدس چھینا , عزت چھینی , برابری کے نام پر مشقت کرائی گئی , برینڈ بنا کر بیچا گیا … بازاروں میں نیلام کیا گیا … عورت کی آزادی کے نام پر جنس و پیسے کے ان پیاسوں نے اسے خوب بیوقوف بنایا , بارہ سے تیرہ سال کی بچیاں بھی ان ہوس کے پجاریوں سے محفوظ نا رہ سکیں … سال میں ایک کیس  پاکستان سے لیکر رونا پیٹنا کرنے والی یہ منحوس مائیاں کیا بارہ بارہ سال کی ان امریکی بچیوں کے بارے میں جانتی بھی ہیں جو کہ کم عمری میں ہی مائیں بن گئیں ؟

میرے خیال میں عورت کی آزادی کے نام پر جنس کا کاروبار چلانے والے صحافیوں , اور کوٹھے چلانے والی ان سو کالڈ لبرل نائیکاؤں کو ڈرموں میں ڈال کر امریکہ و یورپ کی ان جعلی جنتوں میں بھیج دینا چاہئے … کہ  حقوق تو فی الحال وہاں کی مظلوم عورتوں کو  چاہئے …یہاں تو عورتیں محفوظ ہیں….اسلام میں نہ لبرلزم ہے نہ سیکولرازم۔مسلمانوں کو چاہئے کہ یہ دھوکا خیز نعرے چھوڑ کر لبرل کی جگہ مسلمان اور محمدی کا لفظ استعمال کریں۔

سیکولر اور ملحدین کی نظر میں تو دنیا کی ہر برائی صرف اور صرف پاکستان اور اسلامی ممالک میں ہے۔یورپ اور امریکا تو جیسے اب زم زم کے دھلے  ہوئے ہیں۔

سیکولرازم اور ملحدین کی نظر میں روشن خیالی اور چم چماتی  مغربی تہذیب کی ہمیں بھی ضرورت ہے لیکن ہم جاہل ابھی تک مان نہیں رهے۔

حوالہ جات:

https://www.facebook.com/maarKhor.official/
http://www.dunyapakistan.com/86475/#.WXboK9JRXqA
https://www.express.pk/story/182081/
http://urdu.shiitenews.org/index.php?option=com_k2&view=item&id=22122:2014-09-15-08-18-48&Itemid=237
http://www.bbc.com/urdu/regional/2014/07/140702_india_rape_ratio_zs
http://www.bbc.com/urdu/regional/2014/07/140702_india_rape_ratio_zs
http://m.dw.com/ur/نیو-یارک-سب-وے-سسٹم-میں-جنسی-جرائم-میں-ساٹھ-فیصد-اضافہ/a-19348346
http://policepicsandclips.com/mom-watched-daughters-rape-and-murder-before-having-sex-and-making-dinner-with-killer-2/
http://www.bbc.com/urdu/regional/2014/07/140702_india_rape_ratio_zs

تبصرے بند ہیں۔