مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی ناممکن 

اسجد عقابی
بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا،اس کے علاوہ مرکزی حکومت سے اور کسی چیز کی امید بھی نہیں تھی۔
تقريباً سارے ہی مفكرين و دانشوران کو یقین تھا کہ اس بار حکومت پوری تیاری کے ساتھ مسلم پرسنل لاء پر شب خون مارنے کو تیار بیٹھی ہے۔ پہلے ایک پورا پروگرام تیار کیا گیا،میڈیا کے ذریعہ اس مسئلہ کو خوب اچھا لا گیا، ایسے نام نہاد مسلمانوں کی ایک جماعت تلاش کی گئی جنہیں خدا واسطہ اسلام اور شریعت مطہرہ سے بیر ہے،جن کے شب و روز حرام خوری و حرام کاری میں گزرتے ہیں،ایسے لوگوں کو میڈیا ہاؤس میں بلا کر اسلام کے اس اہم موضوع پر اَن گنت debate کرائے گئے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اسلام کا یہ قانون اب سماجی اصلاحات کے آڑے آرہا ہے اسلئے اس میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ اسلام کے کسی بھی عائلی قانون میں ترميم کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔کوئی بڑے سے بڑا عالم یا اسلامی تعليمات کا ماهر یا پھر کوئی حکومت اس میں تبدیلی پیدا کرنا چاہے تو مسلمانوں کا باضمیر طبقہ ایسے مولوی یا ماهر کو گھاس کے دام میں بھی نہیں پوچھے گا چہ جائے کہ ایسے لوگوں کی جماعت جو خود نفس مسئلہ سے ہی واقف نہیں ہے۔ کیا کوئی حکومت یا پھر خود مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ ایسے قوانين جو قرآن و حديث سے واضح ہیں اور جن پر ا جماع ہوچکا ہے اس میں تبدیلی کرسکے؟
اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک چھوٹا سا واقعہ ملاحظہ فرمائیں حضرت عائشة رضي اللہ عنها سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ قريش کو قبیلہ مخزومیہ کی ایک عورت کے متعلق بہت فکر لاحق ہوئی جس نے چوری کیا تھا،لوگوں نے کہا کہ اس معاملہ میں کون جرأت کر سکتا ہے سفارش کرنے کی ،یہ جرات اسامہ بن زيد کرسکتے ہیں جو آپ صلى اللہ علیہ و سلم کے بہت چہیتے تھے ،حضرت زید نے سفارش کی تو آپ صلى اللہ علیہ و سلم غصہ ہوگئے اور کھڑے ہوکر خطبہ دیا ،فرمایا تم سے پہلے امتیں اسی لئے تباہ ہوگئی کہ ان میں اگر کوئی شریف (صاحب حیثیت) چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے اور کوئی غریب چوری کرتا تو اس پر اللہ کی حد جاری کرتے۔ آپ صلى اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو ضرور اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا (رواه مسلم)
 اس حديث کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے عائلی قوانين میں ترميم کی کوئی گنجائش نہ چودہ سو سال قبل تھی اور نہ اب اس میں ترميم کی کوئی صورت ہو سکتی ہے اور پھر ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں جہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب کے تئیں مکمل آزادی ہے۔ ہمارے ملک میں بے شمار ایسے تہوار ہیں جو چند علاقہ یا چند لوگوں تک محدود ہیں، ہندؤوں کے کچھ تہوار جو ساؤتھ انڈیا میں منائے جاتے ہیں لیکن نارتھ انڈیا میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے،لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے کوئی اعتراض کیا ہے،لیکن دو چار نام نہاد مسلمان کی وجہ سے پوری قوم کو مصیبت میں مبتلا کرنا کہاں کی حماقت ہے۔ ایسے حلف نامہ کو کیا کہا جاسکتا ہے جیسا کہ حکومت نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ طلاق ثلاثہ اسلامی اصولوں میں سے نہیں ہے اسلئے اگر اس پر پابندی عائد ہوجاتی ہے تو اس سے اسلام کے بنیادی اصول پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اسی طرح مسلم عورتوں کے تئیں خواہ مخواہ کی ہمدردی کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی دُہائی دی گئی ہے،تعددازواج اور نکاح حلال کو بھی بند کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔کیونکہ اس سے عورت کی عزت نفس پر دھچکا لگتا ہے۔ طلاق ثلاثہ اسلامی اصولوں میں سے ہے یا نہیں ،اس بات کا فیصلہ بہت پہلے ہوچکا ہے،ائمہ اربعہ کا متفقہ فیصلہ ہے،یہ بات بھی درست ہے کہ یہ طريقہ غلط ہے، جس طرح ہندوستان میں کسی کو قتل کرنا منع ہے، لیکن اگر کسی نے قتل کردیا، قتل تو واقع ہوجائے گا لیکن اس جرم کی بنا پر قاتل کو سزا ہوگی اور جو بھی عدالت عالیہ فیصلہ سنائے اس پر عمل کیا جائے گا۔بعینہ اسی طرح طلاق تو واقع ہوجائے گی لیکن طريقہ اسلام کے بالکل خلاف ہے۔قرآن و حديث میں بہت وضاحت کے ساتھ مذكور ہے کہ اگر شوہر بیوی میں نباہ مشکل ہورہا ہے تو پہلے حتی المقدور خود صلح کی کوشش کرے اگر اس سے بھی بات نہ بن سکے پھر اپنے بڑوں کے ذریعہ معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کرے پھر بھی اگر نباہ کی کوئی شكل نہ بن سکے تب حالت طہر میں صرف ایک طلاق رجعی دے تاکہ بعد میں رجعت کی گنجائش باقی رہے۔اتنا مرتب اور قابل عمل طريقہ ہے جس سے عموماً گھر دوبارہ بَس جاتے ہیں ان باتوں کا مشاہدہ ہندوستان میں قائم دارالقضاء میں کیا جاسکتا ہے اور جہاں تک بات عورتوں سے ہمدردی کی ہے تو یہ بات اظهر من الشمس ہے کہ جو مقام اور عزت اسلام نے عورتوں کو عطا کیا ہے اس سے دیگر اقوام عالم کے دامن خالی ہیں ،مغرب زدہ ان فیشن کے پجاریوں کو بتایا جائے کہ آج بھی مسلمانوں میں دیگر اقوام کے مقابلہ میں شرح طلاق بہت کم ہے، اسی طرح تعدد ازواج کا مسئلہ ہے،ہمارے ملک میں اگر کوئی شخص کسی عورت سے بغیر نکاح اور بغیر سات پھیرے لگائے تعلقات قائم کرتا ہے تو یہ قانونا جرم نہیں ہے اور یہ عموما اس صورت میں ہوتا ہے جب پہلی بیوی موجود ہو، اب دوسری شادی تو وہ نہیں کرسکتا ہے،اسلئے اسے ضرورت پیش آتی ہے ایک ایسے سامان کی جسے استعمال کے بعد بآسانی پھینک دیا جائے اور ہندوستان میں اس طرح کے بے شمار حادثات ہر دن پیش آتے ہیں اور یہ چیز جرم کے دروازہ بھی کھول دیتی ہے۔اسلام کا قاعدہ ہے کہ اگر انصاف کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور پہلی بیوی راضی ہوجائے تو نکاح ثانی کرسکتے ہیں،ان صورتوں میں جو زیادہ احسن اور سماج میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے والا عمل ہے وہ نکاح کا ہے نہ کہ ’’رکھیل‘‘کا۔ایسی عورتوں کو سماج میں کبھی بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے،حتی کہ ایسی عورتوں کو کوئی اپنانے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتا ہے مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ہے جو شروع سے طلاق ثلاثہ کے منکر رہے ہیں ۔مگر اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ کچھ پیچیدہ اسلئے ہے کہ حکومت کو ان کی شكل میں ایک گروہ مل گیا ہے جو اسلام کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔
آج مسلمانوں کے اس قانون میں حکومت نے ہاتھ ڈال دیا ہے اگر مسلمان خاموش رہ گئے تو کل سے ہر دن مسلمانوں کے ایک شعار پر پابندی عائد ہوتی چلی جائے گی،مسلم پرسنل لاء کے حفاظت کی ذمہ داری صرف ان چند افراد پر مشتمل نہیں ہے جو اس سے باضابطہ وابستہ ہیں،یہ تو ہر مسلمان کی اپنی ذمہ داری ہے کہ اپنی زندگی کو شریعت کے طور پر گزارے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب مسلم پرسنل لاء بورڈ محفوظ رہے گا۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ ہوگیا تو ملک میں بدامنی پھیل جائے گی اور ملک کا ایک بڑا طبقہ اس کے خلاف ہوجائے گا۔ سکھ ،بدھسٹ، عیسائی اور کچھ قبائلی لوگ جن کے اپنے طور طريقہ ہیں، یہ کس قانون کے تحت آئیں گے، کیا انہیں بھی مجبور کیا جائے گا کہ وہ یکساں سول کوڈ کو اپنائے، یہ سب مسلمانوں کیلئے ایک دھوکہ ہے،فریب ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔جو کاری ضرب مسلمانوں پر پڑے گی اور جتنا متاثر مسلمان ہوگا اور کوئی نہیں ہوسکتا ہے،اسلئے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے،اور ملک گیر پیمانے پر پُر امن احتجاج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کو یہ احساس ہوجائے کہ مسلمان ابھی بیدار ہے۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔