احمد اشفاق: ’بے سمت منزلوں کا نشاں ڈھونڈتے ہیں ہم’ ( آخری قسط)

نوشاد منظر

اردو شاعری کا مجموعی طور پر جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ہی زمین اور ایک ہی موضوع پر بہت سے شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ہے۔موضوع تو عموما پرانے ہی ہوتے ہیں مگر شاعر کا کمال فن یہ ہے کہ وہ کس طرح اس پرانے اورد بعض موقعوں پر فرسودہ مضامین کو نیا اور اپنا بناکر پیش کرتا ہے۔
اردو شاعری اور فکشن دونوں ہی جگہ ہجرت کے موضوع کو پیش کیا گیا ہے۔ہجرت سے عام مراد اس تاریخی واقعے بلکہ حادثے کو لیا جاتا ہے جب ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا وجود عمل میں آیا، اور دونوں طرف کے لوگ اپنا مکان ،زمین جائیداد کے ساتھ اپنی یادوں کو بھی چھوڑ کر دوسرے مقام پر بسنے کے لیے مجبور ہوئے۔ احمد اشفاق کے یہاں بھی ہجرت کا بیان ملتا ہے مگر ان معنوں میں نہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا۔ احمد اشفاق کے ہجرت کا مفہوم دراصل بیرون ملک روزگار کی تلاش میں مقیم لوگ ہیں۔ روزگار کی تلاش میں اپنے وطن اور اہل خانہ سے دور زندگی کیسی تکلیف دہ ہوتی ہے اس کا احساس ان لوگوں کو زیادہ ہوسکتا ہے جو خود بھی اس تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں۔احمد اشفاق کے یہاں مہاجر( بیرون ملک میں نوکری کے خاطر مقیم) کی ترجمانی نظر آتی ہے۔احمد اشفاق کے یہاں ایسے بہت سے اشعار مل جاتے ہیں جن میں مہاجر کی تکلیف کو بیان کیا گیا ہے۔احمد اشفاق کی شاعری میں ہجرت کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حقانی القاسمی لکھتے ہیں:
’’احمد اشفاق کی شاعری کا سارا حسن معاشی ہجرت اور وطن سے جذباتی قربت کے تجربے میں مضمر ہے۔ہجرت کی آگ نہ ہوتی تو مٹی کی مہک اور وطن کی خوشبو سے یہ شاعری گلزار نہ بن پاتی۔انہوں نے خارجی ماحول اور تغیرات کو بھی ذہن کے موسموں کا محرک عنصر اور انگ بناکراپنے داخلی آہنگ کو زندہ و تابندہ رکھا ہے۔ دیار غیر کے افق پر انہیں اپنی مٹی کاہی چاند چمکتا نظر آتا ہے اور یہی چاند اس تمازت کو سکون و اطمینان عطا کرتا ہے جو اجنبیت یا ہجرت کی وجہ سے اکثر ذہنوں میں پیدا ہوجایا کرتی ہے۔‘‘
(باغ سخن کا گل تازہ۔حقانی القاسمی، دسترس، ص25)
ہجرت کا کرب وہ لوگ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اس درد کو محسوس کیا ہو۔ہجرت کی نوعیت خواہ کیسی بھی ہو درد کم و بیش ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔احمد اشفاق کے یہاں ہجرت کی تکلیف اور درد کو بآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ ہو :
صلہ بس یہ ملا ترک وطن کا
ہماری گھر میں وقعت ہورہی ہے
جب بھی میرے سامنے ہجرت کا منظر آگیا
یوں ہوا محسوس دل سینے سے باہر آگیا
بے سمت منزلوں کا نشاں ڈھونڈ رہے ہیں ہم
کتنی ہیں راہِ شوق میں دشواریاں نہ پوچھ
احمد اشفاق کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ایسے بہت سے اشعار ہمیں مل جاتے ہیں جن میں وطن کی یاد، اس سے محبت اورروزگار کی تلاش میں ہجرت کے کرب کا احساس بدرجہ اتم موجود ہے۔ احمد اشفاق کی شاعری اپنے ماحول کی شاعری ہے ۔ وہ اپنے تجربات و احساسات کو کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ آپ بیتی جگ بیتی بن جاتی ہے۔
احمد اشفاق کی شاعری میں عصری مسائل کو نہایت خوبصورت پیرائے میں پیش کیا گیا۔ دہشت گردی آج ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس مسئلہ سے پوری دنیا متاثر نظر آتی ہے۔ہمارے شعرا اور ادبا نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھا اور محسوس کیا۔معاصر اردو شعر و ادب کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے شاعر و ادیب نے ا مسئلہ کو نہ صرف سنجیدگی سے لیا بلکہ اس کو موضوع بنا کر اپنی عمدہ تخلیقات سے اس دہشت گردی کے خلاف صف آرا بھی ہوئے۔احمد اشفاق نے بھی اس موضو ع پر کچھ اشعار کہے ہیں۔
وقت نے معصوم بچوں کی پڑھائی چھین لی
جن کے ہاتھوں میں قلم ہونا تھا خنجر آگیا
معاصر عہد کا سب سے بڑا مسئلہ موجودہ سیاست اور ہمارے سیاسی لوگ ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ آج کی گندی سیاست نے ہی دنیا بھر میں نفرت ، خون ریزی اور دہشت گردی کو بڑھایا ہے۔آج پوری دنیا میں مذہب کے نام پر ایک دوسرے کو متحد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کا دشمن بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ عدم مساوات، عدم رواداری اور عدم تحفظ کا احساس ہر مذہب کے ماننے والو ں کے دلوںمیں خوف بنائے ہوئے،ہماری حکومتیں ان مسائل کو دور کرنے کے بجائے اس میں اضافے کئے جارہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مذہب انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے، وہ خون ریزی نہیں محبت کا پیغام دیتا ہے۔ہمارا کوئی دشمن اگر ہے تو وہ بھوک اور افلاس ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان اتنی بڑی مالی خلیج بن گئی ہے جس سے نفرت کا عنصر دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔احمد اشفاق نے افلاس اور بھوک کے درد کو سمجھا ہے۔ وہ سیاسی نظام پر بھی طنز کرتے ہیں۔چند اشعار دیکھئے:
نحوست بھوک اور افلاس کی ہر سمت پھیلی ہے
مگر پھر بھی ہمارے ملک کی سرکار چلتی ہے
مسئلے مشترک ہیں ہم سب کے لیے
مشترک کوئی رہنما ہی نہیں
نہ جانے کیسے کیسے مسئلے حل ہوگئے ہوتے
اگر ہوتے نہیں،گرچہ، مگر، لیکن،اگر باقی
جسے دیکھو وہی تلوار سا ہے
محبت اب غنیمت ہو رہی ہے
یہ ایک شاعر کے محض احساست نہیں ہمارے ملک کی مٹتی تہذیب و ثقافت،محبت و خلوص اور رواداری کے خاتمے کا رونا ہے۔مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت کرنے والوں کو بھوک، غریبی ، تعلیم کا فقدان اور سماجی عدم برابری اور عدم رواداری کا بالکل خیال نہیں بلکہ وہ انہیں دور کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کرتے ہیں تاکہ ان کی حکومت برقرار رہے۔یہی وجہ ہے کہ آج دوستی ، محبت، ہمدردی اور آپسی میل جول ہماری زندگی سے دور ہوتی جارہی ہیں ۔ڈاکٹرمشتاق صدف لکھتے ہیں:
’’احمد اشفاق کی غزلوں میں تہذیب و ثقافت کا نوحہ بھی ملتا اور دوستی سے اٹھتا ہوا اعتبار کا ماتم بھی۔مسائل زندگی سے رشتوں کی ٹوٹتی طنابوں کی آواز بھی سنائی دیتی ہے لیکن اس دعا سے کہ زخموں کر ترتیب دینے کے شاعر کو وقت ملے چاہے وہ ادھار کی شکل میں ہہی کیوں نہ ہو،شاعری کی ایک نئی فضا تشکیل ہوتی ہے۔‘‘
(نئی نسل کا سنجیدہ شاعر۔ ڈاکٹر مشتاق صدف۔ دسترس ص: 39)
یا الہی تعلقات کی خیر
دوستی حاشیے پر چل رہی ہے
ہم قید احتیاط سے آزاد ہوگئے
جب اس نے میرے ساتھ نہیں برتی احتیاط
بظاہر دوست ہے وہ میرا لیکن
پس الفت عداوت ہورہی ہے
احمد اشفاق کی شاعری عہد حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں مگر اس بات کا خیال بھی رکھنا ضروری ہے کہ یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے اور ابھی انہیں بہت دور کا سفر طے کرنا ہے۔ بسمل عارفی نے درست لکھا ے کہ جب کسی اچھے شاعر کا نام ابھرتا ہے تو لوگوں کے توقعات بھی بڑھ جاتے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ احمد اشفاق کے یہاں نئے اور پرانے موضوعات کا جو خوبصورت امتزاج ملتا ہے وہ ان کی شاعری کو عظمت بخشتی ہے۔وہ پرانے موضوعات کو بھی اس سلیقے کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ وہ نیا معلوم ہوتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔