مسلم پرسنل لا بورڈ: تعارف و خدمات

 آصف علی

ہندوستان میں انگریزوں کی آمدسےپہلےجب مسلمان مسنداقتدارپرفائزتھےتو مسلمانوں کے تمام عائلی معاملات اسلامی قوانین کے مطابق طے پاتے تھے، لیکن جب انگریزسریرائےسلطنت ہوئےاورجہاں انہوں نےمسلمانوں کواقتدارسےبےدخل کیاوہیں انہیں اپنی شریعت اور تہذیب وتمدن سےبھی یکسرمحروم کردینے کی مذموم کوشش کی.

1866میں مسلمانوں کےفوج داری قوانین پرحملہ ہوااس کےبعدقانون شہادت,قانون معاہدات، قانون بیع وشرا,یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے تمام اہم قوانین کاالعدم قراردےدیےگئے. مسلمانوں کوصرف اپنےچندعائلی قوانین پرعمل کرنےکی اجازت رہ گئی. برطانوی رائل کمیشنوں نےاس بات کی تصدیق کردی کہ ان عائلی قوانین کا مسلمانوں کےدین وعقیدہ سےبہت گہرارشتہ ہےاس لیےاس میں مداخلت کامطلب مسلمانوں کےسلگتےہوئےجذبات کوبھڑکادیناہے,چنانچہ انگریزمزیدمداخلت سےبازرہے..

انگریزوں کےزمانےمیں ہی میمن برادری کاایک مقدمہ عدالت میں پیش ہوااوراس مقدمےکافیصلہ ہندورسم ورواج کوپیش نظررکھتےہوئےایک لڑکی کواس کےباپ کی وراثت میں اس کےحق سےمحروم کردیاگیا,تب پہلی بارہندوستانی مسلم علمانےتحفظ شریعت کی آوازبلند کی اورزبردست جدوجہد کےنتیجےمیں 1937میں ’شریعت اپلیکیشن ایکٹ‘ پاس ہوا.

یہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی شناخت اورشریعت کی حفاظت کےتعلق سےپہلی کامیاب جدوجہد تھی، تحفظ شریعت کی یہی تحریک بعد میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی تشکیل کا سبب بنی.

پرسنل لاکیاہے؟

قوانین کےاس مجموعےکوکہتےہیں جس کااطلاق انسان کی عائلی زندگی میں اس کےمذہب کی تعلیمات کی روشنی میں ہوتاہے,
مثلاً:شادی بیاہ,نکاح وطلاق,خلع,ظہار,مبارات,فسخ نکاح,ولایت,وراثت,وصیت,ہبہ وغیرہ..

 آغازوارتقا:

ہندوستان کی بڑی بدقسمتی رہی ہےکہ یہاں کی سب سےبڑی اقلیت آزادی سےپہلےبھی اپنی شریعت وتہذیب کولےکرخطرات واندیشے کاشکاررہی اوراسےباربارآزمائشوں میں ڈالاجاتارہااورجب آزادی کاسورج طلوع ہوااس وقت بھی  مسلمانوں کو ان اندیشوں سے نجات نہیں ملی.

آزادی کےبعدہندوستان جو،مختلف  مذاہب وقوموں اوربہت سی تہذیبوں کاگہوارہ ہے, سب کے اتفاق سے جمہوریت کوطرزحکمرانی کےلیےمنتخب کیاگیا٠دستورسازوں نےسیکولرزم کی اساس پردستورکی تدوین کی.عقیدہ وضمیر کی آزادی، اپنے مذہب پرعمل کرنے اوراس کی تبلیغ کی آزادی اوراقلیتوں کےحقوق کی ضمانت دی گئی جوہندوستان جیسےکثیرملک کےلیےناگزیربھی تھا.
دستورہند کی دفعات25_29-30 میں مسلم پرسنل لاکی ضماانت ملتی ہے،لیکن ساتھ ہی دستورکےرہنمااصول دفعہ 6 کے ذریعے حکومت کواس بات کابھی اختیاردیاگیاکہ وہ پورےملک کےلیےیکساں سول کوڈ کانفاذ بھی کرسکتی ہے.یہ گویاایسی ننگی تلوارتھی جسےمسلم پرسنل لایامسلمانوں  کی شریعت پرمستقل طورپرلٹکادیاگیا اور آج اسی کا فائدہ اٹھا کر اقلیت دشمن قوتیں اس ملک پر ایک مخصوص تہذیب تھوپنے کی مذموم کوشش کر رہی ہیں۔

دستورکی اسی متنازعہ دفعہ کاسہارالےکرکچھ عرصہ بعدمسلمانوں کواکثریتی دھارےمیں ضم کرلینےکی دھمکیاں بھی دی جانےلگیں ، دھیرےدھیرےاس صورت حال کی سنگینی میں اضافہ ہوتاگیا،یہاں تک کہ آئینی اداروں کے بعض فیصلے  بھی اس سوچ کو مضبوط کرنے کا سبب بنے۔ ان فیصلوں نے بھی مسلمانوں میں بے چینی پیدا کی  جو  فیصلے کہ جودستورکی روسےدی گئی مذہبی آزادی میں صریح مداخلت اوراقلیتی حقوق کوسلب کرنےوالےتھے،خاص کرجب,,اسپیشل میرج ایکٹ,,کےدروازےسےاسلامی قانون نکاح اورقانون وراثت میں خردبردشروع کی گئی تو تشویش اور بڑھ گئی، اورآخرکار1972میں متبنی بل پارلیامنٹ میں پیش کردیاگیا٠ متبنی بل کی روسےکوئی اگر بچہ گودلیاگیا تواسےاصل اولاد کی حیثیت حاصل ہوگی اورمیراث میں برابر کاشریک ہوگا۔

جوسراسراسلامی شریعت کےمنافی تھایہی وہ قانونی دھماکہ تھاجس کی وجہ سےمسلمانوں کوحکومتی بدنیتی کاپوراپوراادراک ہوگیااورانہیں 1956میں ہندوکوڈبل کےپاس ہونےکےموقع پروزیرقانون مسٹرپاٹسکرکےاس بیان کامفہوم سمجھ میں آگیاکہ:

٫٫ہندوقوانین میں جواصلاحات کی جارہی ہیں وہ مستقبل قریب میں ہندوستان کی تمام آبادی پرنافذ کی جائیں گی،،

لیکن اس نازک موقع پرملت اسلامیہ ہندنےتاریخی بیداری کاثبوت دیااورملک گیراحتجاج اورشدیدردعمل کےنتیجےمیں حکومت کومتبنی بل واپس لینےپرمجبورکردیا.

ان نازک حالات میں امت مسلمہ کےدوراندیش صاحب بصیرت علمانےملی تشخص کو بچانےکےلیےمنظم کوششیں شروع کردیں .جس کےنتیجےمیں 1972 کےاواخرمیں ممبئی میں اس موضوع پرعظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی اورکلمہ کی بنیادپرمسلمانوں کومتحد کرکےایک وفاق تشکیل دیاگیاجسے آل انڈیامسلم پرسنل لا کانام دیا گیا۔

یکساں سول کوڈ کےپس پردہ

کیاواقعی مسلم پرسنل لاخطرےمیں ہے؟کیاحقیقت میں یکساں سول کوڈ باالفاظ دیگریونیفارم سول کوڈلاگوہوسکتاہے؟

سپریم کورٹ سےسول کوڈ کےنفاذ کےلیےمرکزی سرکارجس طرح باربارجواب داخل کررہی ہےوہ اس بات کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ کچھ توہےجس کی پردہ داری ہے.اورکہیں نہ کہیں توضرورکھچڑی پک رہی ہے,جومسلمانوں کےپرسنل لایعنی عائلی قوانین کوخطرےمیں ڈال سکتی ہے,ایساماناجارہاہےکہ وہ قوتیں جوشرعی قوانین کی مخالف ہیں اگرشادی،طلاق، وراثت کےشرعی قوانین کومکمل طورختم کرانےمیں کامیابی نہ بھی حاصل کرپائیں توبھی کم ازکم عائلی قوانین کوملک کےعام شہریوں کی نظروں میں غیرانسانی ثابت کردیں  گی اورمن حیث القوم مسلمانوں کوکٹہرےمیں کھڑاکردیں گی۔ اس کے نتیجے میں بھارتی مسلمان بے چارہ  بس ہر مسئلے میں صفائی دینے میں مصروف رہے گا۔۔۔ تین طلاق، پردہ، اسلام کی غیر مخلوط تہذیب، تعدد ازدواج جیسے مسائل کو میڈیا میں اٹھا کر اسلام اور مسلمانوں کو بار بار  اسی مقصد سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ملک میں ان دنوں یکساں سول کوڈ کےنفاذ کاجوشوشہ چھوڑاجارہاہےاس کی کڑیاں  یوں توماضی میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں لیکن حال میں یہ معاملہ اس وقت گرم ہواجب 13 اکتوبرکوسپریم کورٹ کی دورکنی بینچ نےجوجسٹس وکرم جیت سنگھ اورشیوکیرتی سنگھ پرمشتمل تھی,حکومت ہند سےدریافت کیاکہ :

٫٫وہ یونیفارم سول کوڈ کونافذ کرناچاہتی ہےکہ نہیں ؟،،

دوسرےہی روزمرکزی وزیرقانون ڈی وی سدانندگوڑنےسپریم کورٹ کےسوال کےجواب میں اس طرح ,,ہاں ,,کردی گویایونیفارم سول کوڈ کانفاذ  ملکی قومی یک جہتی اورسلامتی کےلیےناگزیرہو چکا ہے،  یکساں سول کوڈ پر اتنا زور دینے کے پیچھے اصلا سنگھی ذہنیت کار فرما ہے جس کی سوچ اس وقت موجودہ حکومت پر پوری طرح مسلط ہے۔.

سچ تویہ ہےکہ یہ یہ عناصر ہندو سماج میں موجود ٫ ستی، اور ٫ذات پات، پر مبنی سماجی برائیوں دیگر رسموں کی اصلاح کی بجائے مسلمانوں پر اپنی توجہ اس لئے مرکوز کیے ہیں تا کہ ان کے عیب پر پردہ پڑا رہے٠ ان کاایک دردہےکہ, ان کادردیہ بھی ہےکہ ان کےمذہب میں  پرسنل لا جیسی کوئی چیز ہے نہیں اس لیےمسلمانوں کابھی پرسنل لاختم ہو جائے تا کہ لوگ اسلام کی  خوبیوں کی طرف متوجہ نہ ہوں . فرقہ پرستی اس ذہنیت کی خاص وجہ ہے اورایسےذہن کےساتھ انصاف ناممکن ہے.یکساں سول کوڈیااس جیسےکسی قانون کانفاذ اس ملک کےمذہبی اورتہذیبی روایات کے بالکل خلاف ہے اور یہ ملک کے جمہوری دستور کے بھی منافی ہے۔,

مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے بیچ یہ تہذیبی فرق فطری ہے یہی اس ملک کامزاج ہے اور یہی ہندوستان کی ضرورت بھی ہے جسے دستور کے معماروں نے اپنے سامنے رکھا تھا۔

آرایس ایس یکساں سول کوڈ کےلیےنعرہ لگارہی ہےکیوں کہ اس میں اس کا نظریاتی اورذہنی سکون پوشیدہ ہے..کہایہ جارہاہےکہ یکساں سول کوڈ سےقومی یک جہتی کوفروغ ملےگالیکن سچی بات یہ ہےکہ اس سےقومی یک جہتی مجروح ہوگی رواداری کاعنصرختم ہوکررہ جاےگااورغیرمطمئن عوام کی ایک فوج کھڑی ہوجاےگی,کیوں کہ صدیوں کی روایات اورقدیم ترین مذاہب کےفرق کواس طرح کےایک دوقوانین کےذریعےہموارنہیں کیاجاسکتااوراگریونیفارم سول کوڈ کولوگوں پرجبراًلاگوکیاگیاتویقیناًلوگ اسےقبول نہیں کریں گے.

اورحقیقت یہ ہےکہ یکساں سول کوڈ کےنفاذ کابس ایک سیاسی نعرہ ہےجب بھی اسےنافذ کرنےکی کوشش ہوگی تویہ سوال ضرورکھڑاہوگاکہ یہ قانون کیساہوگا؟

منوسمرتی والایاشاستروں والا؟

یہ سوال بھی اٹھےگاکہ:

کیااسےدلت،پچھڑے،قبائلی اورجنوبی ہندکی وہ اقوام مانیں گی جن کےعقائدشمالی ھندوستان والوں سےباالکل مختلف ہیں ؟

یہ بات بھی قابل ذکرہےکہ اس معاملےپرجب بھی بحث کی جاتی ہےتوعام طورپرملک کےمسلمان اس کےخلاف کھڑےہوجاتےہیں اورفوری طورپرکسی بھی یکساں سول کوڈ کےقبول کرنےسےیکسرانکارکردیتےہیں جس سےبرادران وطن میں یہ پیغام جاتاہےہےکہ اس کی راہ میں صرف مسلمان ہی رکاوٹ ہےجب کہ سچ یہ ہےکہ اس ملک کےعیسائی،سکھ،مختلف قبائل اورخودہندؤں کاایک بڑاطبقہ بھی یکساں سول کوڈ کااتناہی مخالف ہےجتناکہ مسلمان ہیں .لیکن  احتجاج میں مسلمانوں کی پہل کی وجہ سےمسئلہ فرقہ وارانہ رنگ اختیارکرجاتاہےاورملک کی کرپٹ سیاسی جماعتوں کواس بہانےفرقہ وارانہ سیاست کاموقع بآسانی دستیاب ہوجاتاہے۔۔۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اقلیتوں کو ساتھ لےکر مسلمان یکساں سول کوڈ کی مہم چلانے والی قوتوں کے نا پاک ارادوں کو ناکام بنانے کی منصوبہ بندی کریں ۔۔۔ اس سے  تحفظ شریعت کی راہ بھی ہموار ہوگی اور قومی یکجہتی کو بھی فروغ ملے گا۔

یکساں سول کوڈ کامفہوم

ہندوستانی قوانین کی دوقسمیں ہیں.

1- دیوانی سےمتعلق قوانین کوسول کہاجاتاہے.

2- جرم کی سزااوربعض انتظامی امورسےمتعلق قانون کوکریمنل کوڈ کہاجاتاہے.

دوسری قسم میں تمام ملک و الوں کےلیےیکساں قوانین ہیں .رنگ ونسل،اورمذہب کی بنیادپرکسی قسم کی تفریق نہیں رکھی گئی ہے.البتہ پہلی قسم جس کاتعلق معاشرتی،تمدنی اورمعاملاتی مسائل سےہےاس کاایک حصہ پرسنل لاہے٠اس کےتحت بعض اقلیتوں کوجن میں مسلمان بھی داخل  ہیں اختیارہےکہ نکاح،طلاق،عدت،خلع،وقف،میراث وغیرہ سےمتعلق کورٹ میں اگرمقدمہ کیاگیاتواوردونوں فریق مسلمان ہیں تومقدمےکافیصلہ ازروئےاسلام ہوگا.. اسی کانام مسلم پرسنل لا ہے۔

ہندوستان مسلم دور حکومت میں فرقہ ورانہ ہم آ ہنگی ہی نہیں ، سماجی و مذہبی انصاف  کا بھی بہترین نمونہ تھا۔یہاں   مسلمانوں نےپانچ سوسال سےزائدعرصےتک حکومت کی لیکن اپنےدوراقتدارمیں مسلم حکمرانوں نےہندؤں کومسلم پرسنل لایایکساں سول کوڈ کاپابند نہیں بنایابلکہ ہندو اور دیگر قومیں اپنےمذہب کےمطابق عمل کرتےتھے.اسی طرح انگریزوں کے175سال کےدور حکومت میں ہندوکو٫ہندوپرسنل لا،اورمسلمانوں کو٫مسلم پرسنل لا،پرعمل کرنے کی پوری آزادی تھی.مگرآزادی ہند کےبعدمسلم پرسنل لامیں چھیڑ چھاڑ کاسلسلہ شروع کیاگیاجوہنوز جاری ہے٠وہی کانگریس جس کی و رکنگ کمیٹی نے1931 میں ایک قراردادپاس کرکےاس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ آزادہندوستان میں مسلمانوں کےپرسنل لا کےتحفظ کویقینی بنایاجائےگالیکن اس کےدورحکومت میں مسلمان اپنےپرسنل لا کےتعلق سےسب سےزیادہ تشویش میں مبتلا رہا.

یکساں سول کوڈ اورآئین ہند

آئین ہند کےدفعہ 4 میں یوں لکھاگیاہےکہ:

٫٫ ریاست کوشش کرےگی کہ پورے ملک میں یکساں شہری قوانین ہوں ،،۔

یہی وجہ ہےکہ ابتدائےآزادی سےہی ملک میں یکساں سول کوڈ کی راہ ہموار کی جارہی ہے،جوسراسراسلام سےمتصادم ہے.اوردفعہ 15اور25 کےبھی خلاف ہے.ان دونوں دفعات کی روشنی میں ملک کےباشندوں کوبلاتفریق مذہب وملت ہرطرح کی مذہبی آزادی کی ضمانت حاصل ہےلیکن جہاں تک دفعہ 44  کاتعلق ہےتواس کی حیثیت (Directive Princples)کی ہےجس کی روشنی میں حکومت متعلقہ اداروں کومشورہ دےسکتی ہےمگراس سلسلہ میں کوئی بھی فیصلہ اپنی جانب سےتھوپنےکی مجازنہیں ہے.

یکساں سول کوڈ کےنفاذ کابہانہ

کامن سول کوڈ کےنفاذ کی اصل وجہ مسلمانوں کونقصان پہنچاناہےمگربہانےکےطورپریہ بات کہی جاتی ہےکہ یکساں سول کوڈ سےقومی یک جہتی  مضبوط ہوتی ہےاوریورپ کی مثال پیش کی جاتی ہےکہ جب وہاں تمام اقوام کےلیےیکساں قوانین ہوسکتےہیں توہندوستان میں کیوں نہیں ؟

یکساں سول کوڈ کی خرابیاں 

ہندوستان مختلف اقوام وملل اورمختلف النوع تہذیب وتمدن کاگہوارہ ہے،اس ملک میں ہندومسلم،سکھ عیسائی،پارسی بودھ، یہودی، جینی،قادیانی غرض سیکڑوں قومیں رہتی ہیں . پھران قوموں میں بھی بہت سےفرقےہیں . ان سب فرقوں اورفرقوں کے مذہبی طورطریقےاورعائلی ومعاشرتی قوانین الگ الگ ہیں ، تویہ کیسےممکن ہےکہ ایک جیساعائلی قانون ان ساری قوموں پرتھوپ دیاجائے؟نہ ہی اس کا امکان ہےاورنہ ہی یہ اقوام یکساں خاندانی نظام چاہیں گی اوراگر باالجبرنافذ بھی کردیاگیاتوملکی یک جہتی پارہ پارہ ہوکررہ جائےگی.قوموں کےدرمیان اختلافات وانتشارپھیلےگا.فرقہ پرستی کوہوا ملےگی اورقتل وغارت گری کابازارگرم ہوجائےگاکیوں کہ یکساں سول کوڈ مذہب کےخلاف ہے.ملک کی یک جہتی اورسالمیت کےخلاف ہے.

آج ہم دیکھتےہیں کہ ایک مذہب کالڑکادوسرےمذہب کی لڑکی سےشادی کرلیتاہےتوپورےسماج میں اشتعال پیداہوجاتاہےقتل وخون تک نوبت پہنچ جاتی ہے.

ہندوستان مختلف قوم وتہذیب کامسکن ہےیہی اس کاحسن ہےیکساں سول کوڈ اس حسن کےخاتمےکانام ہے.یکساں سول کوڈ کےبارےمیں حتمی رائےہےکہ یہ ہندوکوڈ ہوگا.اس کوڈ کےنفاذ کےبعدصبح صبح اللہ کانام لینےکےبجائےوندےماترم جیسا مشرکانہ ترانہ گاناپڑےگا. سوریہ نمسکارکرناہوگا،گائے،زمین،سورج،چاند،ستارے ان ساری چیزوں کی بھکتی کرنی پڑےگی ان کومعبود مانناپڑےگا.اسپیشل میریج ایکٹ، انڈین سلیکشن ایکٹ کےماتحت کوئی بھی شخص کسی بھی مذہب میں بلاروک ٹوک کےشادی کرسکےگاپھراسلامی نکاح وطلاق،خلع وعدت،مہر،نان نفقہ وغیرہ کاکوئی اسلامی تصورنہیں رہ جائےگا.لےپالک اصل اولاد مانی جائےگی وہ میراث میں لازماً حصہ دارمناجائےگا.ہم جنسی کوفروغ حاصل ہوگااسلامی حجاب،عورتوں کےحقوق،مردعورت کےدرمیان فرق یہ سب چیزیں بےمعنی ہوجائیں گی.ہمارےمذہبی ادارے،مقدس مقامات سب کوخطرہ لاحق ہوجائےگا.

مسلمان ہونےکےناطےیکساں سول کوڈ قبول نہیں کیاجاسکتاکیوں کہ اس کوقبول کرنےپرہماری مسلمانیت ختم ہوجائےگی.
قران میں اللہ تعالی نےارشادفرمایا:

ولاوربک یومنون حتی یحکموک وفیماشجربینہم ثم لایجدوافی انفسھم حرجامماقضیت وتسلمواتسلیما.  النساء65

٫٫تمہارےرب کی قسم! لوگ باالکل مسلمان نہیں ہوسکتےجب تک کہ وہ آپ کواپنےدرمیان کےجھگڑوں میں فیصل تسلیم نہ کرلیں ,پھرجوفیصلہ آپ کریں اس کےبارےمیں اپنےدل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اوراسےدل وجان سےتسلیم کرلیں ،،

دوسری جگہ ارشادہےکہ:

ومن یبتغ غیرالاسلام  دینافلن یقبل منہ وھوفی الآخرۃ من الخاسرین. آل عمران 85

جوشخص اس لام کےسوااوردین تلاش کرےاس کادین قبول نہ کیاجائےگااوروہ آخرت میں نقصان پانےوالوں میں سےہوگا.

ایک غلط فہمی کاازالہ

عام طورپرمسلم حلقوں میں یہ سمجھاجارہاہےکہ مسلم پرسنل لامیں   کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش ممکن نہیں ہے کیایہ حقیقت نہیں ہےکہ مسلم پرسنل لا کی بنیاددراصل انگریزوں کاوضع کردہ محمڈن لاہے.

مسلم پرسنل لامسلمانوں کےایک ایسےعائلی قوانین کامجموعہ ہےجسےمسلم شریعت کےمطابق متعین ومنضبط کرکےعملی شکل دی گئی ہےاوردستورہندمیں اس کی ضمانت بھی دی گئی ہے.اس لیےیہ سمجھناجیساکہ بعض مسلمانوں میں یہ غلط فہمی ہےکہ اسےتبدیل نہیں کیاجاسکتایااس کی تدوین نونہیں ہوسکتی،غلط ہے, البتہ اس میں جوبھی ترمیم واضافہ ہوگاوہ اسلامی شریعت کی روشنی میں ہی ہوگا.شریعت سےباہراس میں کسی قسم کی مداخلت جائزنہیں .

اگرحکومت ہندواقعی مسلم پرسنل لاکےاندراصلاحات نافذ کرنےمیں سنجیدہ ہےتوجس طرح 1941 میں حکومت نےہندولاریفارم کمیٹی بنائی اسی طرزپر مسلم پرسنل لاریفارم کمیٹی,قبائلی ریفارم کمیٹی,عیسائی,پارسی اورسکھ لاریفارم کمیٹی تشکیل دےاوران کمیٹیوں کی تجاویز کی روشنی میں یونیفارم سول کوڈ  کاخاکہ تیارکیاجائے. ظاہر ہے یہ ایک ناقابل عمل طریقہ ہے جس دوریاں بڑھیں گی اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچے گا۔کیاآرایس ایس  کبھی تیار ہوگی کہ کہ ہندوسماج سے,ستی,اور,کنیادان,ذات پات اور سماج پر برہمن کی اجارہ داری جیسی غیرانسانی وغیرتمدنی روایات ختم ہوں ؟

آخرمیں اس بات کی وضاحت ضروری ہےکہ مسلم پرسنل لامیں حکومت اورعدلیہ کی مداخلتوں  کے امکان کو ختم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مسلمان تین محاذ پر کام کریں۔

1۔ ایک یہ کہ ہم  تحفظ شریعت  تحفظ دین کی لڑائی میں عوام کو شامل کریں اور مسلمانوں شریعت کے تعلق سے اس طرح  بیدار کریں کہ وہ خود اپنی عائلی زندگی میں اس پر عمل کر کے دکھائیں اور انہیں اپنے عائلی تنازعات میں عدالتوں کے کم سے کم چکر لگانے پڑیں۔

2۔ دوسرے یہ کہ ہم مسالک و مدارس فقہ سے اوپر اٹھ کر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور اپنے داخلی فقہی اختلافات کو باہمی دشمنی و منافرت کا سبب نہ بننے دیں-

3۔ تیسرے یہ کہ تحفظ شریعت پر وقتی ہنگاموں کی بجائے ایک طویل المیعاد منصوبہ بنائیں تا کہ وقتی مسائل ہماری انرجی کو بار بار ضائع نہ کریں اور نہ ہی  مسلم مخالف قوتیں اپنی چالوں میں کبھی کامیاب ہوں۔

 واقعہ یہ ہے کہ جب تک خودمسلمان شریعت پرسختی کےساتھ عمل آوری کولازم نہ بنا لیں ,اورعائلی تنازعات باہم مل کر خود حل کرنے کی عادت نہ ڈال لیں اس وقت تک مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا امکان معدوم نہیں ہوگا. اس تعلق سے علماء،  ذمہ داران مدارس اور ائمہ مساجد  پر سب سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ مسلم عوام کی ایک بڑی تعداد انہیں سے منسلک رہتی ہے اگر شریعت کے تعلق سے یہ انہیں بیدار کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمارے بہت سے مسائل ان شاء اللہ خود بخود حل ہو جائیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔