اقامت دین کا اغوا

عبدالرحمن سرور

’اقامت دین کا اغوا!‘ کتاب کا عنوا ن پڑھتے ہی ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقامت دین کا لفظ ِاغوا سے کیا تعلق ہے؟ کیا یہاں اغوا کسی اور معنی میں استعمال کیا گیا ہے؟  یاشاید یہ لفظ اردو کے علاوہ فارسی، ترکی یا کسی اور زبان کا ہے؟ کچھ ایسے ہی سوالات میرے ذہن میں پیدا ہوئے۔ عنوان کے نئے پن اور سرورق کی جاذبیت نے مجھے کتاب کے فوری مطالعے پر آمادہ کردیا۔

کتاب کی نوعیت تصوراتی یا عام الفاظ میں حکایتی ہے۔ مقدمہ میں یہ امر بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ یہاں اقامت دین کے تصور پرعلمی گفتگو مقصود نہیں ؛ اس کی طرف صرف چند اشارے کئے گئے ہیں۔ باذوق قارئین تفصیلی مطالعے کے لئے مذکورہ کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ کتاب ہذا میں البتہ چند حقائق کی طرف اشارہ تمثیلی طور پر مطلوب ہے۔ چنانچہ بہ الفاظ مصنف:یہ حکایتیں ’ ’کسی جانکار کو کوئی نئی جانکاری نہیں دیں گی لیکن شاید منزل سے ناامید کسی تھکے ہارے مسافر کے دل میں پھر سے دوڑ پڑنے اور دوڑتے رہنے کا خیال پیدا کردیں۔ ‘‘  میری سمجھ کے مطابق مقدمہ میں یہ نقطہ بالکل ابھر کر سامنے آگیا ہے کہ کسی بھی فریضہ کے نفاذ کا قطعی ثبوت اس کی شرعی فرضیت ہوتی ہے۔ اس راستے میں آنے والے چیلنج و مصائب ادائیگیٔ فرض میں مانع نہیں ہونے چاہئیں۔

حکایت کی ابتداء میں قاری کا تعارف مسلمان نامی ایک فرد سے ہوتا ہے۔ پھر اچانک مسلمان کے بچے ’اقامتِ دین‘ کا اغوا کر لیا جاتا ہے۔ اغوا کرنے والی ’جاہلیت‘ تھی جو اپنی اسکوٹی پر ’اقامت دین‘ کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ یہیں سے قاری کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ :اب کیا؟ اور اسی مقام پر مصنف قاری کو ایک دوراہے پرکھڑا کردیتا ہے۔ اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ اس کہانی کا اختتام کیسے ہو؟پہلے منظر نامے کے مطابق یا دوسرے منظر نامے کے مطابق۔

پہلے منظر نامے یا حکایت میں، اقامت دین کے اغوا کے بعد، واقعہ نگاری کچھ یوں کی گئی ہے کہ جیسے ہی مسلمان گھر پر آتا ہے، اس کے چاربہت ہی مخلص دوست خیر خواہ، مفکر، بزرگ اور رضا کار اس کی تعزیت کے لئے حاضرہوتے ہیں۔ کمرے میں بیٹھ کر جس انداز کی گفتگو ہوتی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔ پھر چاہے وہ بزرگ کی صبر و سمجھوتے سے بھری نصیحت آمیز گفتگو ہو؛ یارضاکار کے شجاعت سے بھرے پرجوش نعرے ؛ مفکر کی فلسفیانہ موشگافی؛ یاخیرخواہ کی خیرخواہانہ منطق۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی چیز اقامت دین کی بازیافت یقینی نہ بنا سکی۔۔۔ کیونکہ نری باتوں سے اس کام کو انجام دیا بھی نہیں جاسکتا۔ البتہ ایک ترکیب تخفیفِ حزن کے سلسلے میں تیر بہدف ثابت ہوئی۔ اور وہ یہ کہ اقامت دین کو بھلا دیا جائے۔ یہ کہانی کو ختم کرنے کی پہلی صورت ہے۔

دوسری طرف متبادل منظرنامے میں کہانی یوں آگے بڑھتی ہے کہ اقامت دین کے اغوا ہو جانے کے بعد مسلمان اپنے دوست مفکر سے رابطہ کرتا ہے۔ مفکر، اطلاع ملتے ہی، خیرخواہ، رضاکار اور بزرگ سے رابطہ کرتا ہے۔ سب مل کر فوری طور پر ایک ہمہ جہت لیکن قابل عمل منصوبہ بناتے ہیں اور اس پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ یوں اس اجتماعی کوشش کے نتیجے میں مسلمان اور اس کے سارے دوست مل کر جاہلیت کا راستہ روکنے اور اقامت دین کو حاصل کرلینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں صرف منصوبے اور کوشش ہی کام نہیں آتیں ؛ مدد ایک اور جگہ سے حاصل ہوتی ہے۔۔۔ لیکن ان تمام تفصیلات و جزئیات کا مزہ تبھی ہے جب اس پوری حکایت کا مطالعہ کیا جائے۔

میری نظر میں بڑے بھائی خان یاسر کی یہ تحریر ہمیں خود احتسابی کی دعوت دیتی ہے اور ان تمام لوگوں کے لئے پیغام حرکت بھی ہے جو اپنے مشن کے لئے محنت اور جہد مسلسل سے جی چراتے ہیں اور بس حیلے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ۔۔ کام نہیں کرتے۔ یہ کتاب جلی الفاظ میں یہ پیغام دیتی ہے کہ اپنی کم علمی یا کم ہمتی کی وجہ سے مقصد کی حصولیابی کو ممکن نہ بنا پانا اس بات کی قطعی دلیل نہیں کہ مقصد کو بدل دیا جائے۔ یہ صرف اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیں جم کر کوششیں کرنی ہوں گی۔ بالفاظ دیگر دنیا میں اقامت دین کے مقصد کو حاصل کرنے میں مصائب و آلام کا سامنا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم سرے سے اقامت دین کے مقصد ہونے کا ہی انکار کردیں ؛ مشکلات کے باوجود کوشش کرنے ہی میں ہماری اصل کامیابی ہے۔

جہاں تک فنی بحث کا سوال ہے تو اس حکایت کے اندر پلاٹ، کردار نگاری،مکالمہ نگاری، منظر کشی، جذبات کے اتار چڑھاؤ۔۔۔ الغرض بہترین اسلوب کے مکمل عناصر پائے جاتے ہیں۔ البتہ حکایت اس قدر تمثیلی ہے کہ بآسانی کتاب کے مدعا تک وہی قاری پہنچ سکتے ہیں جو اقامت دین کے تصور سے بھی واقف ہوں اور دورحاضر میں اس تصور پر کئے جانے والے عجیب و غریب اعتراضات سے بھی۔

کتاب:  اقامت ِدین کا اغوا، مصنف:  خان یاسر، سن اشاعت:  ۲۰۱۸ء؁، صفحات:  ۴۰، ناشر:الاکسیر پبلیکیشنز

تبصرے بند ہیں۔