مسلم پرسنل لا بورڈ سے شکوہ

عبدالغفارصدیقی

  تین طلاق کے موضوع پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جس میں تین طلاق کو کالعدم قرار دیا گیاتھا اور دو ججوں نے اس تعلق سے حکومت کو قانون سازی کی ہدایت کی تھی، لہٰذا حکومت نے سپریم کورٹ کی فرماں برداری سے آگے بڑھ کرعمل کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے گزشتہ اجلاس میں ایک قانون کا مسودہ بھی پیش کیا اور ایوان زیریں سے پاس بھی کرالیا، اگرچہ ایوان بالا میں پاس نہ ہوسکا۔ اب خبر ہے کہ حکومت آرڈی نینس کی تیاری کررہی ہے۔

 تین طلاق کے تئیں حکومت کی دل چسپی مسلم خواتین سے ہم دردی کے سبب سے ہے یا اس قانون سازی کے بعد مسلم خواتین کے حالات میں کوئی انقلابی تبدیلی آنے والی ہے۔ حکومت کی اس دلیل سے تو صرف احمق ہی خوش ہوسکتے ہیں۔ مسلمان خواتین کی حالت اگرچہ معیار مطلوب کی نہیں ہے لیکن ایسی خراب بھی نہیں جیسی کہ پیش کی جارہی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ غیر مسلم خواتین کی حالت زار ہے، جس کے بعض اعداد و شمار حالیہ دنوں اخبارات میں شائع کیے گئے ہیں۔

ہمیں موجودہ حکومت سے شکوہ نہیں کیوں کہ ا س کاایجنڈا سب پر عیاں ہے۔ آر ایس ایس کی تشکیل ملک میں ہندو راشٹر کے قیام کے لیے ہوئی ہے۔ ہمیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ آر ایس ایس ہندو ازم کے فروغ اور ہندو راشٹر کے قیام کے نام پر برادرانِ وطن کو بے وقوف بنارہی ہے۔ بھارت میں صرف آر ایس ایس کو ہی یہ آزادی حاصل نہیں ہے، بلکہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو بھی اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کا قانونی حق ہے۔ اگرچہ اس حق کے استعمال میں دیگر اہل مذاہب کو دشواریاں ہیں۔ ہمیں سپریم کورٹ سے بھی کیا شکایت ہے کیوں کہ وہاں جو لوگ عدل کی کرسی پر بیٹھے ہیں وہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں، وہ بھی وہی دیکھتے ہیں جو دکھایا جاتا ہے، بلکہ اب تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی وہی کرتے اور کہتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے، کیوں کہ جس طرح سے چار ججوں نے چیف جسٹس کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے ہیں وہ اس بات کی غماضی کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جمہوریت کے اس ستون کو بھی دیمک لگ گئی ہے۔ ہم تو ’’ مسلم پرسنل لاء بورڈ‘‘ سے شکوہ بلب ہیں، ہمارا سوال تو دین و شریعت کے محافظین سے ہے۔

 مسلم پرسنل لا ء بورڈ کا قیام 1973 میں اس لیے کیا گیا تھا کہ ان شرعی قوانین کا تحفظ کیا جاسکے جو پرسنل لاء کے دائرے میں آتے ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ویب سائٹ پر درج ذیل الفاظ درج ہیں:

’’چنانچہ ۲۷ و ۲۸؍دسمبر ۱۹۷۲ء کو یہ تاریخ ساز کنونشن منعقد ہوا ، جس کو مسلمانان ہند کے تمام مکاتب فکر کی بھرپور تائید حاصل تھی، اس اجلاس میں بالاتفاق رائے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔اور ۱۷؍اپریل ۱۹۷۳ء کو اجلاس حیدرآباد میں بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ بورڈ کے پہلے صدر اور حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی صاحب ؒ بور ڈ کے پہلے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ اور بورڈ کے پلیٹ فارم سے یہ پیغام دیا گیا کہ ہم باہمی جھگڑوں ،مسلکی ،سیاسی اور علاقائی گروہ بندیوں سے بالا تر ہوکر قانون شریعت کی حفاظت کے لیے پوری قوت اور کامل اتحاد کے ساتھ واضح موقف اختیار کریں گے۔ بورڈ نے شریعت کے عائلی قوانین کے تحفظ ، مسلمانوں کو معاشرتی زندگی کے آداب و مسائل سے واقف کرانے اور مسلم معاشرے سے تمام غیر اسلامی رسم و رواج اور غیر شرعی امور کو مٹا دینے کے لیے جامع منصوبہ بنایا۔ بورڈ نے اپنا کام شروع کیا۔ ملک کے ہر گوشہ میں مقامی، ضلعی اور صوبائی سطح پر عظیم کانفرنسیں اور اجتماعات منعقد ہوئے اور اس موضوع سے متعلق بیش قیمت رسائل بھی لکھے گئے ۔ اور ملک کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کراکر ملک کے گوشے گوشے میں پہنچایا گیا جس سے لوگوں میں مسئلہ سے واقفیت پیدا ہوئی اور اس کی اہمیت کا احساس بیدار ہوا اور ان کے اندر اپنے حقوق کے تحفظ کا جذبہ اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہوا ۔ یہ مسلمانانِ ہند کے لیے تاریخ ساز اور قابل قدر پیش رفت تھی جو مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تحریک کے نتیجہ میں ہوئی۔

یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ہر موقع اور ہر مرحلہ پر بورڈ نے تحفظ شریعت کا کام کیا ہے اور عوامی بیداری کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بورڈ مسلمانان ہند کا متفقہ مرکزی ادارہ ہے ۔ اس میں تمام قابل ذکر اداروں اور شخصیتوں کی شرکت ہے اور حکومت بھی بورڈ کا وزن محسوس کرتی ہے۔ ان دنوں اصلاح معاشرہ،تفہیم شریعت، دارالقضاو بابری مسجد کے سلسلہ میں کوششیں جاری ہیں۔‘‘

درج بالا عبارت میں جو نمایاں نکات ہیں وہ اس طرح ہیں:

٭        ہم باہمی جھگڑوں ،مسلکی ،سیاسی اور علاقائی گروہ بندیوں سے بالا تر ہوکر قانون شریعت کی حفاظت کے لیے پوری قوت اور کامل اتحاد کے ساتھ واضح موقف اختیار کریں گے۔

٭        ہر موقع اور ہر مرحلہ پر بورڈ نے تحفظ شریعت کا کام کیا ہے ۔

٭        عوامی بیداری کا سلسلہ جاری ہے۔۔۔۔  جس سے لوگوں میں مسئلہ سے واقفیت پیدا ہوئی اور اس کی اہمیت کا احساس بیدار ہوا اور ان کے اندر اپنے حقوق کے تحفظ کا جذبہ اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہوا ۔

٭        حکومت بھی بورڈ کا وزن محسوس کرتی ہے۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مقاصد میں نمایاں مقاصد درج ذیل ہیں:

٭        مسلم پرسنل لاء کا تحفظ اور شریعت کا نفاذ

٭        اسمبلیوں اور پارلیمنٹ اور عدلیہ کے ذریعہ پرسنل لاء مخالف قانون سازی کی روک تھام

٭        ملت کے اندر شریعت کی بیداری اور تعلیم

 مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام کو تقریباً 44 سال ہوگئے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ، حکومت کی موجودہ قانون سازی کے تناظر میں بورڈ کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ جن نیک مقاصد کے لیے بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا وہ کس حد تک پورے ہوئے ہیں۔

 بورڈ کے قیام کے مقاصد میں ملت میں شریعت کے تئیں بیداری پیدا کرنا، شرعی قوانین کی تعلیم دینابھی شامل ہے۔ اور بورڈ کا احساس ہے کہ اس کی کارکردگی کے نتیجے میں ملت میں بیداری پیدا ہوئی ہے، اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہوا۔(دل کو خوش کرنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے) ان چوالیس سالوں میں ہماری بیداری کا کیا حال ہے، اس کا اندازہ ہم سب کو ہے۔کیا جلسہ عام اور اجتماع عام کرلینے یا چند لاکھ فولڈرس کی طباعت و تقسیم سے یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے ، یا اس کے لیے زمینی حقائق کا سروے کرکے شہر شہر اور بستی بستی تعلیم ورکشاپ اور کیمپ منعقد کرنے کی ضرورت ہے ۔

بورڈ نے اپنے قیام کے بعد سے ہی یہ طے کیا تھا اور بورڈ اس کے بعد اپنے اجلاسوں میں اپنے اس فیصلے کو دہراتا بھی رہا ہے کہ اسلام کے خاندانی نظام کا تعارف ممبران پارلیمنٹ، ممبران اسمبلی، عدالت کے جج صاحبان، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے وکلاء ،قانون دانوں، میڈیا کے اہل کاروں کو اس طرح کرایا جائے گا کہ شریعت اسلامیہ ان پر واضح ہوجائے۔کیا یہ کام ہوا، ظاہرہے ہوا ہوتا تو آج یہ صورت حال پیش نہ آتی۔ بورڈ کو بتانا چاہیے کہ اس نے یہ کام چوالیس سال میں کیوں نہیں کیا؟ اراکین بورڈ حکومت کے ذمہ داروں سے استفادہ تو کرتے رہے لیکن اپنے فیصلے پر عمل در آمد کے سلسلے میں  کوتاہیاں برتتے رہے۔ بعض تنظیموں نے اسلامی خاندان مہم چلا کر اپنا فریضہ ادا کردیا۔ اگر بورڈ نے یہ کام کیا ہوتا تو آج شاید یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا۔ غیر مسلم ممبران پارلیمنٹ کو تعارف کرانے کی بات تو دور پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاس میں اسد الدین اویسی کے علاوہ بقیہ تمام مسلم ممبران پارلیمنٹ  خاموش رہے۔ ایک عالم دین غیر حاضر رہے اور ایک نے پارٹی وہپ کاخیال رکھا۔ پارلیمنٹ میں علمائے ارکان پارلیمنٹ کوکم از کم سیر حاصل بحث کرنا چاہیے تھی تاکہ بروز حشر خدا کو منھ دکھانے کے قابل رہتے۔

بورڈ کے مقاصد میں مسلکی اتحاد کی بات کہی گئی ہے، کیا یہی مسلکی اتحادہے کہ تین طلاق کے ایشو پر بورڈ اپنے اپنے فقہی گروہوں میں تقسیم رہا اور کوئی بھی مسلک چند قدم آگے یا چند قدم پیچھے نہ ہٹ سکا۔ بورڈکے اجلاس میں اسٹیج پر تمام مسلکی نمائندوں کا ایک ساتھ جلوہ فرما ہونا کیا مسلکی اتحاد کے لیے کافی ہے۔ خواہ ہم اپنے اپنے مدارس میں ایک دوسرے کو باطل گمراہ اور کافر بتاتے رہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ شیعہ مسلک کو سنی مدارس میں خارج از اسلام تک بتادیا جاتا ہے اور شیعہ مسلک کے مدارس سنی مسلمانوں کو مسلمان ہی نہیں گردانتے ۔ کیا مقلد اور غیر مقلدین ایک دوسرے پر گمراہی کا الزام نہیں لگاتے، کیا دیوبندیت اور بریلویت میں جو دوریاں تھیں وہ کم ہوئی ہیں اور ہمارے مدارس ایک دوسرے کے احترام واکرام کی تعلیم دیتے ہیں۔ کیا آج بھی غیر فرقہ کی مساجد میں نماز پڑھنے پر ہنگامہ نہیں ہوتا ہے اور غیر مسلک کی مسجد پر تالا تک لگادیا جاتا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

بورڈ نے اپنے اجلاسوں میں یہ فیصلہ بھی کیاتھا کہ شریعت کے نفاذ کے لیے دارالقضاء قائم کیے جائیں گے۔ اس فیصلے پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔اگر کہیں کوئی شرعی عدالت قائم بھی کی گئی تو وہ ایک مسلک کی عدالت رہی، دوسرے مسالک کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔اس لیے وہ بھی غیرمؤثر رہی۔

تحفظ شریعت کی بات تو وہ دور کی کوڑی ہے اور بورڈ کے بس کا کام نہیں ہے ۔ جو بورڈ مسلکوں کا تحفظ کرتا ہے وہ شریعت کا تحفظ نہیں کرسکتا، جو بورڈ ۴۴؍سال میں ملت کو طلاق کا طریقہ نہ بتاسکا وہ اقتدار وقت سے اپنی بات کیسے منوا سکتا ہے۔

بورڈ کی سائٹ سے یہ الفاظ ’’ حکومت بھی بورڈ کا وزن محسوس کرتی ہے‘‘ فوراً بنا لینے چاہئیں۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ حکومت بورڈ کا کتنا وزن محسوس کرتی ہے؟ جب آپ اپنا خود وزن محسوس نہ کریں، جب آپ اپنے بھائیوں کا وزن کم کرنے کی مسلسل کوشش کریں تو پھر آپ کا وزن کون محسوس کرسکتا ہے۔ موجودہ قانون سازی کے لیے حکومت نے بورڈ سے مشورہ لینا بھی مناسب نہیں سمجھا، جب کہ بورڈ کے کئی ذمہ داران نے از خود مشورے دینے کی گزارش بھی کی۔ ایک وقت تھاکہ شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے پرسنل لاء مخالف فیصلے پر مسلم امت اپنی دینی غیرت و حمیت اور ایمانی حوصلہ کے ساتھ شریعت کو بچانے کے لیے سڑکوں پر اتر آئی اور سراپا احتجاج بن گئی، یہاں تک کہ اس نے اپنے سینے پر گولیاں بھی کھائیں، جس کے نتیجہ میں حکومت نے بورڈ کا وزن محسوس کیا ۔ نیز پارلیمنٹ میں پرسنل لاء کے حق میں قانون بنایا گیا۔ ایک آج کا وقت ہے کہ معزز اراکین بورڈ مشاورتی دعوت ناموں کے انتظار میں بیٹھے ہی رہ گئے۔ لہٰذا بورڈ کو وزن کے معاملہ میں اپنی کمزوریوں کا احتساب کرنا چاہیے۔ امت مسلمہ آج بھی شریعت کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے کے لیے حاضر ہے لیکن وہ دیکھ رہی ہے کہ قائدین تو اپنے مفادات کے تحفظ میں لگے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کررہے ہیں۔لہٰذا اب امت کا اعتبار قیادت پر سے اٹھتا جارہا ہے۔ قیادت پر سے اعتبار اور اعتماد کا اٹھ جانا تشویشناک ہے۔ اس پہلو سے بھی بورڈ کو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

 شریعت اسلامیہ میں سپریم کورٹ اور حکومت کی دخل اندازی کا یہ پہلا اور آخری معاملہ نہیںہے۔ آج تو ایک خاص نظریہ کی حکومت ہے۔ یہ دخل اندازی توسیکولر کہی جانے والی حکومت کے دور میںبھی خوب ہوتی رہی ہے، جس کے تحفظ کے لیے ایک دینی جماعت ایڑی چوٹی کا زور لگاتی رہی ہے،اور ملک و ملت بچائوتحریک چلاتی رہی ہے،اور بطور انعام ایوان بالا میں نشست بھی پاتی رہی ہے۔ لیکن بورڈ کو اس بات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ آخر وہ اپنے قیام کے بعد جس طرح فعال ہوا تھا اور اس نے جو سرگرمی دکھائی تھی وہ رفتہ رفتہ سرد مہری میں کیوں تبدیل ہوگئی اور آج یہ نوبت کیوں آگئی کہ خالص شریعت کے معاملہ پر قانون سازی کرتے وقت حکومت نے اس سے مشورہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔

اس موقع پر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس موضوع پر بورڈ کو منھ کی کھانی پڑی ہے اس کی کیا حیثیت ہے؟ یعنی قرآن و حدیث کاموقف کیا ہے اور بورڈ میں موجود فقہی گروہوں کا کیا موقف ہے۔ جب بورڈ تین طلاق کو بدعت تسلیم کرتا ہے اور اس عمل کے کرنے والوں کے سماجی بائیکاٹ کی بات کرتا ہے تو، اسے یہ مان لینے میں آخر کیا چیز مانع تھی کہ تین طلاق ایک طلاق ہوگی۔ جب کہ خود مسلم ممالک میں یہ قانون منظور ہوچکا ہے۔

 ہماری رائے ہے کہ اس معاملہ کو بورڈ کے ضدی اور ہٹ دھرم اراکین نے خراب کیا ہے ،حکومت کی نیت تونہ کل صاف تھی نہ آج صاف ہے نہ کل ہوگی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بلیوں کے جھگڑے نے ہی بندر کو ثالث بنایا ہے۔ جب آج حکومت کی قانون سازی کے باوجود شریعت پر عمل کرنے والوں پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا یعنی اگر زوجین ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی تسلیم کرتے ہوں تو انھیں آزاد ہونے سے کون روک سکتا ہے ۔ توموجودہ حالات میں برائے مصلحت نادانی اورجہالت میں دی گئی ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک طلاق مان لینے سے کونسی قیامت آجاتی اور کون سے مقاصد شریعت متاثر ہوجاتے۔اس کے تسلیم کرنے سے غیر قرآنی حلالہ کا دروازہ بھی بند ہوجاتا ۔ ہمارا خیال ہے کہ بورڈ کے بعض اراکین اسے اپنے مسلکی انا کے تحفظ کا مسئلہ بنایا اور شریعت کو داؤں پر لگادیا۔

بورڈ نے عدالت میں اپنا موقف پیش کرنے کے لیے جس وکیل کی خدمات حاصل کیں، اس نے کوئی تیاری نہیں کی بلکہ وہ تو خوداسلامی شریعت کی روح اور اسپرٹ سے ناواقف ہیں۔انھوں نے تو خود ایک سمینار میں یہ بات کہی تھی کہ ۱۴؍سو سال پرانے اسلامی قانون پر از سر نو غور کیا جانا چاہیے۔ آخر بورڈ کے پاس ایسے وکلاء نہیں تھے جو شریعت کے علم کے ساتھ اس پر ایمان بھی رکھتے ہوں۔

بورڈ کو اپنی کارکردکی کا بھرپور جائزہ لینا چاہیے اور ملت کو بھی بورڈ سے حساب لینا چاہیے کہ آخر ۴۴؍سالوں میں بورڈ نے ملت کا جوخطیر سرمایہ خرچ کیا ہے،اس کا حاصل کیا ہے۔ ہر سال اجلاس کے نام پر پچاس ، ساٹھ لاکھ روپے خرچ کیا جاتا ہے۔ اراکین بورڈ ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں، اچھے ہوٹلوں میں قیام کیا جاتا ہے اور انواع واقسام کے کھانے کھائے جاتے ہیں۔ بحث ہوتی ہے، کمیٹیاں تشکیل پاتی ہیں ، ہر مسلک اپنی نمائندگی بڑھانے کے لیے سازشیں کرتا ہے، ہر ذمہ دار اپنی کرسی بچانے کے جتن کرتا ہے اور پھر قراردادیں پاس ہوتی ہیں۔ اخبارات میں فوٹو چھپتے ہیں اور بس ۔ اس طرح شریعت کے تحفظ، مسلکی اتحاد اور ملت کی تعلیم و بیداری کا حق ادا کردیا جاتا ہے۔

بورڈ کو اپنے اندر شورائی نظام کو تقویت دینا چاہیے۔بورڈ کے اراکین و ذمہ داران کی ایک میعاد مقرر ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ جو صاحب کرسی پر براجمان ہوئے تو صرف داعی اجل ہی انھیں ہٹا سکتا ہے بلکہ اس کی مدت متعین ہونا چاہیے۔ بورڈ کو فقہ کا نہیں بلکہ شریعت کا تحفظ کرنا چاہیے اور اراکین بورڈ کو اپنے مسلکی انا کے حصار سے نکلنا چاہیے۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے، اس میں مسلمانان ہند کے تمام مسلکوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔ یہ نمائندگی اسی لیے دی گئی تھی کہ ہر مسلک کو اپنی بات کہنے کاحق حاصل رہے۔ لیکن آج یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے اور بطور ثبوت بورڈ کے فیصلے پیش کیے جاسکتے ہیں کہ آج بورڈ پر ایک مسلک کا قبضہ ہے۔ لہٰذا بورڈ کو اخلاص کے ساتھ اس کی مشترکہ مسلک کی روح کو زندہ کرنا چاہیے، ورنہ کب تک آپ ملک کے حالات کی دہائی دے کر لوگوں کی زبانیں بند رکھ سکتے ہیں۔ بورڈ کی تقسیم اگرچہ نہیں ہوئی لیکن دوسرے بورڈبھی قائم ہوچکے ہیں۔ اگر مشترکہ روح کو زندہ نہیں کیاگیا تو کل تقسیم بھی ہوسکتی ہے۔ بورڈ کی بے اثری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں ایک خاص مسلک کے قابضین دوسرے مسلکوں کے افراد کو اپنی بات کہنے تک نہیں دیتے۔ بورڈ میں شامل مسلکوں اور دینی تنظیموں کو بھی چاہیے کہ وہ اس کی مشترک روح کو باقی رکھیں اور اس کو زندہ کرنے میں فعال کردار اداکریں۔

امید ہے کہ فروری کے اوائل میں منعقد ہونے والے بورڈ کے اجلاس میں اس تلخ نوائی پر غور کرنے کی زحمت کی جائے گی۔

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔