ترانہ اردو

شازیب شہاب

الگ سب سے ہے شوکت و شانِ اُردو
مہذب زبانوں کی ہے جان اردو
ہم اپنے مقدر  پہ نازاں نہ ہوں کیوں
یہ کم ہے کہ ہیں ہم محبانِ اُردو

جمالِ حیا بھی ہے حسن ادا بھی
ظہورِ شفق بھی ہے رنگِ حنا بھی
نسیمِ سحر بھی ہے بوئےصبا بھی
ہے کتنا حسیں یہ گلستانِ اردو
مہذب زبانوں کی ہے جان اردو

وفا پیار چاہت کی روحِ رواں ہے
اخوت، مروت کی یہ ترجماں ہے
یہ امن و اماں کا مکمل جہاں ہے
بنا ہے محبت سے ایوانِ اردو
مہذب زبانوں کی ہے جان اردو

دھنک اس کی قومی ترانوں  میں بھی ہے
مہک اس کی درسی کتابوں میں بھی ہے
کھنک اس کی فلموں کے گانوں میں بھی ہے
منور ہے ہر سو ہر اک آن اردو
مہذب زبانوں کی ہے جان اردو

تمدن کا نغمہ ہے تہذیب کا ساز
یہ معراجِ  فن ہے سخن کا ہے اعزاز
نہاں اس میں اقدارِ فطرت کے ہیں راز
کہاں سب کو ہوتا ہے عرفانِ اردو
مہذب زبانوں کی ہے جان اردو

جنوں کی ادا ہوش  کا بانکپن ہے
حرم میں دعا دیر میں یہ بھجن ہے
یہ توقیرِ نغماتِ گنگ و جمن ہے
نہ ہندو نہ سکھ اور مسلمان اردو
مہذب زبانوں کی ہے جان اردو

وطن میں ہی اپنے یہ ہجرت زدہ ہے
ہیں لب خشک، آنکھیں ہیں نم، دل بجھا ہے
خدا جانے اس کے مقدر میں کیا ہے
شہاب آج کیوں ہے پریشان اردو
مہذب زبانوں کی ہے جان اردو

تبصرے بند ہیں۔