مشاعروں میں مست

مدثر احمد

 وطن عزیز میں مسلمانوں کیبد حالی  کے تعلق سے نہ صرف خود مسلمان محاسبہ کررہے ہیں بلکہ ہندوستان کی حکومتیں بھی اس بات کااعتراف کررہی ہیں کہ مسلمانوں کی حالت بے حد خراب ہے۔ وہ تعلیمی، سماجی اور اقتصادی طور پر کمزور ہیں۔ مسلمانوں کی نمائندگی بھی کمزور ہے مسلمانوں کی سماجی حالت بھی خراب ہے۔ اس معاملے میں مسلمانوں کا بڑا طبقہ فکرمند ہے کہ کیسے مسلمانوں کی رہنمائی کی جائے، کس طرح سے مسلم نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرتے ہوئے انہیں یو پی یس سی، اسٹیٹ پبلک سرویس کمیشن کے عہدوں پر فائز کروانے کے لئے سالانہ کروڑوں روپئے خرچ کررہے ہیں۔

 زکوٰۃ انڈیا فائونڈیشن جیسی تنظیمیں مسلمانوں کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے کروڑوں روپئے کے سرمائے کو صرف کررہے ہیں۔ اس کےمثبت نتائج بھی آرہے ہیں۔ کئی جگہوں پر روٹی بینک، کپڑا بینک، غیر سودی بینک بنائے جارہے ہیں جس سے لاکھوں افراد استفادہ کررہے ہیں۔ صفاء بیت المال جیسی تنظیمیں امت کی خواتین کو خود ساختہ روزگار فراہم کرنے کے لئے کام کررہی ہیں اور گھر گھر جاکر کباڑ جمع کرتے ہوئے اس سے ہونے والی آمدنی کو ملت اسلامیہ کے فلاح و بہبودی پر خرچ کررہے ہیں۔ ملک کے مسلمانوں کی حالت پر یوں تو کئی نوحہ و مرثیہ لکھے جاچکے ہیں پھر بھی انکی حالت بہتر نہیں ہورہی ہے۔ دوسری جانب حکومتوں اور کچھ تنظیموں نے مسلمانوں میں ایک خمار پیدا کردیا ہے، ایک نشہ جس سے مسلمان باہر آنا ہی نہیں چاہتے۔

 کہتے ہیں کہ پہلے زمانے میں شعراء اپنے کلام کو سننانے کے لئے درباروں میں درخواستیں دیا کرتے تھے، شعراء زبردستی اپنا کلام محفلیں بناکر پیش کرتے تھے لیکن اب زمانہ بدلنے لگاہے۔ اب شعراء کو مشاعروں میں شرکت کرنے کے لئے حکومتیں ہی مواقع فراہم کررہی ہیں، مختلف اکادمیوں اور کائونسلوں کے ماتحت مشاعروں کا اہتمام کرتے ہوئے نہ صرف شعراء کو شعر و شاعری میں الجھا رکھا ہے بلکہ عام لوگوں کو بھی سامعین کی نشستیں دے کر مشاعروں کے خمار میں ڈوبا رکھا ہے جس سے باہر آنے کے لئے قوم کے لوگ تیار ہی نہیں ہے۔

کچھ عرصے قبل تک ہم یہ سنا کرتے تھے کہ فلاں مقام پر اتنے سال بعد کل ہند مشاعرہ ہورہاہے، اتنے عرصے بعد ریاستی سطح کا مشاعرہ ہورہاہے لیکن اب تو کل ہند مشاعروں کے سلسلے چل رہے ہیں۔ مانو کہ ہندوستان چھوٹاہوگیا ہے کہ ہر جگہ کل ہند مشاعروں کی صدائیں آرہی ہیں۔ ریاستی مشاعروں کی بات ہی الگ ہوگئی ہے، اب ان مشاعروں میں شرکت کرنے والے شعراء کے نام کے سامنے تخلص کسی بھی شہر سے جڑا ہوا ہو اور اسکا تعلق بھلے اسی شہر سے ہو اسے اسکے تخلص کے حساب سے زادہ راہ طئے کی جاتی ہے۔ مثال کے طورپر بنگلور میں ہورہے مشاعرے میں بنگلور کا شاعر ہی شرکت کرے اور اسکا تخلص دیو بندی، امروہی، دہلوی یا مدراسی تو اس شاعر کی زادراہ تخلص کی نسبت سے طئے ہوتی ہے یا پھر اس مشاعرے کو کل ہند میں تبدیل کردیا جاتاہے۔ خیر یہ معاملہ حکومتی اداروں و اکادمیوں کا ہے کہ وہ کس طرح سے زادراہ تقسیم کریں۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو ان مشاعروں سے آخر کیا فائدہ ہورہاہے۔ یقیناً زندگیوں میں تفریح ہو نی چاہئے لیکن اس قدر پوری قوم کو الجھائے رکھنا وہ بھی مشاعروں میں کہاں تک درست ہے۔ یہ بھی سوال ہے کہ قوم ملت کو ہمارے شعراء سے کیا پیغام مل رہاہے؟۔کونسی تحریکوں سے ان مشاعروں سے ہوا مل رہی ہے؟ کونسا انقلاب لانے کے لئے یہ مشاعرے ہورہے ہیں۔ کس جہاد کے لئے للکارا جارہاہے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ ان باتوں کو چھوڑئے کم ازکم 95 فی صد شعراء کے کلام میں کم ازکم نوجوانوں کو اخلاقیات کا درس نہیں دیا جاتابلکہ گیسو، باہیں، ہونٹ اور آنکھوں میں ہی پھنسایا جارہاہے، جس قوم کے شعراء کا کلام لڑکیوں کے حسن پر ہی لٹکا ہوا ہو اس قوم کے نوجوانوں سے جہاد یا انقلاب کی کیا توقع کی جائے۔

 آج قوم مسلم کو مشاعروں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ محاسبوں کی ضرورت ہے جسے شاید ہی ہماری قوم کے لیڈران، دردمند، قائدین، عمائدین اور حکمرانوں پورا کرپا ئیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔