کار خیر کا ایک مثالی ماڈل (1)

سیدشجاعت حسینی

حسن اتفاق کہ میں یہاں پہنچا اور معلوم ہوا کہ مصباح الدین ہاشمی صاحب کی قیادت میں اپلیکنٹ ارکان کا ایک قافلہ صبح رخت سفر ہوگا قریبی شہر لاتور کی سمت ایک تربیتی اجلاس کے لئے۔

احباب سے ملاقات اور کچھ پرانی یادوں کو ریفریش کرنے کی تمنا جاگی اور اسی نیت سے میں نے اجازت مانگی کہ گاڑی میں کچھ جگہ بن سکتی ہو تو میں بھی شامل ہوجاؤں۔ بات بن گئ اور پچھلی نشست پر میں نے یوں جگہ پائ کہ بیشتر احباب کی فیس ٹو فیس نشست بن گئ اور ایک خوبصورت محفل سج گئ۔ تعارف کے بعد مختلف موضوعات کے تھریڈس کھلتے چلے گئے۔

آپ سے ملئے، رکنیت کے امیدوار جناب راجہ پٹیل صاحب جذبہ خدمت سے معمور ایک کم سخن اور دلنواز شخصیت۔

یہ 2009 کی بات یے۔ ایک حکومتی آفیسر کے ذریعے انھیں معلوم ہوا کہ حکومت مہاراشٹر ان چار فیصد طلباء کی تربیت و رہنمائ کا جامع منصوبہ بنارہی ہے جو کسی جسمانی عذر کی بنا پر سماجی دوڑ میں پیچھے ہیں۔ ملکی سطح پر یہ کسی حکومت کا پہلا منصوبہ تھا۔ اس درجہ بندی میں جملہ 21 گروپس شامل رہیں گے۔ پھر کیا تھا، یہ بندہ خدا خاموشی سے اپنے مشن پر جٹ گیا۔

دہلی جاکر ہر سطح کی معلومات اکھٹی کی۔ خود کو تکنیکی، دفتری، قانونی اور سماجی معلومات سے لیس کیا۔

واپس پہنچ کر انٹر میڈیٹ پاس بے روزگار محنتی نوجوانوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اکھٹا کیا۔ ان کی اور انکے والدین کی کونسلنگ کے لمبے سیشن انجام دئیے کہ بس دو سالہ صبر اور محنت درکار ہے۔

ایک  تعداد نے انکی باتوں کو دن کے خواب سمجھ کر اعتماد نہ کیا لیکن کئ نوجوانوں نے بھروسہ کرکے ٹریننگ کی حامی بھری۔

روزانہ آفس کے بعد شام 5تا رات 12 بجے تک مسلسل انھیں مفت ٹریننگ  دیتے رہے اور انھیں صبر کے ساتھ حوصلہ بنائے رکھنے کی تلقین بھی۔

دو سال بعد جب حکومتی ڈسکشن فیصلہ کی صورت میں عوامی سطح پر ڈکلیر ہوا تب بیوروکریٹس کی آنکھیں کھلیں اور معلوم ہوا کہ یہ عام فیصلہ نہیں بلکہ چیلنجز سے بھرپور ہے۔ یہاں پرسنل پروفائیلنگ لازمی یے۔ اس لئیے ہر دو تین طلباء کے لیے ایک ٹرینڈ ٹرینر کی ضرورت یے جنکی فراہمی و دستیابی بالکل ممکن نہیں۔

موصوف نے وہاں بھی رسائ پائ  اور یقین دلوایا کہ ٹرینڈ رسورسس فراہم کرنے کی زمہ داری میں قبول کرتا ہوں اور اپنے سیکڑوں ساتھیوں کی ٹیم کو لا کھڑا کردیا۔

تربیت یافتہ نوجوان اس مرحلہ کے لئے تیار بیٹھے تھے اور انھوں نے خود کی صلاحیتوں کو توقعات سے بڑھ کر ثابت کردیا۔

پھر کیا تھا آنافاناان کےبتربیت یافتہ 200 سے زائد مسلم نوجوان نہ صرف باوقار روزگار سے جڑ گئے بلکہ  پے کمیشن کی معقول تنخواہوں کے ساتھ سماجی خدمت کے مواقع،  اور اجر و ثواب کی راہیں بھی پاگئے۔

بڑی ہی سادگی اور کسر نفسی کے ساتھ جب یہ روداد سنائ جارہی تھی تو دیگر احباب یہ اضافہ بھی کیے جارہے تھے کہ کس بے لوثی کے ساتھ موصوف نےنہ صرف یہ بلکہ کئ اور کام انجام دئے۔

یہ بے لوث روداد کئ قیمتی پیغام دیتی ہے:

1۔ خدمت خلق کا کام دور بین نگاہیں چاہتا ہے۔ وقتی مسائل پر نظر رکھ کر اشیاء اور ریلیف کا بٹوارہ وقتی مسئلہ تو حل کردیتا ہے لیکن توقعات کی لمبی فہرست تھمائے چلاجاتا ہے۔ دوررس نگاہ پتوں کو نہیں ٹٹولتی بلکہ جڑوں کو سیراب کرتی ہے۔ ہماری ترجیحات کاتناسب بھی متوازن ہونا چاہئے۔

2۔ حکومتی شکوےبس آدھی سچائی ہے، ہماری کم علمی، ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کا ملکی مسابقت سے جان چراکر مڈل ایسٹ کے شارٹ کٹس میں کفیل کی پناہیں ڈھونڈھنا، اسکیموں اور نئے منصوبوں سے غفلت اور اپنی دنیا سے باہر نہ جھانکنے کی ہماری بیماری زیادہ بڑا سچ ہے۔

3۔ خدمت خلق کا کام،  اسکی پذیرائ  اور سپورٹ فوٹو سیشنس اور رپورٹس کی حد بندیوں کا محتاج نہیں ہونا چاہئے. ایسے خاموش خدمت گار بھی گر توجہ کے مستحق ہوں تو اس نوعیت کے کام بھی اہمیت اور تحریک حاصل کر پائیں گے۔

4۔ ہمارے اہل خیر حضرات کا شعور جاگنا بھی ضروری ہے کہ مخصوص علاقوں میں صرف سبسڈی بانٹنا ہی حب قوم اور اجر و خیر کا ابدی سوتا نہیں۔اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ ان کی اپنی ترجیحات اور دلچسپیوں کی بنیاد پر ہمارا کیڈر engage ہوتا نہ چلا جائے۔

5۔ یہ یک نفری تحریک ان سب کے لئے بھی خاموش پیغام ہے جو گھر بیٹھ کر ماتم کناں ہیں کہ میں صلاحیتوں کا خزانہ ہوں لیکن ہائے ستم ظریفی کہ میری صلاحیتوں کا نہ کوئ قدر دان یے نہ انکے استعمال کی کسی کو فکر۔

میری قیادت، میری تحریک، میرا سماج، میری ملت میرے یار دوست سب بے وفا اور نرے لاپرواہ۔

تبصرے بند ہیں۔