مصارف زکوٰۃ کی حقیقت

مُبینہ رمضان

زکوٰۃ کا لغوی اور شرعی مفہوم :۔
زکوٰۃ کے لغوی معنٰی بڑھنے اور پاک ہونے کے ہیں شرعی معنو ں میں زکوٰۃ اس مال کو کہتے ہیں کہ انسان اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے اسکے حق داروں کے لئے حصہ نکالتا ہے اس سے انسان کا مال پاک بھی ہوتا ہے اور اجر میں بھی بڑھتا ہے۔
زکوٰۃ کے یہ معنیٰ قرآن وحدیث کی روشنی میں مزیدواضع ہوتا ہے ۔
وَاَقیمُواالصلوٰۃً واٰتوزالذکوٰۃ (نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو)
نبی ﷺ نے فرمایا ہے ۔اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ۔
لا اِلہ اِلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی شہادت، نماز کا کا قائم کرنا، زکوٰۃ کا ادا کرنا۔ بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ (بخاری، مسلم )
زکوٰۃ کی ترغیب وفضیلت :۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ اے نبی ﷺ تم ان کے اصول میں سے صدقہ ، فرض ، زکوٰۃ اور نفلی صدقہ وصول کرو جس سے تم ان کو پاک و صاف کرو گے اور جن کا حال یہ ہے کہ جو کچھ خدا کی راہ میں دیتے ہو اسکو خدا سے ڈرتے ہوئے دیتے ہیں ۔ ’’پس وہ کامیاب ہوگیا جس نے تقویٰ اختیار کیا ۔‘‘
زکوٰۃ کی ترغیب حدیث کی روشنی میں :۔
’’ان لوگوں کو دردناک سزا کی خوشخبری دو جو سونے اور چاندی کو جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے اور چاند ی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانی اور پسلیوں پر پیٹھیوں کو داغا جائے گایہی ہے وہ خزانے جو تم اپنے لئے جمع کیا کرتے تھے ۔ تو اب سمٹی ہوئی دولت کامزہ چکھو‘‘ (سورۃ التوبہ: 34۔35 )
زکوٰۃ کی تاریخ :۔
زکوٰۃ کا حکم نماز کی طرح انبیاء علیہ السلام کی شریعت میں ہمیشہ موجود رہا ہے دین ابراہیمی کے تمام پیرواسکے احکام سے پوری طرح واقف تھے ۔
قرآن نے اسی بناء پراسے حق معلوم (ایک متعین حق) (24 المعارج) سے تعبیر کیا ہے لہذا یہ پہلے سے ہی موجود ایک سنت تھی جسے نبی ﷺ نے خدا کے حکم سے اور ضروری اصلاحات کے بعد مسلمانوں میں پھر سے جاری فرمائی ہے قرآن کا ارشاد ہے۔’’ سیدنا اسمائیل ؑ اپنے گھروالو ں کو جس طرح نماز کی تاکید کرتے تھے اسی طرح زکوٰۃ کی بھی تلقین کرتے تھے ‘‘۔ ( سورۃ المریم ۳۱۰)
بنی اسرائیل کے بارے میں بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے نماز اور زکوٰۃ کے دونوں کی پابندی کا عہد لیا (۳۱۱ سورۃ البقرہ )
جبکہ سیدنا مسیح علیہ اسلام نے اپنے متعلق فرمایا ہے ۔
’’وَاَومنیٰ بالصَلوٰۃ و الزَکوٰۃ مادمُتُ حیاٌ ‘‘ ’’اور اللہ نے مجھے زندگی بھر کے لئے نماز اور زکوٰۃ کی پا بندی کا حکم دیا ۔‘‘
اسی طرح سے بائبل میں بھی زکوٰۃ کا ذکر اسی طرح سے ہوا ہے ۔
باب اخبار میں درج ہے ۔ ’’تو اپنے غلے میں سے جو سال بہ سال ترے کھیتوں میں پیدا ہو عشر ادا کرنا‘‘۔ (14:22)
اور جب تو تیرے سال جو عشر کا سال ہے اپنے سارے مال کا عشر نکال دے تو اسے لاوی اور مسافر ، یتیم ، اور بیوہ کو دینا تاکہ وہ اسے یتیوں میں کھائیں اور سیر ہوں ‘‘۔
زکوٰۃ کی فرضیت مقصد:۔
زکوٰۃ کی فرضیت تو قرآن سے ثابت ہے نیز زکوٰۃ کا واحد مقصد یہی ہے کہ جو پورے دین کا مقصد ہے اسلام چونکہ نبی نوع انسان کے لئے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ارکان اس لئے یہ اسلام نے تاکید وتلقین کے اس رُکن کے لئے الفاظ استعمال کرکے زکوٰۃ کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے ۔ زکوٰۃ ادا کرکے مالی صدقہ ادا ہوتا ہے ۔
تو دوسری طرف معاشرے کے محتاج ومساکین کے لئے ہمدردی ۔ ایثار ومحبت کی رغبت سے اجتماعیت کے وہ اعلیٰ مقاصد پورے ہوتے ہیں جس کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ’’ مسلمان ایک جسد واحد ہے اگر ایک عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو دوسرا عضو درد محسوس کرتا ہے ‘‘۔
اسلام پر عمل پیراہونے کا مقصد صرف تقوٰی اور تزکیہ کا حصول ہے ۔
اسطرح سے صاحب نصاب پر فرض ہے کہ وہ مال کو اللہ کا دیا ہوا عطیہ سمجھ کر حق دارو کو اس مال میں سے اتنا حصہ ادا کریں خواہاں یہا ں ان کے پاس علم ہو۔ صلاحیت ہو ۔صالحت ہو ۔ دولت ہو یا کوئی اور ہنر ہو ہمیں چاہیے کہ ہر وقت اللہ کی راہ میں صدقہ کیا کریں ۔ تاکہ معاشرے میں دیگر اللہ کی خلقت بھی خود اعتمادی سے زندگی سے گزاریں ۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں ۔ ’’تمہارے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے ۔‘‘
دراصل صاحب ثروت ہمیشہ سے دولت کو اپنی کمائی اور اپنا مال تصور کرتے ہیں جبکہ بندے کو اللہ کی طرف سے ہر ایک چیز عطا ہوتی ہے ۔ اسے جو بھی عطیہ اللہ کی طرف سے دیا جاتا ہے وہ صرف ایک آزمائش ہوتی ہے ۔ رسول ﷺ نے زکوٰۃ ادا کرنے کی بے حد تاکید فرمائی ہے چونکہ ایک دفعہ ایک عورت آپ کی خدمت میں آئی جسکی ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے آپ نے فرمایا کیا ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو اس نے کہا نہیں توآپ ﷺ نے فرمائی کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز تمہیں ان کے بدلئے آگ کے کنگن پہنائے ۔ ( ابو داؤد، ترمذی )

مصارف زکوٰۃ کے متعلق یہ سوچ صحیح نہیں ہے کہ:۔
1) زکوٰۃ کی رقم سے غربا کی اجتماعی خدمت وبہود کا چھوٹا یا بڑا کام نہیں کیا جاسکتا مثلاً کسی غریب علاقے میں کوئی مسجد نہیں بنا سکتے یا کوئی تعلیمی مرکز جہاں دینی اور فکری تربیت ہو۔ قائم نہیں کرسکتے ۔
2) کوئی ہسپتال ، شفا خانہ نہیں بنا سکتے کیونکہ شفاخانہ کی املاک یا اداروں کی املاک غریبوں کی وراثت نہیں بن سکتی
3) اداروں یا یتیم خانوں کے انتظامی اخراجات فلاحی اداروں کی تنخواہ وغیرہ میں زکوٰۃ خرچ نہیں کر سکتے ۔
4 ) کسی مدرسہ یا مکتب کی تعارفی مہم یا تشہیری سرگرمی میں بھی یہ رقم صرف نہیں ہو سکتی ہے ۔
5) کوئی پبلک انجمن یا ادارہ خواہ اسکی دینی حثیت کتنی ہی مسلم ہو محتصل زکوٰۃ کا مجاز ہیں اگر کو ئی دنیا ادارہ یا انجمن کام کو کرے تو وہ وصول کردہ زکوٰۃ میں سے الگ سر بھی اسکی وصول کے لئے وصارف پر خرچ نہیں کرسکتا ورنہ اسکے بقدر زکوٰۃ ادا کرنے والوں کی زکوٰۃ ادا ہی نہ ہوگی اسکے لئے جائز صورت تملیک کی ہے جو مدارس میں رائج ہے یعنی پہلے زکوٰۃ کسی غریب طالب علم کو دلوٓئے اور پھر اس طالب علم سے لے کر مدرسہ کے فنڈ میں بطور عطیہ وصول کرے ۔
ان نقطوں کی مدنظر رکھتے ہوئے لازم ہے کہ ہر ایک مسلمان مصارف زکوٰۃ کو تفصیل سے ٹھنڈے دل ودماغ اور بصیرت قلب سے سمجھیں تاکہ سبوں پر مصارف زکوٰۃ واضح ہوجائیں اور زکوٰۃ کی تقسیم کے بارے میں خود فیصلہ کریں۔
مصارف زکوٰۃ کی تفصیل یوں ہے ۔
زکوٰۃ کے مصارف:
زکوٰۃ لینے کے حق دار آٹھ قسم کے لوگ ہیں ان سب کا ذکر قرآن پاک کی سورہ توبہ کی آیت ۶۰ میں ہوا ہے ۔
یہ صدقات دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں اور ان کے لئے جس کو تالیف قلب مقصود ہو نیز یہ کہ گردنوں کے چھڑانے اور قرضداروں کی مدد کرنے میں اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی امداد کرنے کے لئے ۔
اس آیت کی مطابق زکوٰۃ کے لینے والے درجہ ذیل ہے۔
1۔ فقراء اور مساکین
2 ۔ عاملین
3۔ مولفۃ القلوب (جس کی تالف قلب مقصود ہو )
4 ۔ فی الرقاب ( غلاموں کو آذاد کرنے پر )
5 ۔ غار مین
6۔ فی السبیل اللہ
7۔ ابن السبیل
 فقراء اور مساکین :۔
زکوٰۃ کا سب سے پہلا ومصرف فقرا اور مساکین کو بتایا گیا ہے فُقیرائے سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو کمانے ، ہاتھ پاؤں مارنے ہے زندگی کے لئے جدوجہد کرنے کا دم تو رکھتے ہیں لیکن مالی احتیاج ان کے راستہ میں رکاوٹ بنی ہوتی ہیں اور مسکین سے وہ طبقہ مراد جو مسلسل غریبی کا شکار رہنے کے سبب سے جدو جہد کرنے اور مشکلات پر قابو پانے کا حوصلہ کھو بیٹھتے ہیں ۔
زکوٰۃ کا اولین مصرف یہ ہے کہ سوسائٹی کے ان دونوں طبقات کو اٹھانے کی کوشش کی جائے فقر کے لفظی معنیٰ حاجت مند اور مسکین کے معنیٰ عاجز اور بے چارہ بے بس۔ اور مسکین کی تشریح آپ ﷺ نے یوں فرمائی ہے
’’مسکین وہ ہے جو اپنی حاجت بھر مال نہ پاتا ہو اور نہ پہنچانا جاتا ہو کہ اسکی مدد کی جاسکے اور نہ وہ کھڑا ہو کر لوگوں سے سوال کرتا ہو ۔
دوسری ایک تشریح میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ خاص طور پر مدد کے مستحق وہ فقیر ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لئے زمین میں کوئی دھوڑ دوپ نہیں کر سکتے ۔ انکی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوشحال ہیں یہ بات اب صاف ظاھر ہوتی ہے کہ فقرء و مساکن کی ہر طرح سے امداد کرنا قرآن سے ثابت ہیں اسلئے ایسے طبقوں کے لئے یہ اقدامات مصارف زکوٰۃ کی رقم سے اٹھائیں تو جائز ہوگا ۔
* فقراء ومساکین کے لئے ممکن کھانا، کپڑا میسر کیا جائے ۔
* ایسے لوگوں کی عقل واخلاقی ترقی کے لئے تعلیم کا بندوبست کیا جائے ۔
* مفلس اور بد حال لوگوں کو اس دلدل سے نکالنے کے لئے نیز ان کے بچوں کو بہترین مستقبل فراہم کرنے کے لئے منظم کوششیں کی جائیں ۔
* ایسے لوگوں کو ہنر سکھائیں جس کے لئے فنون کے مراکز ترتیب دیں تاکہ ایسے لوگ خد اعتمادی سے جینا سیکھیں اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھلائیں ۔
* ایسے لوگوں کے لیے شفا خانے بھی کھولے جاسکتے ہیں جہاں بے حال و مفلس لوگوں کا بہتر سے بہتر علاج معالجہ ہوسکے ۔
* ایسے لوگو ں میں خواتین و بیٹیوں کے لئے بہترین سنٹرس قائم کئے جاسکتے ہیں تاکہ تعلیم حاصل کرکے دوسروں کی مدد کرنے کا حوصلہ پالے ۔
عاملین زکوٰۃ :۔
عاملین سے مراد زکوٰۃ کے وصول کرنے والئے کا رکن ہے ۔ اس لفظ میں تحصل دار سے لیکر سارے کار ندے شامل ہے۔
حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ’’عامل کے لفظ کے اندر تحصیل دار ، منشی ، تقسم کرنے ولا مال اکھٹا کرنے والا خزانچی سب شامل ہے ‘‘۔
احادیث وتاریخ کے مطالعہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کا پورا سسٹم دراصل ایک بہترین معاشی ڈیپارٹمنٹ کی حیثیت رکھتا ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآنی احکام کو نازل فر مایا ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی کائنات بس اللہ کے بندو میں انسانی ہمدردی اور یکسانیت کا درس ملے ۔ جس طرح سے اسلامی حکو مت میں زکوٰۃ کی تحصل اسکے اہتما م و انتظام پر جو عملہ مقرر ہوگا اس کے چھوٹے اور بڑئے کار کنوں کی تنخوا میں اس سے دی جاسکتی ہیں ۔
اسی طرح سے اسلامی حکومت کی عدم موجودگی کی صورت میں زکوٰۃ کے مال اکھٹا کرنے ، ان کے حساب وکتاب رکھنے ، ان کی محفوظ  کر نے نیز اس مقصد کے لئے دعوت و تبلیغ پر جو کچھ وہ خرچ کریں گے وہ سب اسی مدوے دیا جاسکتا ہے ۔
مؤلفۃ القلوب ( وہ لوگ جس کی تالیف قلب مقصود ہو ) :
اس حد میں مسلمان یا غیر مسلم دونوں زکوٰۃ دینا جائز ہے ۔ تالیف قلب کے معنی ہیں دل مو ہنا تفسیر ابن کثیرمؤلِقتہ القلوب کی درجہ ذیل قسمیں گنائی ہیں ۔
) ایسے غیر مسلم لیڈر اور سردار کو اسلام کی طرف مائل کرنا مقصود ہو ۔
) ایسے با اثر نو مسلم جن کے اسلام سے پھر جانے کا اندیشہ ہو اور جن کا ارتداد اسلام اور مسلمان کے لئے مضر ہوسکتا ہو ۔
) ایسے سردار جو اپنے علاقہ میں اسلامی حکومت کو مالیہ کی وصولی میں مدد دین اور سرحدی علاقوں کو دشمن کے خطرات سے محفوظ رکھنے میں حکومت کا ہاتھ بھی بٹائیں ۔ (ابن کثیر)
خود رسول ﷺ نے ایسے سرداران کو سو سو اونٹ دلوائے چند کے نام یوں ہیں جو اسی مؤلِفتہ القلوب کے زمرے میں شامل ہیں ابو سفیاں بن حرب ، صفوان بن امیر ، عینیہ بن حصن اقرع بن حابس ۔ علقمہ بن علاثہ ایسے سرداروں کو آپ ﷺ نے زکوٰۃ کے مدسے ہی بھاری رقومات دی تھی ۔
اس قسم کے خرچہ جات تو آجکل کے پر اشوب دور میں لازم بن جاتے ہیں جبکہ عیسائیت کے پھیلاؤ کے لئے یا ارتداد کے لئے کروڑوں روپئے خرچ کئے جاتے ہیں تو کیا دین کے پھیلاؤ کے لئے اور اس ارتداد کے مقابلے میں زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہی نہیں بلکہ عین مناسب ہے ۔
اتنا ہی نہیں بلکہ زکوٰۃ کی رقم غیر مسلمون کی بھی مدد کی جاسکتی ہے چناچہ امام ابو یوسف ؒ کی تالیف کتاب کتاب الخراج میں رقم ہے کہ حضرت عمرؓ اپنی خلافت کے زمانے میں زکوٰۃ کی آمدنی سے یہودیوں کی بھی مد د فرماتے تھے ۔ ایک روز مدینہ کی گلیوں سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ ایک شخص بھیک مانگ رہا ہے ۔ انہیں حیرت ہوئی پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک یہودی ہے اور کہتا ہے میں کاروبار کرتا تھا ۔ جزیہ بھی دیتا تھا ۔ لیکن اب بوڑھا ہو گیا ہوں کام نہیں کرسکتا ہوں لہذا بھیک مانگنے پر مجبور ہوں تو حضرت عمر ؒ نے ملازم کو حکم دیا کہ اسکو روظیفہ مقرر کیا جائے ۔اور فرمایا من مساکین اہل الکتاب
نیر بعض دیگر صحابہ جیسے حضرت زید بن ثابت ، حضرت ابن عباس ؒ ۔ وغیرہ کی رائے کا ذکر طبری نے بھی کیا ہے کہ زکوٰۃ غیر مسلموں کو بھی دی جا سکتی ہیں ۔
فی الرقاب:۔
غلاموں کی گردنیں چھڑانے یا ان کو خرید کر آذاد کرنے کے لئے غلاموں کو آزاد کرنے کی دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ مکاتب کی آذادی حاصل کرنے میں مدد کی جائے ۔ مکاتب سے مراد وہ غلام ہے جس نے اپنے مالک سے یہ معاہدہ کیا ہو کہ اگر اتنی رقم نہیں دے دوں تو تم مجھے آذاد کردو گے دوسرے یہ کہ غلام خرید کر آذاد کیا جائے
حضرت ابو ہریرہ ؒ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تین اشحاص ایسے ہیں جن کی مدد کرنا اللہ پر حق ہے ۔ (یعنی اللہ ان کی مدد کرتا ہے ) ایک اللہ کی راہ میں جنگ کرنے والا دوسرا وہ مکاتب جو اپنی رقم ادا کرنا چاہتا ہے ، تیسرا وہ شخص جو پا کدامنی حاصل کرنے کے لئے نکاح کرتا ہے ۔ (ابن ماجہ ، ترمذی،نسائی)
آپ ﷺ نے اور قرآن میں بھی مظلوم کی مدد کے لئے اسرار کیا گیا ہے ۔ غلام چاہے جس صور ت میں ہو اسکی مدد کرنا اور اسے آذاد کرانا مسلمانوں کے لئے اہم فریضہ ہے ۔ اسلئے جہاں اسلامی حکومت ہو وہاں قیدیوں کو چھڑانے کے لئے زکوٰۃ سے وصول کی گئی رقم صرف کی جا سکتی ہے ۔ اسکی تفصیل میں ایک اور واقعہ یوں طبقات ابن سعد میں بیان ہوا ہے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے متعلق کچھ تفصیلی حالات دے کر ان کا خط نقل کیا گیا ہے جو انہوں نے گورنر یمن کے نام لکھا ہے ۔ اس خط میں لکھتے ہیں کہ جتنی رعایا دشمن کے ہاتھ قید ہو اسکو چھڑانے کے لئے سرکاری خزانے سے رقم خرچ کی جائے اس صراحت کے ساتھ کہ مسلمان ہو یا ذمی ۔ دونوں پر خرچ کی جاسکتی ہے ۔
غارمین :۔
غارمین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی کاروباری اتار چڑھاو حالات کے نا مساعدت کے سبب سے قرضے کے نیچے دب گئے ہوں یا کسی آفت ارضی وبیماری ، سیلاب ، یا قحط نے ان کے گلہ یا باغ یا کھیتی یا کاروبار کو تباہ کردیا ہو ۔ اس گروہ کی امداد اس نقط نظر سے کی جائے گی کہ یہ معاشرہ کے کماو اور قابل افراد ہیں اور انکو گرتے اور تباہ ہونے سے بچاپا جائے تاکہ آگے یہ لوگ Oppression کے شکار ہونے کے بجائے اپنی صلاحیتوں سے قوم اور معاشرے کوبلندکریں ۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے مقامات میں پھنسے افراد ذہنی طور سے مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں ان کے گھر بچھڑ جاتے ہیں اور حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے آخر لوگ اس مرحلے میں خودکشی کا شکار ہوجاتے ہیں تو اسطرح سے اسلامی معاشرت نے ایسے افراد کے لئے بہترین اسلوب ترتیب دئے ہیں ۔
فی سبیل اللہ:۔
ایک وسیع مفہوم رکھنے والی اصطلاح ہے جس کو ہم چند معنوں تک مقید رکھے تو نا انصافی ہوگی ۔ اس اصطلاح کے اندر نیکی اور بھلائی کے وہ سارے کا م داخل ہیں جن کی طرف اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے رہنمائی ۔
یہ لفظ’’ اللہ کی راہ‘‘ قرآن میں عام استعمال ہوا ہے جمہورسلف کے نزدیک اس سے مراد اللہ کی راہ میں جہاد اور غزوہ یا نظام باطل کے خلاف جدو جہد ہے ، تشریح میں یہ کہنا بھی مناسب ہوگا کہ شیطانی طاغوت کے خلاف اور دین کی دعوت کے جتنے بھی طریقے اختیار کئے جائیں ان انتظامات کو برو کار لانے کے لئے یہ رقم استعمال ہو سکتی ہے ۔
بعض علما نے جہادفی سبیل اللہ کو اقامت دین سے تعبیر کیا ہے فی سبیل اللہ کی وضاحت کرتے ہوئے مشہور عالم رشید ر ضا تفسیر المنار میں لکھتے ہیں ۔
فی سبیل اللہ کے الفاظ ان تمام شرعی مصالح پر مشتمل ہیں جن پر مذہب اور حکومت کا انحصار ہے ان میں سب سے اول اور مقدم ہے جنگ کی تیاری کے لئے اسلحہ خریدے جائے فوج کے لئے غذائی سامان خریدا جائے ٹرا نسپورٹ کا انتظام کیا جائے مجاہدین کو سامان حرب سے لیس کیا جائے ۔
اپنی دلائل پر تمام علماء جس میں علامہ آلوسی حنفی ، تفسیر روح المعالی ، ابن العربی ، احکام القرآن دلام ابن حزم ، المعلی ، سید سلیمان ندوی ، سیرۃ النبی ، میں اسی مفہوم کو ترجیح دیتے میں کی فی سبیل اللہ میں نیکی اور بھلائی کے سارے کام داخل ہیں ۔ ان میں مدرسوں کی تعمیر وغیرہ بھی لازماً شامل ہیں۔
ابن السبیل:۔
ابن سبیل سے مراد مسافر ہے مسافرت ایک ایسی حالت ہے جو غنی شخص کو بھی کبھی محتاج بنا سکتی ہے ۔ ایک کھاتا پیتا آدمی اگر دوسرے شہر میں جاتا ہے تو وہاں مسافر اور اجنبی ہوتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کی کسی غنی کے لئے صدقہ جائز نہیں ہے مگر تین صورتوں میں وہ اللہ کی راہ میں ہو یا مسافر ہو یا کوئی غریب پڑوسی ہو جو صدقہ کے مال میں سے تمہارے لئے ہدیہ بیجھے یا کھانے پر بلائے ۔ ایسے مسافروں کے لئے مسافر خانے تعمیر کئے جائیں ضرورت کے مطابق انکے لئے طبی امداد بہم پہنچائی جائے
ابو عبید ؒ نے کتاب الاموال میں انس بن مالک اور حسن بصری کا ایک قول یہ بھی نقل کیا ہے ۔
کی ان دونوں کایہ قول ہے کہ شاہراہوں کے پلوں کے بنانے میں اور راستو ں کی تعمیر میں جو کچھ تم نے دیا وہ بھی ادا شدہ صدقہ ہے۔
ان دلائل سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے کے مسلمان بہن بھائی تفاسیر کی گہرائیوں میں نہ بھی جائیں لیکن ان سطور کو پڑھ کر خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ زکوٰۃ کن اہم کاموں میں صرف کر سکتے ہیں۔ لہٰذا زکوٰۃ کی فرضیت کو مد نظر رکھکر تمام لوگ اپنے مال سے نصاب زکوٰۃ کے حساب سے صدقات نکالیں تاکہ معاشرے کے ان مستحق افراد جن میں بے کس و لاچار مرد و زن اور بچے شامل ہیں اور انہیں یہ حق پہنچ جائیں۔صعی ہو کہ ہم کو کوئی دست سوال دراز کرنے سے پہلے ہم انکے دروں تک پہنچ کر پھر سے کھوئی سنتوں کو دہرائیں اور زکوٰۃ دیتے وقت اور بعد میں اللہ کے دربار میں عاجزانہ کلمات اور حمد و ثناء بیان کریں اللہ تعالیٰ نے دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے احسن بنایا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔