مصر: حق وباطل کی کشمکش

اللہ کے پرستار اِدھر، شیطاں کے وفادار اُدھر

ابراہیم جمال بٹ
مصر کی تاریخ کشمکش کی سرگزشتوں کی ایسی رنگا رنگی سے بھری پڑی ہے کہ اس کی ورق گردانی کرتے ہو ئے کوئی بھی سنجیدہ قاری اپنے اندرون میں ایک ہلچل سی محسوس کرتا ہے۔ فرعون چاہے موسیٰ کلیم اللہ ؑ کے وقت کا ہو یا اکیسویں صدی کا۔ ہر دور کے فرعون کا ایک ہی مقصد ومدعی، ایک ہی طریقہ، اور ایک ہی اصول رہا ہے کہ جو بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے برابر کھڑا ہو جائے، اسے ہمیشہ کے لیے ایک تو دست نگر بنادیا جائے اور دوسرا اس کی بیخ کنی کر کے اسے ہمیشہ کے لیے نیست ونابود کیا جائے۔ چنانچہ یہ طریقہ کلیم اللہ علیہ السلام کے دور میں فرعون کا تھا اور اسی طریقہ کی اقتدا آج کے فرعون کیاکرتے ہیں۔ فرعون بھی بنی اسرائیل جن کے موجود رہنے سے ان کی بادشاہی و حکمرانی کو خطرہ لاحق تھا کو اپنے لئے خطرہ محسوس کر کے ان کی بیخ کنی کرنے پر آیا اور آج کے فرعون بھی اس فرعونی خصلت کو برقرار رکھتے ہوئے کلیم الہٰی صفات ومقاصد کے حامل انسانوں کا صفایا کر رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماضی میں بیٹوں کی نسل کشی کا طریقہ اختیارکئے ہوئے تھے اور آج نئی نسل کے ساتھ ساتھ بزرگوں، بچوں اور صنف نازک کو بھی نشانہ بناکے اپنے دل کی بڑھاس نکال ر ہے ہیں لیکن تاریخ کے اوراق جہاں ظالمانہ فرعونی کردار سے بھرے پڑے ہیں ،وہیں دوسری جانب تاریخ کے ان تاریک ترین اوراق کے بیچ کلیمانہ کردار بھی جھلک رہا ہے، جن میں موسوی ؑ کردار کا وہ باب کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جب انہوں نے خدا کے باغی وسرکش بندے فرعون کو للکارا اور دوسری جانب اپنی بنی اسرائیل کو خبردار کیاکہ فرعون ظلم کی انتہا پر کیونکر پہنچا اور وہ اب کیا کچھ کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے ہمیں کیا کچھ تیاری کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلیم اللہ ؑ جہاں داخلی طور اپنی مست وغافل قوم تک دعوت بیداری پہنچا رہے تھے وہیں خارجی سطح پر ان کی ایک مزاحمتی سوچ اور اپروچ تھی۔ ان کی نگاہِ بصیرت خدا ئے یکتا نے بنائی تھی کہ وہ دور اندیشی کا سہارا لے کرفرعون سے نجات کی فکر کے ساتھ ساتھ اپنی اُمت کو ان بنی اسرائیلیوں کے شر سے بھی محفوظ رکھنا چاہتی تھی جو کبھی ان پر ایمان لاتی تو کبھی ان کی نافرمانی کر کے ان کے پیچھے غیر اللہ کے جال میں پھسل جاتی تھی۔ غرض کلیمانہ کردار ہمیشہ اپنے اندرونی محاذ کے ساتھ خارجی محاذ کی جانب بھی توجہ کرتا ہے، کیوں نہ کریں۔۔۔ جو انسان اس بات سے باخبر ہو کہ انسان پر شیطان کی گرفت بھی کبھی کبھار اس قدر غلبہ پالیتی ہے کہ اسے اپنا ہی بنا دیتی ہے وہ انسان اپنے ارد گرد کے ماحول سے باخبر ہونا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا لم یزل نے موسیٰ کلیم اللہؑ کی وقت وقت پر رہنمائی کی کہ وہ نہ کبھی فرعون سے ڈرے، نہ کبھی ان کے جبر وقہر سے خوف کھا ئے، نہ ہی ان کے جور وظلم، طاقت و زور سے خائف ہو کر پیچھے ہٹے ،بلکہ کلیم اللہ ؑ نے بنی اسرائیل قوم کے ساتھ رہ کر، ان کی رہنمائی کرتے کرتے اذیتیں سہیں ، خود بنی اسرائیل قوم نے انہیں تکلیفیں پہنچائیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے داخلی اور خارجی طور دونوں محاذوں میں اس قدر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا کہ بنی اسرائیل کو فرعونیت سے آزادی نصیب ہو گئی۔ یہ کردار ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور آج بھی یہ کردارِ کلیم الٰہی اور بدباطنئ فرعون نے اپنا سرپھر اُٹھایا ہے۔داخلی سطح پر بھی اور خارجی سطح پر بھی۔ مصر کے غاصب ڈکٹیٹر فوجی جنرل السیسی کی شکل میں فرعونی کردار ایک طرف سامنے آیا اور دوسری جانب مسلمانوں کی شکل میں اپنے ہی بے شمار بھائیوں نے اس قدر اپنا مزاحمتی کردار دکھایا کہ پھر وہی تاریخ کے اسباق یاد آرہے ہیں جن میں ایک طرف کلیم اللہؑ ، دوسری طرف فرعون اور تیسری طرف اپنے ہی چند ایسے بنی اسرائیلی ہیں جو کبھی اُدھر تو کبھی اِدھر ہوتے تھے۔ جن کی وجہ سے موسیٰ کلیم اللہ ؑ کے ساتھ ساتھ با ایمان بنی اسرائیل کو بے شمار تکلیفیں اٹھانی پڑیں ،لیکن اس سب کے باوجود خود اس بندۂ خدا کلیم اللہ ؑ نے اپنا مشن نہ تو چھوڑا اور نہ ہی اپنے دشمن فرعون کے لیے کسی بھی قیمت پراپنی مبنی بر حق و انصاف پالیسی تبدیل کی، نہ فرعونی نظام کے آگے سپر ڈالے اور نہ ہی یہ کہہ دیا کہ ہم نہ تھے، نہ ہیں، نہ ہوں گے، بلکہ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیر ے میں بھی اللہ پر توکل کے سہارے آگے ہی بڑھتے رہے اور اور آخر کار فرعون کی جھوٹی خدائی ، فرعونیت کے نظام اور سامری کی ساحری سے مکمل نجات پا لی۔ آج مصر میں اس قدر قتل وخون ریزی کا بازار گرم دیکھ کر ہر انصاف پسند انسان لرز اٹھتا ہے ۔۔۔ مصری میں اخوان المسلمون کی قیادت جن میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شامل ہیں کو عمر قید اور سزائے موت سنا کر تاریخ کے اوراق کی پھر ورق گردانی ہو رہی ہے۔ پھر وہی سبق۔۔۔پھروہی تاریخ۔۔۔پھروہی کردار ۔۔۔یک بہ یک سامنے آر ہے ہیں۔۔۔ ان گھمبیر حالات میں گھرے لوگوں کو دیکھنا ہے کہ کس طرح فرعون کے مقابلے میں کلیم اللہؑ نے خدا کے واحد سہارے پرکام کیا اور ۔۔۔کس طرح اس بلائے ناگہانی سے نجات پائی۔
اگر دیکھا جائے تو ایک حیثیت سے یہ عالمی تحریکات اسلامی کی علمبردار تنظیموں کے لیے ایک سبق آموذ درس سامنے پھر نئی شکل میں آگیا، کہ کون کس قدر پانی میں ہے۔۔۔کون فرعونی صفات سے مزین ہے ، کون آزمائش کے پُل صراط پر آپ کے شانہ بشانہ ہے اور کون اپنا ہو کر غیر ہے۔ اس سچائی اور حقیقت سے منہ کبھی نہیں پھیرنا چاہیے کہ جس تحریک کا نظریہ ہے کہ یہ سرزمین اللہ کی ہے اور اس پر فرمانروائی کا حق اسے ہی پہنچتا ہے۔ جب تک اس زمین پر اللہ ہی کی حاکمیت قائم نہ ہو جائے تب تک نہ تو انسان محفوظ ہے اور نہ ہی یہ زمین امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ اللہ سے لو لگا نے کی تحریک جہاں کہیں جس نام سے بھی ہو بہرحال حق وانصاف کا غلبہ چاہتی ہے اور اس غلبۂ حق کی اونچی منزل پانے کی راہ میں بہت ساری رکاوٹیں درپیش آتی ہیں۔ اس لحاظ سے مصر کے موجودہ حالات دیکھ کر عالمی تحریکوں کو یہ سبق پھردیکھنے کو ملا کہ کہاں کہاں اصلاحی اور جراحی کام کی ضرورت ہے اور کہاں پر اولیت اور کہاں ثانویت اختیار کرنی چاہیے۔ دشمن کی ہر چال اور ہر ترکیب سے باخبر ہونا ضروری ہے، چونکہ یہ گراؤنڈ ورک نہیں ہو اتھا ،اس لئے شاید یہی وجہ ہے کہ مصر میں اس قدر ظلم وتشدد کا بازار گرم ہوا۔ ایک چیز جس کا پیغام عالمی سطح پر مسلمانوں کو غالباً مل چکا ہے کہ لا دین جمہوریت کے سائے تلے جمہوری طور کوئی ایسا انقلاب نہیں آسکتا جس کے لیے زمین ہموار نہ ہو۔ عالمی طاقتوں جن میں بدقسمتی سے کئی مسلم ممالک بھی شامل ہیں، نہیں چاہتے کہ اسلام اصل صورت میں خدا کی زمین پر نافذ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی آج اسلامی نظام کے پھلنے پھولنے کی خوشبوئیں محسوس کی جاتی ہیں یکایک مغربی ومشرقی استعمارا ور ان کے چیلے چانٹے میدان میں کود کر سازشیں اور منصوبے بنا تے ہیں کیوں کہ انہیں اسلام کی انسان دوست تعلیمات کی عطر بیزیاں برداشت نہیں ہوتیں۔ اس کے توڑکے لیے وہ مکر پہ مکر کئے جاتے ہیں ،مگر یہ اللہ ذوالجلال کی سنت ہے کہ دشمن کتنا بھی مکر کرے اللہ ’’خیر الماکرین‘‘ ہے۔ اس کے آگے کسی کی چال کامیاب نہیں ہو سکتی۔ وہ جسے دے اسے کوئی چھین نہیں سکتا، جس سے لے اسے کوئی دے نہیں سکتا ۔ اس کے ہاتھ میں عزت بھی ہے اور ذلت بھی ، اب جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت کا شکار کر دے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مصر کی موجودہ صورت حال کا مشاہدہ کر کے حق وانصاف کے بول بالا کر نے کے لئے وقف عالمی تحریکات اس سے کیا سبق حاصل کرتی ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔