مصیبت میں راحت کے بجائے سیاست 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

بادل روٹھنے کی شکایت ہے تو کہیں آسمان سے قہر برسنے کی۔ ملک کے کئی حصہ پانی سے بے حال ہیں۔ کیرالہ اس صدی کی سب سے بھیانک باڑھ کا سامنا کر رہا ہے۔ یہاں کا سیلاب 1924 کے تاریخی سیلاب سے بھی زیادہ خطرناک بتایا جا رہا ہے۔ اس میں 350 لوگوں کے مرنے اور لاکھوں کے بے گھر ہو نے کی خبر ہے۔ قریب دس ہزار کلومیٹر کی سڑکیں متاثر ہوئی ہیں اور 20 سے 50 ہزار گھر ڈیمیج۔ ڈیڑھ ہزار ہیکٹیر سے زیادہ زمین پر لگی فصل برباد ہو گئی ہے۔ چائے، کافی، الائچی، اور ربر کی صنعتوں کو بھی بھاری اقتصادی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ کیرالہ کے علاوہ اتر پردیش، اتراکھنڈ اور کئی ریاستوں میں بارش کی وجہ سے زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ سیکڑوں لوگ ان آفات میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ شمالی ریاست آسام میں بھی گیارہ لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں اور ساڑھے ستائیس ہزار ہیکٹیر زمین کو نقصان پہنچا ہے۔ کیرالہ، اتراکھنڈ میں چٹانیں درکنے اور بھاری بارش کی وجہ سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔

سینٹرل واٹر کمیشن کے مطابق 1953 سے 2017 تک یعنی 64 سال میں بارش اور سیلاب سے ملک میں 107،487 موتیں ہوئیں۔ فصل، مکان اور عوامی خدمات کو 3لاکھ 65 ہزار 860 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا۔ ورلڈ بینک نے بھارت سرکار کے اعداد پر منحصر اپنے مطالعہ میں اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ 2040 تک ملک کے ڈھائی کروڑ لوگ انتہائی خطرناک سیلاب کی چپیٹ میں ہونگے۔ باڑھ سے متاثرہ آبادی میں یہ چھ گنا اچھال ہوگا۔ اس مطالعہ کو صحیح مانیں تو سرکار کو اس طرف خاص توجہ دینی ہوگی۔

ایسا نہیں ہے کہ سیلاب اور بادل پھٹنے کے واقعات ملک میں پہلی مرتبہ سامنے آ رہے ہیں۔ ہر سال بارش کہیں تباہی کی کہانی لکھتی ہے تو کہیں کے لوگ منھ اٹھائے آسمان کو تکتے رہ جاتے ہیں۔ گجرات، چنئی، اتراکھنڈ، ممبئی، کشمیر، بہار، اتر پردیش، آسام اور مدھیہ پردیش میں سیلاب کے ذریعہ ہوئی تباہی کو کون بھلا سکتا ہے۔ ہمیشہ سوکھے کا سامنا کرنے والے راجستھان میں بھی باڑھ اپنا قہر برپا چکی ہے۔ سیلاب جہاں بھی تباہی مچاتا ہے اس میں قدرتی آفت کےعلاوہ ندیوں کی تہہ میں گاد کا جمع ہونا، ڈرینج سسٹم اور ڈجاسٹر مینیجمنٹ کی ناکامی کا بھی دخل ہوتا ہے۔ کیرالہ میں جو کچھ ہوا اس میں یہ ناکامی صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

کیرل ملک کی مغربی ریاست ہے۔ یہاں 44 ندیاں بہتی ہیں،  ان کا جنم ریاست میں ہی ہوتا ہے اور آخر اسی صوبہ کے ساحل سمندر میں۔ چونکہ وہاں ڈھلان کافی زیادہ ہے، اس لئے پانی کا بہاؤ فطری طور پر تیز رہتا ہے۔ بارش ہونے پر پانی زیادہ تیزی سے سمندر میں سمانے کے لئے بھاگتا ہے۔ اس رفتار کو تھامنے کے لئے جگہ جگہ باندھ بنائے گئے ہیں۔ ضروری تھا کہ آنے والے خطرے کو دیکھتے ہوئے پانی کو تھوڑا تھوڑا کرکے چھوڑا جاتا اور باندھ در باندھ ربط بنا کر پانی کی رفتار کنٹرول کی جاتی۔ مگر ایسا نہیں ہو سکا سینٹرل واٹر کمیشن کے کئی اکیوپمینٹ کام نہیں کر رہے تھے۔ بھاری بارش کے چلتے 22 ڈیم کے دروازے کھول دیئے گئے۔ اس میں اڈوککی کا ڈیم بھی شامل ہے۔ جس میں پانی جمع کرنے کی صلاحیت 2403 فٹ کی ہے۔ پہلی بارش میں ہی اس کے دروازے کھولنے سے ڈیم آدھا کھالی ہو گیا تھا۔ اصولاً باندھ سے اتنا ہی پانی چھوڑا جاتا ہے کہ اور فلو کی صورت پیدا نہ ہو۔ ملک میں 226 سیلاب نگرانی مراکز ہیں جنہیں 2020 تک 325 کئے جانے کا منصوبہ ہے۔ آفات سے نبٹنے کے لئے ملک میں نیشنل ڈجاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی موجود ہے۔ جو وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے۔ اس کا صدر وزیر ہوتا ہے اور نائب صدر ڈجاسٹر مینیجمنٹ کے کسی ماہر کو بنایا جاتا ہے۔ اس وقت این ڈی ایم اے میں کوئی نائب صدر نہیں ہے۔ جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کیرالہ میں سیلاب سے نبٹنے کے لئے ان محکموں کی کوئی تیاری تھی ورنہ حالات اتنے خراب نہیں ہوتے۔ 2013 میں اسی این ڈی ایم اے نے اڑیسہ میں آئے فیلن طوفان کا مقابلہ اپنی پہلے سے کی گئی تیاری کی بنا پر کامیابی سے کیا تھا۔

سیلاب سے بچاؤ کے لئے کام کرنے والے سرکاری محکموں کے باوجود کیرالہ کو بھیانک باڑھ سے جوجھنا پڑا۔ 15 فیصد زیادہ بارش سے کیرالہ میں جو حالات پیدا ہوئے وہ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ کیرل کے حالات کو پٹری پر لانے کے لئے 28 ہزار کروڑ روپے کی درکار ہوگی۔ اس وقت کیرل کا ہی نہیں پورے ملک کا امتحان ہے۔ حالات کو معمول پر لانے کے لئے کمر کس کر آگے آنے کے بجائے فضول کی بحثیں اور اوچھی سیاست کی جا رہی ہے، جو بے حد شرمناک ہے۔ پہلے تو اس تباہی کو بھگوان کے غصہ سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ سوشل میڈیا پر اس طرح کے پیغامات نشر ہوئے کہ سبری مالا میں عورتوں کے داخلہ سے بھگوان ناراض ہے۔ پھر ہندتو وادی نظریات سے جڑے کئی نامی لوگوں، جن میں ایک منتخب عوامی نمائندے بھی شامل ہیں نے اس تباہی کو وہاں بیف کھانے کا نتیجہ بتا یا۔ نفرت آمیز باتوں کے ساتھ سیلاب زدگان تک مدد نہ پہنچے اس کے لئے گھٹیا ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں۔ کبھی کہا جا رہا ہے کہ وہاں کے لوگ بہت امیر ہیں انہیں مدد کی ضرورت نہیں، یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ وہاں کے لوگ بے کار ہیں مرتے ہیں تو مرنے دو۔ بہت سے لوگ یہ بتانے میں لگے ہیں کہ وہاں مدد کرنے میں سنگھ سب سے آگے ہے۔ وہاں جس طرح ہندو، مسلم، عیسائی کا فرق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے ملک کی سب کی بھلائی والی تہذیب کا دامن چھوڑ چکے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ہندتو وادی خاص مقصد کے تحت کیرالہ میں اپنی مہم چلا رہے ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق کیرالہ میں 54.73 فیصد ہندو آبادی ہے، 26.56 فیصد مسلم، 18.38 فیصد عیسائی اور 0.33 فیصد ایسے لوگ ہیں جو کسی دوسرے مذہب کو مانتے یا پھر کسی کو نہیں مانتے ہیں۔ پچاس فیصد سے زیادہ ہندو آبادی کے باوجود بھاجپا یہاں اپنی پیٹھ نہیں بنا پائی ہے۔ کیرالہ میں کانگریس اور لیفٹ ادل بدل کر سرکار بناتے رہے ہیں۔ مودی اور شاہ لگا تار کوشش کر رہے ہیں کہ یہاں بھاجپا کا اثر بڑھے لیکن انہیں اس میں کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ باڑھ میں مذہب کا کھیل اسی سیاست کا حصہ نظر آتا ہے۔ کیرالہ میں سو فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں شائد اسی لئے وہاں نفرت کے بیج نہیں اگ پا رہے ہیں۔ وہاں مذہب جو بھی ہو لیکن سب کی زبان، کھان پان، پہناوا، رہن سہن میں یکسانیت ہے۔ اور عوام کے آپسی رشتہ اتنے کمزور نہیں ہیں کہ کوئی بھی جا کر ان میں درار پیدا کر سکے۔

یہ سیاسی کھیل ہی سیلاب زدگان تک راحت پہنچنے سے روک رہا ہے۔ مرکزی حکومت نے کیرالہ کو راحت کے طور پر صرف پانچ سو کروڑ روپے ہی دئے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک سعودی عرب، امارات، مالدیپ، تھائی لینڈ، قطر نے کیرالہ کے لئے مالی امداد کی پیشکش کی۔ یو اے ای نے تو مرکزی حکومت سے بھی زیادہ سات سو کروڑ کی مدد کا اعلان کیا۔ لیکن مرکزی حکومت نے غیر ملکی مدد کو قبول نہیں کیا جبکہ کیرالہ کے وزیر اعلیٰ چاہتے ہیں کہ یو اے ای کی مدد کیرالہ واسیوں تک پہنچے، انہوں نے اس بارے میں نیشنل ڈجاسٹر مینیجمنٹ یوجنا کے چیپٹر 9 کو بھی یاد دلایا۔ یو اے ای اور کیرالہ کا رشتہ کافی گہرا ہے، وہاں 30 لاکھ ہندوستانیوں میں 80 فیصد کیرالہ کے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے مرکز سے جو مدد مانگی وہ بھی مرکز دینے کو تیار نہیں ہے اور باہر کی مدد سے بھی مرکز کو پرہیز ہے۔ جبکہ 2005 میں کٹرینا چکروات کے بعد امریکہ جیسے ملک نے 36 ممالک کی مدد قبول کی تھی۔ خود بھارت بھج کے زلزلے اور جنوبی ہند میں آئی سونامی کے وقت اس کا تجربہ کر چکا ہے۔ کیرالہ کو تو ابھی سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی بیماریوں کا بھی مقابلہ کرنا ہے، اس لئے اسے مدد کی اشہد ضرورت ہے۔ عوام اس نیتا کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں جو مشکل پلوں میں نفع نقصان اور آہنکار سے اوپر اٹھ کر اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ اس مشکل گھڑی سے آج نہیں تو کل کیرالہ باہر نکل ہی جائے گا لیکن اگر یہ ذہنیت یوں ہی جاری رہی تو ملک کو ڈوبنے سے کیسے بچایا جائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔