تعلیم اور تعلیم و تربیت کا فرق 

 مسعود جاوید

اس میں دو رائے نہیں ہے کہ موجودہ دور میں تعلیم کے تئیں کافی بیداری آئی ہے اور تعلیم یافتہ افراد کا تناسب پہلے کی بہ نسبت بڑها ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں شہر شہر گاؤں گاؤں لوگ صاحب ثروت ہوں، متوسط طبقہ کے ہوں یا خط افلاس سے کچھ اونچے، خواندہ ہوں یا ناخواندہ ہر شخص اس تگ و دو میں ہے کہ اپنی اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرے۔ بچے بچیوں کی عمر ساڑھے تین سال کی ابھی ہوئی نہیں اور والدین ان کو اچھے انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ دلانے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ تذکرہ بے جا نہیں ہوگا کہ تعلیم میں لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے اور لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیوں کا ڈراپ آؤٹ ریٹ کم ہے۔

اقوام متحدہ کا تعلیمی ثقافتی ادارہ یونیسکو کے 2015 کے اعداد و شمار کے مطابق ایشیا کے مندرجہ ذیل ممالک میں شرح خواندگی حسب ذیل ہے :

ملک کانام                   شرح خواندگی بالغان

1- چین                        % 96۔4

2- سری لنکا                % 92۔6

3- میانمار                    % 93۔1

4- بھارت                     % 72۔1

5- نیپال                       % 64۔7

6- بنگلہ دیش                % 61۔5

7- پاکستان                   % 58۔5

اور پوری دنیا میں تعلیم کا متوسط شرح % 86۔3 ہے۔ یہ بات بلا شبہ قابل اطمینان ہے اس لئے کہ یہ تناسب ہر ملک میں مائل بہ ترقی ہے اور امید کی جاتی ہے 2020 کا اعداد و شمار بہر کیف بہتر ہوگا۔

تعلیم یافتہ کے زمرہ میں کون لوگ آتے ہیں ؟ یونیسکو نے تعلیم یافتہ کی تعریف اس طرح کی ہے : "جس شخص کے اندر پہچاننے سمجهنے تشریح کرنے تخلیق کرنے ترسیل کرنے حساب کرنے مطبوعہ اور دستی تحریروں کو پڑھنے کی لیاقت ہو "

اس تعریف کو پڑھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس عمل کو تعلیم کہا جارہا ہے اس پر پوری دنیا  کے اسکول کالج اور یونیورسٹی کاربند ہیں اور طلباء کو تعلیم یافتہ بنانے کے مشن کو پورا کر رہے ہیں۔ لیکن ہماری سوچ کے مطابق ایک اہم عنصر اس تعریف میں شامل ہونے سے رہ گیا ہے اور وہ ہے تربیت۔ آج اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی طلباء ادنی درجے کی اخلاقیات سے عاری ہیں۔ اس لئے کہ ہماری داشگاہیں اور تعلیمی ادارے تعلیم دے رہے ہیں literate بنا رہے ہیں لکھنا پڑھنا،  روزگار اور  ملازمت کے اہل بنارہے ہیں مگر طلباء کی تعلیم و تربیت educate نہیں کر رہے ہیں جس کی وجہ کر ان کا مطمح نظر جائز و ناجائز طریقے سے صرف اور صرف مال و دولت کا حصول ہے۔

یہ تو عصری تعلیم کے اداروں کا حال ہے مگر ان دنوں دینی مدارس سے بھی تربیت کا عنصر تیزی سے غائب ہو رہا ہے۔ ماضی میں تعلیم اور صحت دو ایسے شعبے تھے جن کو دنیا کے تمام ہیشوں سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ہندو نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو معلم اور طبیب بھگوان سوروپ یعنی خدا کی طرح ہوتے ہیں بے لوث کسی کو تعلیم و تربیت  کی روشنی سے منور کرنا یا کسی کی جان بچانا مریض کے دکھ اور درد کا مداوا کرنا۔ مگر اب یہ دونوں شعبے بھی تجارتی نہج کے ہو گئے ہیں۔

دینی مدارس میں بھی اب تربیت نہیں ہوتی اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بعض مدارس تجارتی نہج کو اپنا رہے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کلاس روم درسگایوں میں اس قدر ازدحام ہے کہ اساتذہ کو طلباء کے نام اور چہرے  بھی یاد نہیں رہتے۔ پہلے تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار طلباء کے اندر پیوست کی جاتی تھیں۔  ہر طالب علم تفسير حدیث فقہ نحو صرف اور زبان و ادب کا ماہر ہو کر نہیں نکلتا تھا اس لئے کہ ذہنی صلاحیت ہر انسان کی مختلف ہوتی ہیں مگر ہر طالب علم دین و اخلاق کا نمونہ ضرور ہوتا تھا اور اللہ نے جیسا کہ فرمایا کہ علماء اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں اس کے مصداق ہوتے تھے۔ پہلے مدرسہ تعلیم کے لیے اور خانقاہ ذاتی اصلاح اور تربیت کے لیے جانے جاتے تھے۔  بعد میں مدارس میں ہی اس کا امتزاج حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ دارالعلوم دیوبند کی تاریخ تاسیس ” در مدرسہ خانقاہ دیدیم ” اس کا گواہ ہے۔

اس زمانہ میں اخلاقی انحطاط خاص طور پر مسلمانوں میں اور ان میں بھی خاص طور پر مدارس دینیہ کے فارغین میں اس وجہ سے ہے کہ پہلے مدرسوں سے فراغت کے بعد طلباء کی بڑی تعداد خانقاہوں کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور ان کا مقصد اپنی ذات کی اصلاح ہوتا تھا۔ اب  خانقاہیں ہیں اور نہ ہیری مریدی اور نہ لوگوں کے اندر شیخ طریقت ڈھونڈنے کی خواہش۔

تبصرے بند ہیں۔