مضامین ڈاٹ کام کے ایڈیٹر شاہد جمال فلاحی کی رویش کمار کے ساتھ خصوصی بات چیت

اردو صحافت کو اپنا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے

ملکی سطح پر ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے- برسوں سے 70-60 کی دہائی کے نیتا چھائے ہوئے ہیں

شاہد جمال فلاحی: سب سے پہلا سوال تو یہ کہ آپ نے صحافت کو اپنا کریئر کیوں چنا؟ کیا آپ شروع سے ہی صحافی بننا چاہتے تھے یا  تعلیم کی فراغت کے بعد آپ نے یہ فیصلہ کیا؟

رویش کمار:  بات دراصل یہ ہے کہ جس عمر میں ہم لوگ اپنا کریئر چنتے ہیں اس وقت تو ٹھیک ٹھیک پتہ نہیں ہوتا، ایسے کم ہی لوگ ہوتے ہیں  جن کو پتہ ہوتا ہے اوروہ اچھے لوگ ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جن کو پتہ نہیں ہوتا ہے وہ لوگ برے ہوتے ہیں۔  پڑھنے لکھنے میں بہت دیر سے دلچسپی پیدا ہوئی اور جب دلچسپی پیداہوئی تو پھر مزہ آنے لگا۔ تاریخ کا طالب علم تھا  اور ہندی میڈیم سے تھا۔ جیسا کہ تمام ہندی میڈیم کے طالب علم کے ساتھ ہوتا ہے کہ ان کے پاس پڑھنے کے لئے ہندی زبان میں بہت زیادہ مواد نہیں ہوتا تو جتنا وہ انگریزی میں  پڑھتے ہیں اسے  بار بارہندی میں لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں۔ میرے اساتذہ نے مجھ سے کہا کہ تمہیں صحافت میں جانا چاہیئے۔اخبار تو پڑھتا ہی تھا، ٹیلی ویژن تودیکھتا ہی تھا۔ اس طرح سے صحافت کے تئیں ایک رجحان پیدا ہوا۔ دھیرے دھیرے موقع ملا  یکایک تو کوئی اچھا موقع نہیں ملا لیکن بعد کے مرحلے میں لکھنے، بولنے اور رپورٹنگ کرنے کا موقع ملا۔

شاہد جمال فلاحی:  جب آپ نے صحافتی میدان میں قدم رکھا تھا تواس وقت کیا مشکلات تھیں؟ اس وقت صحافت کےسامنے جو مشکلات ہیں وہ پہلے سے زیادہ بڑی ہیں یا پہلے ہی جیسی ہیں؟

رویش کمار:  سب سے پہلی بات تو یہ کہ صحافت کا کبھی کوئی سنہرا دور نہیں رہا،  صحافت کے سامنے مشکلات پہلے بھی تھیں اور آج بھی ہیں۔ 15-16 سال پہلے ہی سے میڈیا میں گراوٹ آنے لگی تھی۔ اخباروں میں بالخصوص ہندی اخباروں کا جو فرقہ وارانہ رجحان تھا اور بابری مسجد کے گرائے جانے کے پہلے اور بعد کا ماحول بنانے میں جو میڈیا کا رول تھا، اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔  میڈیا میں جو چیزیں آج ہو رہی ہیں وہ پہلے بھی ہوتی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے  میڈیا پر تنقید کرنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی، آج  ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ میڈیا میں کام کرنے والے بھی اب میڈیا پر تنقید کرنے سے گریز نہیں کرتے۔  پہلے بھی اخباروں کے ذریعہ میڈیا پروپیگینڈہ کرتا رہا ہے، آج  اور بھی زیادہ کر رہا ہے تو  پہلے بھی مشکلات زیادہ تھیں آج بھی ہیں، جیسا کہ میں نے کہا کہ میڈیا کا کوئی سنہرا دور کبھی نہیں رہا ہے۔ میں یہاں عام میڈیا کی بات کر رہا ہوں، میں نے بھی پہلے  ایک اخبار کمپنی میں کام کیا ہے لیکن میں نے کبھی بھی اخباری مواد کے معیار کو گرنے نہیں دیا۔ بہت سی جگہوں پر تو یہ گراوٹ شروع سے ہی نظر آنے لگتی ہے۔ میڈیا میں گراوٹ آئی ہے اور اسے آپ لوگ ماننے سے انکار کر رہے ہیں، یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کسی چیز میں گراوٹ آتی ہے تو ہر کوئی اس کا استعمال کرتا ہے، چاہے وہ سرکار ہو یا کوئی سیاسی پارٹی۔ پہلے کی صحافت میں اور آج کی صحافت میں کوئی خاص فرق دیکھنے کو نہیں ملا، ہر صحافی کبھی نہ کبھی اچھا کام کرتا ہے، مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کو کسی ایک صحافی سے امیدیں نہیں باندھ لینی چاہئیں، یہ ضروری ہے کہ اچھے کام کی ستائش ہو لیکن کسی ایک صحافی سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہیں رکھنی چاہئیں۔  اس سے ہوتا یہ ہے کہ اس کی باقی خامیاں چھپ جاتی ہیں۔

شاہد جمال فلاحی:  میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کی بقا اور تحفظ کے لئے موجودہ میڈیا کیا رول ادا کر رہاہے؟

رویش کمار:  یہ میں نے بھی سنا تھا کہ میڈیا کو جمہوریت کاچوتھا ستون کہا جاتا ہے لیکن  کس نے کہا ہے کہ یہ چوتھا ستون ہے مجھے تو نہیں معلوم ہے،  مجھے تو یہ کبھی کسی کارپوریٹ کا دوسرا ستون نظر آتا ہے یا کبھی کسی  سیاسی پارٹی کا تیسرا ستون نظر آتا ہے۔ یہ کوئی ستون نہیں ہے بلکہ یہ ایک آلہ ہے جس کے ذریعہ لوگوں کا  استحصال کیا جاتا ہے۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ آپ پوری دنیا کے میڈیا کو دیکھ لیجئے، ابھی برطانیہ میں ایک رپورٹ آئی ہے جس کے مطابق عراق جنگ میں برطانیہ کے شامل ہونے کے فیصلے کی جانچ کرنے والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں  کہا کہ کس طرح میڈیا نے  جنگ کا ماحول  بنایا،  پہلے صفحے پر جھوٹی خبریں شائع کی گئیں، اس جنگ میں برطانیہ کی فوج شامل ہوئی، برطانیہ کی فوج کےتو بہت کم سپاہی مارے گئے، ان کی تعداد تو سیکڑوں میں بھی نہیں ہے لیکن جو رپورٹ  پیش کی گئی وہ سرکاری رپورٹ تھی اور مہلوکین  فوجیوں کے اہل خانہ  نے اجتماعی طور پر اس جنگ  کے لئے ٹونی بلیئر کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اسے  دہشت گرد قرار دیا، اہل خانہ کا کہنا تھا کی ٹونی بلیئر نے جھوٹ بول کر ہمارے فوجیوں کو جنگ میں شریک کیا۔ آج بھی آپ دیکھ لیجئے امریکہ میں لگاتار تنقید جاری ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے پوپ نے کہا ہے کہ اٹلی کے اخباروں کی حالت بہت بری ہے، اس لئے اب ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ میڈیا پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، اگر لوگ پڑھنا چھوڑ دیں تو شاید یہ ایسا کام کبھی نہ کریں، اگرکسی کو لگتا ہے کہ وہ اخبار میں اپنے پیسے ضائع کر رہا تو وہ اخبار پڑھنا چھوڑ سکتا ہے۔ اسی پیسے سے وہ کسی کی مدد کر سکتا ہے۔

شاہد جمال فلاحی:   ایسے وقت میں جب کہ میڈیا حکومت کی زبان بول رہا ہے، غیر جانبدارانہ صحافت کا وجود مٹتا جا رہا ہے، ٹیلی ویژن پر چیخ چیخ کر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان تمام غیر اخلاقی اثرات سے آپ خود کو بچائے رکھنے میں کس طرح کامیاب ہیں؟

رویش کمار:    ہمیں پہلے یہ مان لینا چاہیئے کہ غیر جانبدارانہ صحافت کا کوئی وجود نہیں ہے،  یہ بہت حد تک حالات پر منحصر ہے،  سال کے بارہ مہینے  ہوتے ہیں۔ ہر میڈیا ہاؤس بارہ مہینے میں ایک مہینہ اچھا کام کرتا ہے، اس کی بنیاد پر جو اعتماد بنتا ہے اس کے ذریعہ اسے اربوں روپے کے اشتہارات  ملتے ہیں اور وہ سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی بیان کرتا رہتا ہے۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ سوال کرنا بند ہوگیا، اعلانیہ تو وہی بول رہے ہیں جوحکومت کا پروپیگنڈہ کر رہےہیں، مخالفت کرنے والے تو بہت کم رہ گئے ہیں۔ ہر جگہ میڈیا پر انہیں سیاسی پارٹیوں کا کنٹرول ہے۔  آپ جب مرکز سے لے کر ریاست تک کے حالات کا مشاہد ہ کریں گے تو صحیح تصویر آپ کے سامنے آئے گی۔ ریاستوں میں بھی وہی حالات ہیں جو مرکز میں ہیں۔ اس لئے یہ سوال اب پوچھنا بند کر دینا چاہیئے کہ میڈیا جانبدار ہے، ہاں میڈیا جانبدار ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک آپ اس بات کو نہیں مان رہے ہیں۔  ایک صحافی جان جوکھم میں ڈال کر صحافت کرتا ہے لیکن وہ جس کے لئے ایسا کرتا ہے اس کا کردار بہت ہی عجیب ہے، اس کے کردار میں یہ شامل ہے کہ وہ سانٹھ گانٹھ کرنے کا عادی ہے۔  مطلب یہ کہ عوام صحافیوں کا ساتھ نہیں دیتی ہے۔ میڈیا کو لے کر جو سوالات ہیں یہ صحافیوں سے زیادہ میڈیا ہاؤس کے مالکان سے پوچھا جانا چاہیئے۔ آپ  نے مجھ  سےجو سوال کیا ہے کہ میں کس طرح ان غیر اخلاقی اثرات سے خود کو بچائے رکھنے میں کامیاب ہوں؟  اس کے جوا ب میں، میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر میں خود کو ان اثرات سے بچا بھی لوں تو جو حقائق ہیں کیا وہ بدل جائیں گے؟ کیا اس سے کچھ فرق پڑتا ہے؟ اور اگر خود کو بچاتے بچاتے  مجھے میڈیا سے باہر کر دیا جائے تو بھی میں کیا کر لوں گا؟  ہم جیسے صحافیوں کی نوکری کے جو امکانات ہوتے ہیں وہ تقریباً نہ کے برابر ہوتے ہیں۔ پھر بھی ہم اپنا کام کرتے ہیں، پتہ نہیں یہ میری بیوقوفی ہے یا سمجھداری ہے- مجھے لگتا ہے کہ جب سسٹم سے باہر کر دئیے جائیں گے- جو مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کر دئیے جائیں گے اور  بھت سے لوگ کئے بھی گئے ہیں- تو کہاں جگہ ہے؟ ہم جیسوں کے لئے ہر جگہ کیوں نہیں ہے؟ ہمارے لئے تو ہر جگہ ہونی چاہیئے، تو جب ہم جیسوں کے لئے ہر جگہ جگہ نہیں ہے تو مان لینا چاہئے کہ ہمارے لئے کوئی جگہ نہیں ہے!  میں میڈیا کو نہیں بدل سکتا، میں اپنے ناظرین و قارئین سے ہوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے بچانے کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ تو جب آپ مجھے بچانے کے لئے کچھ نہیں کر رہے ہیں تو کیا میں سمجھوتہ نہ کر لوں؟ آپ کو چھوڑ نہ دوں؟ میں سماج سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ میں کیوں آپ کے لئے جان جوکھم میں ڈالوں؟ میں کیوں نہ اسی آدمی سے سانٹھ گانٹھ کر کے اپنا گھر بھر لوں  جس کے پروپیگنڈہ کے بہکاوے میں آکر آپ دو چار لوگوں کو کچل کر، ان کی جان لے کر ووٹ دینے جاتے ہیں؟  مجھے تو کوئی بھروسہ نہیں کہ آپ کب کس کا جھنڈا اٹھا لیں۔ لیکن جب اس میدان میں آئے ہیں تو سوچتے ہیں کہ بات کرنی چاہئے، اس لئے جتنا موقع ملتا ہے کہہ دیتے ہیں، لکھ دیتے ہیں اورشکرگزارہیں کہ ایک اچھی جگہ کام کرتے ہیں- مجھے معلوم نہیں کہ باقی دوسری جگہوں پرمجھے کیا سمجھا جاتا ہے؟ شاید کچھ بھی نہیں! دنیا اور سوسائٹی ہم جیسے لوگوں کا تماشہ دیکھنے کا انتظاربھی کرتی ہے کہ بہت ہیرو بنتے تھے ذرا دیکھیں اب ان کی حالت کیا ہے؟ یہ مسلسل چلتا رہتا ہے – اس میں ہمارا بھی امتحان ہے کہ ہم کتنے دباؤ کوجھیل سکتے ہیں؟ کتنا جوکھم لے سکتے؟ وہ ہم لیتے رہیں گے- مجھے اس سلسلے میں کسی کی ہمدردی نہیں چاہئے، میں اکیلا رہتا ہوں ، اکیلے لڑنے میں مجھے اچھا لگتا ہے لیکن کئی بارسماج سے یہ پوچھنے کا من کرتا ہے کہ آپ کی کیا ذمہ داری ہے؟ آپ کیوں خراب اور بیکار خبروں کے لئے پیسے دے رہے ہیں؟ آپ کیوں جان بوجھ کر بھی ایسے پروگرام دیکھ رہےہیں؟ ایک بار دیکھ لیں زیادہ سے زیادہ دو بار دیکھ لیں لیکن مہینہ اور سالوں سے آپ انہیں ردی اخباروں کو دیکھ رہے ہیں جن میں آپ کے حق سے متعلق سوالات اس طرح نہیں پوچھے جاتے ہیں، جن میں غریبوں کے سوالات نہیں پوچھے جاتےہیں، کسانوں کے سوالات نہیں پوچھے جاتے ہیں!  میں ایسے لوگوں سے جاننا چاہتا ہوں کہ کیا وہ اخبار یا ٹیلی ویژن نشے میں خریدتے ہیں یا دیکھتے ہیں؟ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ میرے لئے کھڑے ہیں؟ نہیں آپ میرے لئے نہیں کھڑے ہیں، آپ بس اس تماشہ کا انتظار کر رہے ہیں جس کا  میں نے ابھی ذکر کیا ہے- میں کوئی بھی ایسا کام نہیں کر رہا ہوں جس کی الگ سے تعریف ہونی چاہیئے-

شاہد جمال فلاحی:   موجودہ  سیاست کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ کیا ان سیاسی حالات میں ملک کی ترقی ممکن ہے؟

رویش کمار:   دیکھئے اس میں ہم سب کی ذمہ داری ہے، جن قارئین اور ناظرین نے خراب اخبارات کو دیکھا یا خریدا یہ انہیں کا reflection  ہے کہ انہوں نے خراب سیاست بھی کی۔ سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اچھا کوئی نمائندہ نہیں ہے۔ انتخابات کافی مہنگے ہو گئے ہیں- ہم اورآپ چاہ کر بھی اچھا نمائندہ نہیں کھڑا کر سکتے، کروڑوں-اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں- عام آدمی اتنا سفید پیسہ کہاں سے لا ئے گا- مطلب یہ کہ ممکن ہی نہیں ہے، سیاست محض چند لوگوں کی ٹھیکیداری بن کر رہ گئی ہے اور آئندہ بھی رہے گی- موجودہ سیاست کا معاملہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ حکمراں پارٹی کے اندر ہو رہا ہے، حزب اختلاف سو رہا ہے، اسے کوئی فرق نہیں پڑرہا- اسے آواز اٹھانے یا بولنے کی ہمت نہیں ہے، سیاست کا معیار کافی گر چکا ہے-  ایسے وقت میں جب کہ کوئی اپوزیشن نہیں ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو اقتدار میں ہیں سب کچھ انہیں کے کنٹرول میں ہے- لیکن یہ سوچ کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہندوستان کی سیاست اپنا بہاؤ، اپنا رخ خود طے کرتی ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ یہ مخالف سمت میں جا رہی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ لیکن ہندوستانی سیاست میں بدلاؤ کی سخت ضرورت ہے، ملکی سطح پر ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے- برسوں سے 70-60 کی دہائی کے نیتا چھائے ہوئے ہیں، آپ ان سے کیا امید کر سکتے ہیں- اب ان کی وداعی کا وقت آ گیا ہے۔ اب جو لیڈر ہونا چاہیئے وہ21ویں صدی کا ہونا چاہیئے، 45-40 سال کا ہونا چاہئے یا کوئی نئی پارٹی ہونی چاہئے- آپ آندھرا پردیش، تمل ناڈو، اڑیسہ، بہاراور اترپردیش  دیکھ لیجئے کہیں بھی نیا پن  نہیں ہے- یہ جو ہندوستانی سیاست کی ابتر حالت ہے یہ تو ہم نے خود بنائی ہے-

                            جہاں تک ترقی کی بات ہے تو ترقی تو ہر دور میں ہوتی رہتی ہے- دیکھئے اتنا بڑا ملک ہے تو یہ مان کے نہیں چلنا چاہیئے کہ ترقی نہیں ہوئی ہے- ہم اس کا صحیح سے تجزیہ نہیں کرتے ہیں اور ہر چیز کے لئے میڈیا پر بھروسہ کرتے ہیں- جمہوریت میں ووٹ ڈالنے والے کی بھی کچھ ذمہ داری ہے ہمیں خود سے بھی چیزوں کو دیکھنا چاہیئے- نزدیک کے سرکاری اسکولوں میں، اسپتالوں میں جا کر خود سے جائزہ لینا چاہیئے، تبھی اصل تصویر ہمارے سامنے آئے گی-

شاہد جمال فلاحی:   موجودہ حکومت نے بہت ہی کم عرصے میں اتنی ساری فلاحی اسکیمیں لانچ کی ہیں جن کو شمار کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے، کیا ان اسکیموں کا زمینی سطح پر کوئی نفاذ ہے یا یہ محض اشتہارات ہیں؟

رویش کمار:    دیکھئے اگر آپ خیالی بنیاد پر اس کا جواب چاہیں گے تو کوئی کہہ دے گا کہ بالکل نہیں ہوا ہے، کوئی کہے گا کہ ہوا ہے- لیکن میں چاہتا ہوں کہ جانکاری کی بنیاد پر اس کا تجزیہ کیا جائے۔ کچھ منصوبوں کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ ہوا ہے یہ نہیں ہوا ہے،  میرے خیال سے کم  ہی منصوبوں کا تجزیہ ہوا ہے-  جیسے ہم پڑھتے ہیں کہ 15 کلو میٹر روزانہ سڑک بن رہی ہے، بہت اچھی بات ہے لیکن اس میں یہ نہیں پتہ چلتا کہ کہاں والی سڑک بن رہی ہے-  اسی طرح "سوچھ بھارت ابھیان” کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں- یہ اچھا ہے کہ گندگی کے بارے میں احساس دلایا جارہا ہے۔  ان منصوبوں میں بہت سی چیزیں اچھی بھی ہیں لیکن ان کا نفاذ ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا ہے اس کا علم مجھے نہیں ہے کیوں کہ میں نےابھی اس پر غور نہیں کیا ہے-  مطلب یہ کہ صرف میرے دیکھنے سے کیا ہوگا، اسے الگ الگ لوگ دیکھیں گے تبھی کوئی بات سامنے آئے گی-

شاہد جمال فلاحی:   گزشتہ مہینے اڑی میں  حملہ ہوا، جس کے جواب میں ہماری فوج نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے پاکستان کے اندر داخل ہو کر سرجیکل اسٹرائک کیا ہے- اس پورے معاملے کو جس طرح سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

رویش کمار:   سیاست تو نہیں ہونی چاہیئے لیکن سیاست شروع سے ہی ہوتی رہی ہے- حزب اختلاف نے بھی وزیر اعظم کا کم مذاق نہیں اڑایا، سوشل میڈیا پر بھی کم مذاق نہیں اڑایا گیا ہے- سارے لوگ وزیراعظم  سے جوابی ردعمل  کی مانگ کرنے لگے- کوئی انہیں شلوار سوٹ میں دکھانے لگا، تو کوئی چوڑی میں دکھانے لگا-  یہ صاف ہے کہ سیاست کے طرز پر ان کا مذاق تو بنایا گیا- اب جب کاروائی ہوئی اور اس سے متعلق اب لوگ سوال کھڑے کر رہے ہیں- اب سوال یہ ہے کہ اس سیاست کا جواب دینے کے لئے اپوزیشن میں کوئی قابلیت یا اہلیت ہے یا نہیں؟ اگروہ قابلیت نہیں ہے تو پھر آپ ہر بات کو سیاست سے کیوں جوڑ دیتے ہیں؟ اپوزیشن میں کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جو ٹھیک طرح سے بات کر سکے اور عوام کو بتا سکے کہ فوج نے جو کیا اس سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے، اس کی تائید ہم بھی کرتے ہیں، ان کی بہادری کی تعریف ہم بھی کرتے ہیں  اور اس بات پر سیاست نہیں ہونی چاہیئے-  اپوزیشن پارٹی میں کوئی قابلیت نہ ہونے کی وجہ سے آپ حکمراں پارٹی کو کلی مجرم نہیں ٹھہرا سکتے ہیں-

شاہد جمال فلاحی:   آپ مسلسل سیاسی اور سماجی مدعوں پر لکھتے رہتے ہیں، آپ کی تحریر میں ہمیشہ ہی ایک نیا پہلو دیکھنے کو ملتا ہے- اگر آپ سے پوچھا جائے کہ رویش کمار کے خوابوں کا ہندوستان کیا ہے تو آپ کیا جواب دیں گے؟

 رویش کمار:  دیکھئے میرا ہندوسان وہ ہے جہاں جب میں آپ کے گھر میں جاؤں تو آپ میرے بارے میں طرح طرح کی باتیں نہ سوچیں اور جب آپ ہمارے گھر میں آئیں تو میں آپ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں نہ سوچوں- جہاں کبھی کوئی کسی کا دل نہ دکھائے، تمام لوگوں میں دوستی ہو، آپسی بھائی چارہ ہو، جہاں کسی بھی شہر میں جاتے وقت کوئی کسی سے ڈرے نہیں، امن کا ماحول ہو، سماجی برابری اور اعتماد کا ماحول ہو، نفرت پھیلانے والے عناصر کا خاتمہ ہو۔ ملک میں خوشحالی ہو۔ جہاں  کسی مخصوص طبقے کو نشانہ نہ بنایا جائے-  جہاں سیاسی اختلافات کے باوجود آپسی تعلقات کمزور نہ پڑیں-

شاہد جمال فلاحی:  گاندھی جی نے کہا تھا کہ اگر آپ کو کسی ملک کی ترقی کا اندازہ لگانا ہے تو اس ملک کی اقلیت کو دیکھ لیجئے، آپ کواس ملک کی ترقی کا اندازہ ہو جائے گا۔ گاندھی جی کے اس تاریخی جملے کی روشنی میں آپ موجودہ حالات میں کیا کہنا چاہیں گے؟

رویش کمار:   اقلیتوں کے حالات میں کوئی بہت خاص تبدیلی تو نہیں آئی ہے لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اقلیتوں کے تئیں رجحان میں تبدیلی ضرور آئی ہے اور ویسے بھی سماجی بدلاؤ بہت جلدی نظر نہیں آتا- مثال کے طور پر آپ علی گڑھ کو لے لیجئے، آج وہاں طالبات الیکشن لڑ رہی ہیں، لیکن اس کی شروعات تو آج کل میں نہیں ہوئی ہے، پہلے بھی کتنی لڑکیوں کی خواہش رہی ہوگی کہ وہ یونین کا انتخاب لڑیں لیکن اب کہیں جا کر اس خواہش کی تکمیل ہوئی ہےٓ۔ اقلیتوں میں بھی کافی بدلاؤ آیا ہےٓ لیکن آج بھی مسلمانوں کو لے کر، مذہب اسلام کی غلط تصویر پیش کی جا رہی ہے، میڈیا مسلمانوں کو ویلن کے طور پر پوری دنیا  میں دکھانے کی کوشش کر رہا ہے-  مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان میں خاص طور سے مسلم سماج میں تبدیلی کی شروعات ہو چکی ہے- بھت سارے لوگ نئے نئے علاقوں میں جا رہے ہیں، نیا نیا بزنس کر رہے ہیں، نئی نئی  نوکریاں کر رہے ہیں- مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقلیتوں میں ایک مثبت بدلاؤ آیا ہے-

شاہد جمال فلاحی:  سچر کمیٹی کی رپورٹ کے اتنے سالوں بعد بھی آج تک اس کا نفاذ نہیں کیا جا سکا، مسلمانوں اور دلتوں کے حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں- ایسے وقت میں وہ اپنی امید کس سے باندھیں؟ کیونکہ تمام سیاسی پارٹیوں نے انہیں محض ووٹ بینک کے طور پر ہی استعمال کیا ہے-

رویش کمار:   ایسے وقت میں انہیں جدو جہد کرنی ہوگی، احتجاج کی لڑائی لڑنی ہوگی-  یہ سوال ایک بنیادی سوال ہے اور اس سوال کا جواب سیاسی میدان میں اتر کر ہی تلاش کرنا ہوگآ-  اس سوال کو مذہبی رنگ نہ دیں، اس سوال کو محض سیاسی بنیادوں پر ہی لڑیں، سڑکوں پر اتریں، آواز بلند کریں- جس طرح سے مراٹھا آندولن کو لے کر ابھی ہوا، لوگ سڑکوں پر آئے، حالانکہ میں ان کی مانگ سے متفق نہیں ہوں، لیکن اس آندولن کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں لگا کہ کو ئی لیڈر نہیں ہے بلکہ محض ایک سماج کی مانگ ہے، اس کے رد عمل میں اور بھی لوگ نکل کر آرہے ہیں، یا گجرات، اونا میں جو کچھ ہوا وہ ایک طریقہ ہو سکتا ہے-  جو مولانا حضرات ٹیلی ویژن مباحثوں پر مذہبی امور پر بحث کے لئے بلائے جاتے ہیں ان سے میں بڑے ادب سے پوچھتا ہوں کہ کیا مذہبی مدعوں کے علاوہ کبھی سچر کمیٹی کی رپورٹ پر بحث کرنے کے لئے بھی انہیں بلایا گیا ہے؟ اگر نہیں بلایا گیا ہے تو آپ کیوں جاتے ہیں وہاں پر؟ کیا کہنے کے لئے آپ وہاں جاتے ہیں؟ کیا ہندو مذہب یا اسلام مذہب کو لے کر میں تین منٹ میں اپنی بات رکھ سکتا ہوں؟  اتنے کم وقت میں کیا میں کچھ بھی واضح کرسکتا ہوں؟  آپ سو بار نیوز چینلوں پر گئے ہیں، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ آپ 50 مرتبہ مذہبی مدعوں پر بلائے گئے ہیں لیکن کیا باقی کے 50 مرتبہ آپ سچر کمیٹی، بے روزگاری، غربت جیسے مسائل پر بھی گفتگو کے لئے بلائے گئے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں بلائے گئے ہیں تو آپ مت جائیے-  موجودہ مسلم سماج میں ایک خاندانی لیڈرشپ کا طریقہ رائج ہے، جو خاص مسلم خاندان ہیں اسی میں سے صدر جمہوریہ بن رہے ہیں، نائب صدر جمہوریہ بن رہے ہیں اور یہ مسلسل جاری ہے- ایسے لوگ کانگریس میں بھی فٹ ہو جاتے ہیں اور بی جے پی میں بھی فٹ ہو جاتے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے بیچ سے ایک نئی قیادت کی شروعات کریں-

شاہد جمال فلاحی:  آج کل یونیفارم سول کوڈ کو لے کر بحثیں ہو رہی ہیں، حکومت نے لاء کمیشن قائم کیا ہے- اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

رویش کمار:   دیکھئے اس سلسلے میں مجھے تو کوئی خاص جانکاری نہیں ہے، میں ابھی خود اس پورے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس سلسلے میں حکومت نے کوئی  ٹھوس تجویز تو دی نہیں ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ لاء کمیشن نے یونیفارم سول کوڈ پر رائے مانگی ہے لیکن بغیر کسی ٹھوس تجویز کے اس کا کیا کیا فائدہ؟ لاء کمیشن کے کچھ سوالات توبہت ہی نامعقول سے ہیں- مزید یہ کہ  کیا یہ  یونیفارم سول کوڈ صرف مسلم کمیونٹی پر نافذ ہوگا یا دیگر کمیونٹی بھی اس میں شامل ہیں؟ کیا محض تین طلاق کو ختم کر دینے سے یونیفارم سول کوڈ نافذ ہو جائے گا؟ یہ اہم سوالات ہیں جس کا اس سیاق میں جاننا بہت ضروری ہے- ایسا کیوں ہے کہ تین طلاق کے مسئلہ کے سلسلے میں سپریم کورٹ تک بات پہنچی؟ اسے کیوں نہیں پہلے ہی حل کر لیا گیا؟

شاہد جمال فلاحی:  اردو میڈیا کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے؟

رویش کمار:   میں میڈیا کے لئے کوئی پیغام نہیں دے سکتا جہاں تک اردو میڈیا کی بات ہے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس سے وابستہ لوگ نئی نئی چیزوں کو پڑھیں اور جاننے کی کوشش کریں، نئے نئے مدعوں پر بات کریں، ایماندار رپورٹنگ کی جائے- اردو اخباروں کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کا اخبار ہے۔ اس تصور کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے-  کوئی بھی اخبار، اخبار ہوتا ہے اسے کسی مخصوص کمیونٹی سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہیئے- اردو اخبارات کو بھی اپنا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے-  جس طرح سے میں بہت سی چیزوں کو جاننے کے لئے دنیا بھر کے اخباروں کو پڑھتا ہوں، اردو میڈیا کو چاہئے کہ وہ بھی دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے مواد کو اپنے قارئین کو فراہم کرائیں-  کوشش یہ کی جانی چاہیئے کہ جو اردو زبان کے جاننے والے ہیں وہ جانکاری کے معاملے میں کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں- اس سلسلے میں مضامین ڈاٹ کام کی کوشش قابل قدر ہے-  مضامین کا آئیڈیا بھی بہت اچھا ہے کہ آپ طرح طرح کے مضامین کا اردو میں ترجمہ کرتے ہیں-

شاہد جمال فلاحی:  مضامین ڈاٹ کام کے لئے آپ کی کیا تجاویز ہیں جن پر ہم آئندہ مزید کام کر سکیں اور جو اس ملک کے لئے بھی مفید ہو اور بالخصوص اردو صحافت کے لئے بھی کار آمد ہو؟

رویش کمار:   میرا آپ لوگوں سے یہی کہنا ہے کہ نئی نئی اسٹوری آپ لوگ سامنے لائیے ، جو آپ کر رہے ہیں وہ بہت ہی اچھا کام ہے- ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ نئے زمانے کے ساتھ چلیں اور الگ الگ جانکاریاں لوگوں کو فراہم کرتے رہیں-

شاہد جمال فلاحی:  آخر میں ہم آپ کے قیمتی وقت اور قیمتی مشورے کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ امید کرتے ہیں کہ آپ آئندہ بھی اسی طرح اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہیں گے-

رویش کمار:   بالکل ! شکریہ۔

تبصرے بند ہیں۔