اسلام خواتین کے حقوق کا محافظ اور علم بردار (آخری قسط)

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

عورتوں کے تحفظ کے لئے اسلامی ہدایات:
عورت کو اسلام نے بہت قدر ومنزلت عطاکی ،اور دنیا کی متاع ِعظیم قرار دیا ہے ،اسی کے وجود سے بلاشبہ تصویر ِ کائنات میں رنگ ہے اور اسی کی عظمتوں سے گلشن ِ زیست کی بہار قائم ہے ،اگر اس کی عظمت کو پامال کیا جائے ،اس کی حیثیت کو گھٹایا جائے تو دنیا کا یہ چمن جہنم کدہ بن جائے گا اور اس ایک طبقہ کے کی وجہ پورا سماجی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔یہ ایک ظاہر سی حقیقت ہے کہ جو چیز جتنی زیادہ قیمتی ہوتی ہے اس کی حفاظت کا بھی اتنا ہی غیر معمولی اہتمام کیا جاتا ہے ،زر وجواہر کو کوئی آدمی کھلے عام نہیں رکھ دیتا ،بلکہ بساط بھر حفاظت کا انتظام کرتا ہے ،اسلام نے عورت کو اس سے زیادہ مقام دیا ،یہ سب سے قیمتی پونجی اور سرمایہ سے بڑھ عظیم شئی ہے ۔لہذا اس کی حفاظت کی بھی بہت اہم اور دور اندیشی پر مبنی تعلیمات دی۔تاکہ عورت کی عزت اور مقام بھی محفوظ رہے اور اس کے نتیجہ میں معاشرہ بھی پر امن و پر سکون رہ سکے۔اُن تمام اسباب و سائل پر سخت پابندی عائد کی جو کسی بھی طرح ان کے ساتھ زیادتی کو پھیلانے والے ہیں اور جس کے ذریعہ اخلاقی بگاڑ وجود میں آئے اور تحفظ خطرہ میں ہو۔سب سے پہلے اس بات کا حکم دیا کہ مر د و عورت نگاہوں کی حفاظت کریں ۔چناں چہ فرمایا گیا :مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔یہی ان کے لئے پاکیزہ ترین طریقہ ہے۔( النور30:) اور عورتوں کے لئے حکم دیا کہ:اورمومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں،اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی سجاوٹ کو کسی پر ظاہر نہ کریں ،( النور:31)اور پردے سے متعلق تفصیلی احکامات دیئے گئے۔اسی طرح غیر محرم سے باتیں کرنے سے بھی منع کیا گیا ۔ازواج مطہرات ؓکے ذریعہ ایک عمومی حکم دیا کہ :تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیا کرو ،کبھی کوئی ایساشخص بیجالالچ کرنے لگے جس کے دل میں روگ ہوتا ہے ،اور بات وہ کہوجو بھلی والی ہو۔( الاحزاب:32)عورت کو غیر محرم مرد کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنے سے منع کیا گیا ۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ:کوئی مرد کسی عورت سے تنہائی میں نہیں ملتا ہے مگر تیسرا شیطان موجود رہتا ہے ۔( ترمذی:1087)عورت کو خوشبو لگاکر باہر نکلنے سے منع کیا گیا اور ارشاد فرمایاکہ:جو عورت خوش بو لگاکر لوگوں کے پاس سے گزرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوش بومحسوس کریں تو زانیہ شمار ہوگی۔(مسند احمد:19271)عورت کو بغیر محرم کے سفر کرنے سے منع کیا گیا اور فرمایاکہ:کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔( بخاری:1738 )یہ تمام تر تعلیمات اسی لئے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ عورت کو تحفظ دیاجائے ،اور کسی کو اس کے ساتھ زیادتی کا کرنے کا موقع نہ ملے اور وہ مکمل اطمینان کے ساتھ اپنے نظام میں لگے رہے،آج دنیا میں جتنے بھی واقعات عورتوں کے ساتھ زیادتی کے پیش آرہے ہیں یا ان کی عصمت و عفت خطرے میں نظر آرہی ہے اگر ان کے اسباب تلاش کئے جائیں تو معلوم ہوگا کہ کہیں نہ کہیں ان تعلیمات کے سلسلہ میں لاپرواہی کی گئی تو حادثہ رونماں ہوا ،آج عزت کے لٹیرے اخلاق وکردار اور حیا و پاکدامنی کے دشمنوں نے پوری دنیا کوبے حیائی کا بازار بنارکھا ہے ،معمولی سی معمولی چیز پر عورت کو نیلام کردیا ،اپنا کاروبار چلانے ،اپنی دکان چمکانے کے لئے انہوں نے عورت کو آلہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا یہاں تک بیت الخلاء کے برش پر بھی عورت کی تصویر چسپاں کرکے ان کی عظمتوں کو خاک میں ملادیا اور ان کے مرتبہ کو برباد کردیا ، عورت کی عفت و عصمت محفوظ نہیں ،حکومتیں اور سربراہان ِ قوم بے حیائی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر حیران و پریشان ہیں ۔آئے دن نئے نئے قوانین نافذ کرنے اور اصول وضابطے بنانے میں لگے ہوئے ہیں ،عصری سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گہری نگاہ مجرموں پر رکھنے میں فکر مند ہیںاور عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے ان کو امن دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان وقتی اور ظاہری کوششوں سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے جب تک کہ اسلام نے شرم وحیا اور اخلاق و کردار کی جو تعلیمات دیں ہیں ان پر عمل پیرا نہ ہوا جائے ۔
عورتوں کی تباہی کی بنیادیں:
عورتوں کو حقوق دینے اور ان کو آزادی دلانے کے ایسے نعرے لگائے گئے اور خوش نما منظر دکھائے گئے کہ عورت ان کے جھانسے میں آگئی ،اس کے لئے پہلے تین چیزوں کو بنیاد بنائی گئی۔:(1) عورتوں اور مردوں کی مساوات ۔(2)عورتوں کا معاشی استقلال۔(3)دونوں صنفوں کا آزادانہ اختلاط۔مولانا سید ابو الاعلی مودوی ؒ لکھتے ہیں:مساوات کے اس غلط تخیل نے عورت کو اس کے فطری وظائف سے غافل اور منحرف کردیا جن کی بجاآوری پر تمدن کی بقا بلکہ نوع انسانی کے بقا کا انحصار ہے ۔معاشی ،سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں نے ان کی شخصیت کو پوری طرح اپنے اندر جذب کرلیا ۔انتخابات کی جدوجہد،دفتروں اور کارخانوں کی ملازمت ،آزاد تجارتی وصنعتی پیشوں میں مردوں کے ساتھ مقابلہ ، کھیلوں اور ورزشوں کی دوڑ دھوپ ، سوسائٹی کے تفریحی مشاغل میں شرکت ،کلب اور اسٹیج اور رقص وسرود کی مصروفتیں ،یہ اور ان کے سوا اور بہت سی ناکردنی و ناگفتنی چیزیں اس پر کچھ اس طرح چھاگئیں کہ ازدواجی زندگی کی ذمہ داریاں ،بچوں کی تربیت ،خاندان کی خدمت ،گھر کی تنظیم ،ساری چیزیں ا س کے لائحہ عمل سے خارج ہوکر رہ گئیں ۔( پردہ :24)آزادانہ اختلاط پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا جلال الدین عمر ی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں :زندگی کے ہر گوشہ میں عورت اور مرد کے آزادانہ اور بے باکانہ اختلاط کی وجہ سے جنسی آواگی کا رجحان پیدا ہوا اور بڑھا،بدکاری عام ہوئی اور چھاگئی ،پھر اس کی بنیاد پر ایک ایسی ننگی اور بے حیا تہذیب نے جنم لیا کہ اس کی عفونت اور بدبوسے اخلاق کا چمن اجڑگیا ،اور شرم و حیا اور شرافت کا دم گھٹ کر رہ گیا۔( اسلام میں عورتوں کے حقوق 17:)
آزادی ٔ نسواں کا فریب:
عورت کو گھروں سے نکال کر بازاروں کی زینت بنانے ،دوکانوں کی رونق بنانے اور کاروبار کی تشہیر و ترقی کے لئے آزادی ٔ نسواں کا نعرہ بلند کیا گیا ،جس کو عورت نے اپنے حق میں خیرخواہی جانا اور ان کو اپنا محسن تصور کرتے ہوئے اپنی زندگی کی تباہی کا فیصلہ کیا،عورتوں کے ذہن و دماغ میں یہ بٹھایا گیا کہ اسے بھی مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے ،ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنے ،اور ہر میدان میں سبقت کرنے کا برابر حق حاصل ہے ،وہ صرف گھر میں رہنے یا بچوں کی پرورش کرنے کے لئے نہیں ہے ،اسے بھی کمانے اور ہر چیز میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے ،اس سطحی سوچ نے سماج و معاشرہ کو جس دوراہے پر لاکھڑا کیا وہ آج سب کے سامنے ہیں اور خود عورت ذات پر جو ظلم و زیادتی کی گئی ، اس پر فطری ذمہ داریوں اور فرائض سے بڑھ اس پر بوجھ ڈالا گیا جس کے نتیجہ میں وہ انسانوں کی ہوس کا شکار ہوئی ، پر سکون زندگی اور کامیاب گھریلو خاتون مکمل طور پر نہیں بن سکی۔تحریک ِ آزادی ٔ نسواں کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں: جب مغرب نے تمام اخلاقی اقدار سے آزادی حاصل کی تو مرد نے عور ت کو گھر میں رہنے کو اپنے لئے دوہری مصیبت سمجھا ،ایک طرف سے اس کی ہو سنا ک طبیعت عورت کی کوئی ذمہ داری قبول کئے بغیر قدم قدم پر اس سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی ،اور دوسری طرف وہ اپنی قانونی بیوی کی معاشی کفالت کو بھی ایک بوجھ تصور کرتا تھا ،چناں چہ اس نے دونوں مشکلات کا جو عیارانہ حل نکالا ،اس کا خوبصورت اور معصوم نام’’تحریک ِ آزادی ٔ نسواں ہے ـ‘‘۔عورت کو یہ پڑھایا گیا کہ تم اب تک گھر کی چہار دیواری میں قید رہی ہو ،اب آزادی کا دو رہے اور تمہیں اس قید سے باہر آکر مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر کام میں حصہ لینا چاہیے ،اب تک تمہیں حکومت وسیاست کے ایوانوں میں بھی محروم رکھا گیا ہے ،اب تم باہر آکر زندگی کی جدوجہد میں برابر کا حصہ لو تو دنیا بھر کے اعزازات اور اونچے اونچے منصب تمہاراانتظار کررہے ہیں۔عورت بیچاری ان دلفریب نعروں سے متاثر ہوکر گھر سے باہر آگئی اور پروپیگنڈے کے تمام وسائل کے ذریعہ شور مچا مچاکر اسے باور کرادیا گیا کہ اسے صدیوں کی غلامی کے بعد آج آزادی ملی ہے ،اب اس کی رنج و محن کا خاتمہ ہو گیا، ان دلفریب نعروں کی آڑ میں عورت کو گھسیٹ کر سڑکوں پر لایا گیا ،اسے دفتروں میں کلرکی عطاکی گئی ،اسے اجنبی مردوں کے پرائیوٹ سیکریٹری کا منصب بخشا گیا ،اسے ’’اسٹینوٹائپسٹ ‘‘بننے کا اعزاز دیاگیا ، اسے تجارت چمکانے کے لئے ’’سیلز گرل‘‘ اور’’ ماڈل گرل‘‘ بننے کا شرف بخشا گیا اور اس کے ایک ایک عضو کو برسر بازار رسوا کرکے گاہکوں کو دعوت دی گئی کہ آؤ ، اور ہم سے مال خریدو، یہاں تک عورت کے سر پر دین ِ فطرت نے عزت و آبرو کا تاج رکھا تھا جس کے گلے میں عفت و عصمت کے ہار ڈالے تھے ،تجارتی اداروں کے لئے ایک شو پیس اور مرد کی تھکن دور کرنے کے لئے ایک تفریح کاسامان بن کر رہ گئی۔( آزادی ٔ نسواں کا فریب:6)اس تحریک ِ آزادی ٔ نسواں نے سماج اور معاشرہ پر بہت ہی نقصان کن اثرات ڈالے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو جو آزادی اور حقوق دئیے تھے وہی ان کے لئے دنیا کی راحت ،ان کی عزت کا باعث ہوں گے اور پورے معاشرہ اور سماج کے لئے پاکیزہ اور خو شحالی کاسبب ہوں گے۔
آخری بات:
اسلا م نے عورت کو قیدو بند میں نہیں رکھااورنہ ہی اس کے ساتھ کسی قسم کا زیادتی کا معاملہ کیاگیا ہے بلکہ اس کے فطری حقوق عطاکئے ہیں ،اس کا وجود جس کے لئے تخلیق کیا گیا وہی ذمہ داریاں اس پر ڈالی ہیں ،جن چیزوں کی متحمل اس کی ذات ہے انہی کا اس کو پابند کیا ہے ،وہ اپنے دائرہ میں رہ کرایک کامیاب عورت بن کر جی سکتی ہے اور ملک و معاشرہ کی ترقی کے لئے اپنی تربیتی گرُوںکے ذریعہ وہ نسل انسانی کی پرورش کرسکتی ہے۔ امام الہند مولانا ابولکلام آزادؒ لکھتے ہیں :عورت کو قدرت نے جس غرض کے لئے مخلوق کیا ہے وہ غرض نوع ِ انسانی کی تکثیر اور اس کی حفاظت و تربیت ہے ،پس اس حقیقت سے اس کا قدرتی فرض یہ ہے کہ اس اہم فرض کی انجام دہی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتی رہے ، اس فرض کی انجام دہی کے لئے جن اعضا ء اور اعضاء میں تناسب کی ضرورت تھی ،قدرت نے اسے عطاکئے ہیں ۔( مسلمان عورت:19)
بلاشبہ عورت کو اسلام نے بہت اونچا مقام و مرتبہ دیا ،اس کی حقیقی عظمتوں سے دنیا کو باخبر کیا ،اس کے حقوق اداکرنے کے سلسلہ میں مردوں کو تاکید کی اور مسلسل ہدایات عطا فرمائی ۔عورت کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی یہی ہے کہ اس کے فطری جذبات کی رعایت کی جائے ،اس کی صنفی تقسیم کا خیال کیا جائے ،اور دنیا بھر میں جہاں جہاں عورتوں پر ظلم ہورہا ہے ،ان کے حقوق چھینے جارہے ہیں ،نہایت تشدد کا سلوک کیا جارہاہے ،بہیمانہ برتاؤ کو روکے ،اور انہیں ظالم حکومتوں سے نجات دلانے کوشش کریں ،شام و فلسطین کی بے قصور عورتوں پر ہونے والے بے جا مظالم پر پابندی عائد کریں ،اسی طرح وقتی طور پر عورتوں کی ہمدردی کی صدا لگانے والے دنیا بھر کی مظلوم عورتوں کو اور حقوق ِ انسانی سے محروم خواتین کو ،ظالموںکے جبر و ستم کی شکار عورتوں کو فراموش نہ کریں ۔اور مسلمان عورت پورے فخر کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں کیوں کہ یہی اس کی عزت کا سبب بھی ہے اور اسی میں اس دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔