اطہر ضیاء کی شاعری سے انتخاب

عزیز نبیل

مرزا اطہر ضیاء شاعری کے معاملہ میں درویش صفت واقع ہوا ہے۔ 2012 کے اوائل میں اطہر ضیاء کو گوشہ گیری کی زندگی سے باہرتو میں لے آیا لیکن ایک دوریشانہ بے نیازی جو اس کی طبیعت کا حصہ ہے اس سے باہر اب تک نہیں لاسکا۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک اور وہاٹس اپ کے دور میں بھی یہ جنوئین شاعر تقریبا گمنام ہے۔

اردو، فارسی، عربی، ہندی اور انگلش پر مکمل قدرت رکھنے والے اطہر ضیاء کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے ذہن کے کوزہ سے اظہار کے سمندر میں احساس کی ایک ایسی ندی مل رہی ہے جس کے جلو میں تجربہ ، مشاہدہ اور مطالعہ کی منفرد اور دل کو تازگی بخشنے والی لہریں شامل ہیں۔ ایسی لہریں جن میں تازہ رنگِ سخن کی نمود بھی ہے اوراپنی جانب متوجّہ کرنے والے لہجہ کا سنہرا پن بھی ۔

اطہر ضیاء کی شاعری ایک بہت تفصیلی تعارف کا تقاضہ کرتی ہے، یہ کام پھر کبھی۔ فی الحال میں نے دوستوں سے اطہر ضیاء کی شاعری کا انتخاب پیش کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرتے ہوئے ایک انتخاب حاضر ہے۔

ڈھونڈتا ہے کوئی رستہ مرے آئینے میں
قید اک شخص ہے مجھ سا مرے آئینے میں
کھینچ لے تجھ کو نہ آئینے کے اندر کا طلسم
دیکھ مت غور سے اتنا مرے آئینے میں
میں ہی آئینۂ دنیا میں چلا آیا ہوں
یا چلی آئی ہے دنیا مرے آئینے میں
۔۔۔

کہو کہ دشت ابھی تھوڑا انتظار کرے
میں اپنے پاوں ندی میں بھگو رہا ہوں ابھی
میں تجھکو پھینک بھی سکتا تھا زندگی لیکن
کسی امید پہ یہ بوجھ ڈھو رہا ہوں ابھی
۔۔۔
یہ جو بے رنگی نظر آتی ہے
بس یہی رنگ ہمارا ہے میاں
اونچی ہونے لگی محفل کی صدا
اب یہ اٹھنے کا اشارا ہے میاں
۔۔۔

اب دوا کام ہی نہیں کرتی
اب تو ہم زہر پینے لگ گئے ہیں
۔۔۔

ابھی تو روح کو سیراب کرنا باقی تھا
ابھی تو ٹھیک سے لب بھی نہیں تھے بھیگے مرے
۔۔۔
اضافی ہو چکا ہے متن سارا
کہانی حاشیے سے چل رہی ہے
مجھے سب دفن کر کے جا چکے ہیں
مگر یہ سانس اب تک چل رہی ہے
بہت روئے گی یہ لڑکی کسی دن
جو میرے ساتھ ہنس کر چل رہی ہے
۔۔۔

اک نیا روپ دیا جائے مری مٹی کو
چاک پر پھر سے رکھا جائے مری مٹی کو
اب مجھے اور نہیں ڈھونا یہ زنجیرِ وجود
آج آزاد کیا جائے مری مٹی کو
۔۔۔
سو جتنا رونا ہے رو لو گلے لگا کے مجھے
کہ صبح مجھ کو سفر پر روانہ ہونا ہے
۔۔۔
سنتا رہتا ہوں میں خاموشی سے
لوگ دہراتے ہیں میری باتیں
زندگی پاس مرے بیٹھ کبھی
تجھ سے کرنی ہیں بہت سی باتیں
۔۔۔

یہاں آوازوں کے دینار و درم چلتے ہیں
کچھ نہیں ملتا یہاں سکۂ خاموشی سے
۔۔۔
سنائی دیتی ہے یہ کیسی بازگشت مجھے
تو کیا میں وادیِ آئندگاں تک آگیا ہوں
۔۔۔

پیاس روکے ہوئے میں بیٹھا تھا
اور پھر چینخ اٹھا پانی پانی
۔۔۔
تم نے رو دھو کے تسلی کر لی
پھیلتا ہے ابھی کاجل مجھ میں
میں تجھے سہل بہت لگتا ہوں
تو کبھی چار قدم چل مجھ میں
۔۔۔
اپنے محور پہ رقص کرتے ہوئے
آگئے ہیں ترے مدار میں ہم
اپنا چہرہ نہیں ہے یاد مگر
تم کو پہچان لیں ہزار میں ہم
۔۔۔
جہاں آتی ہے سچ پر آنچ اطہر
وہاں ہم سب سے پہلے بولتے ہیں
۔۔۔
سوکھنے لگتا ہوں میں تجھ سے جدا ہوتے ہی
جب تلک ساتھ رہوں تیرے ہرا رہتا ہوں
سرسری لوگ گزر جاتے ہیں ہر منظر سے
اور اک میں ہوں کہ پتھرایا کھڑا رہتا ہوں
مجھ میں تھوڑی سی جگہ بھی نہیں نفرت کے لیے
میں تو ہر وقت محبت سے بھرا رہتا ہوں
جیسے پھولوں کا بغیچہ ہو مرے شانوں پر
اس طرح میں تری یادوں سے لدا رہتا ہوں
۔۔۔
پھر اس کے بعد تھی رستوں میں صرف دھوپ ہی دھوپ
میں تھوڑی دور چلا تھا کسی کی چھاؤں میں
۔۔۔
چلو کہ ہم بھی ملا دیں اسی میں اپنے چراغ
دیارِ شب میں جو اک آفتاب بن رہا ہے
۔۔۔

آتا ہے کون بجھتے چراغوں کے آس پاس
اچھا کیا جو آپ بھی اٹھ کر چلے گئے
۔۔۔
دکھوں کی دھوپ میں خوشیوں کے پل بچا کے رکھو
یہ سبز باغ بہت دیکھ بھال چاہتا ہے
۔۔۔
دیکھ لگ جائے نہ یہ کبر کی دیمک تجھ کو
یہ وہ کیڑا ہے جو کردار کو کھا جاتا ہے
۔۔۔
دی بھی اگر صدائے مکرر ، نہ آؤں گا
اس بار میں گیا تو پلٹ کر نہ آؤں گا
قامت مری دراز ہے کوتاہ تیرا قد
اے زندگی میں تجھ پہ برابر نہ آؤں گا
خود کو لٹا رہا ہوں یہی سوچ کر ابھی
پھر اس کے بعد خود کو میسر نہ آؤں گا
۔۔۔
ہزار راتوں کا زہراب ہے رگوں میں مری
میں ایک رات میں تھوڑی ہرا بھرا ہوا ہوں
۔۔۔
نہ اختلاف ہے کوئی نہ برہمی ہوئی ہے
مگر خلوص میں تھوڑی سی کچھ کمی ہوئی ہے
۔۔۔
میں نے اس کی آنکھیں دیکھیں گہرے کاجل میں
جیسے دو دو چاند کھلے ہوں کالے بادل میں
۔۔۔
بالکنی سے کیا نظارہ بارش کا
آؤ ہم تم چھت پر چل کر بھیگتے ہیں
۔۔۔
ہم اپنے زخم کو شعروں میں ڈھال لیتے ہیں
بس اس قدر ہی ہمارا کمال ہے پیارے
۔۔۔
ہمیں تو خاک بھی ہو کر نہ آئی ابجدِ عشق
سنا ہے چھو کے سبھی آ رہے ہیں سرحدِ عشق
۔۔۔
قحط الرجال ایسا تھا اطہر کہ شہر میں
جو بوالہوس تھے سرمد و منصور ہو گئے
۔۔۔
تجھ کو راس آئے گا یہ شہر نہ اس شہر کے لوگ
باندھ لے آج کی شب رخت سفر دشت نورد
۔۔۔
نہ جانے کب انھیں اسٹیج ہونا ہے اطہر
وہ سارے سین جو میرے لیے لکھے ہوئے ہیں
۔۔۔
نہ انتظار کرو کل کا آج درج کرو
خموشی توڑ دو اور احتجاج درج کرو
۔۔۔
چلتے رہے ہیں زندگی ہم تیری دھوپ چھاوں میں
کچھ دن دکھوں کے شہر میں کچھ دن خوشی کے گاوں میں

۔۔۔

لہو کا شور اگر تھوڑی دیر تھم جائے
تو پھر سکون سے کچھ دیر میں سنوں خود کو
مرے وجود کے سب تانے بانے الجھے ہیں
کدھر کدھر سے میں سلجھاؤں اور بنوں خود کو
۔۔۔
کیا پتہ جانے کہاں آگ لگی
ہر طرف صرف دھواں ہے مجھ میں
ایک دن تھا جو کہیں ڈوب گیا
ایک شب ہے کہ جواں ہے مجھ میں
۔۔۔
نہ جانے کتنے پرندوں کے سر کی چھتری ہے
وہ بوڑھا پیڑ جو بارش کی زد میں رہتا ہے
۔۔۔
کچھ اس طرح سے اڑی ہے مرے وجود کی گرد
کہ کہکشاں سی بناتا ہوا چلا گیا میں
فلک سے تا بہ زمیں پھر زمیں سے تا بہ فلک
غبار اپنا اڑاتا ہوا چلا گیا میں

اطہر ضیاء کی خوبصورت شاعری کا یہ انتخاب اطہر کے لیے امکاناب سے بھر پور ایک روشن مسقبل کی نوید ہے. امید ہے کہ یہ نوجوان شاعر اپنی بہترین شاعری سے اردو ادب کے سرمایے میں بیش بہا اضافہ کرے گا.

تبصرے بند ہیں۔