مطالعۂ مذاہب کی اسلامی روایت

سہیل بشیر کار

                ’مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت‘پروفیسر سعود عالم قاسمی کی ۲۹۹صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔ موصوف سابقہ ڈین فیکلٹی آف دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ اور درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی دیگر تصانیف کی طرح زیرِتبصرہ کتاب بھی منفرد علمی کاوش ہے۔ کتاب پڑھ کر ہی محسوس ہوتا ہے کہ بڑی محنت سے کتاب کے لئے مواد جمع کیا گیا ہے۔

                دور نبوت ﷺہی سے مسلمانوں کا دوسرے حاملین مذاہب سے مکالمہ ثابت ہے۔ دین کے پیروکاروں نے ہمیشہ سے ہی نہ صرف دیگر مذاہب کی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے بلکہ دوسرے  مذاہب سے وابستہ اشخاص سے مذہبی مکالمہ بھی جاری رکھا، امت مسلمہ کا یہ ایک درخشاں پہلو ہے۔ دور نبوت میں ہم پاتے ہیں کہ کس طرح حضرت زید بن ثابتؓ کو حکم دیا گیا کہ وہ یہودیوں کی عبرانی زبان سیکھیں ، اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایسا کیا۔ دور خلفائے راشدین میں مسلمانوں نے دیگر مذاہب کی اور ان مذاہبِ سے وابستہ اہم شخصیات کا مطالعہ کیا۔ مسلمان حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول سے بخوبی واقف تھے جس میں انہوں نے فرمایا کہ ”مجھے یہ خوف نہیں کہ تم اس وجہ سے ہلاک ہو جاؤگے کہ تمہیں دین کی خبر نہ ہوگی بلکہ اس وجہ سے ہوگے کہ تمہیں جہالت کی خبر نہ ہوگی۔ ” عباسی دور میں ہر مذہب کے لوگ کھل کر اپنے عقائد اور مذہبی اصولوں کو بیان کرتے تھے۔ اس دور میں علماء حق نے دوسرے مذاہب کا مطالعہ کرکے ان کے کمزور پہلوؤں کو اجاگر کیا، مصنف لکھتے ہیں :

                 ”چنانچہ اس عہد میں بہ کثرت ایسی کتابیں لکھی گئی جن میں دوسرے مذاہبِ کے مطالعہ کو خصوصی اہمیت دی گئی اور ساتھ ہی مسلمانوں کے درمیان جو فرقے پیدا ہوئے ان کے خیالات، خصوصیات اور شخصیات کا جائزہ لیا گیا۔ مسلمانوں نے’ الملل النحل‘ کے نام سے ایک فن ایجاد کیا، جس کا مقصد دوسرے مذاہب اور مسلم فرقوں کے مذہبی خیالات کا تذکرہ اور تجزیہ کرنا تھا۔ ‘‘(صفحہ۱۳)

                زیر تبصرہ کتاب میں امت مسلمہ کی دوسرے مذاہب کو جاننے کی کوششوں کا جائزہ لیا گیا ہے، اس کتاب میں مصنف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امت اپنے معاشرہ میں رہنے والے دیگر مذاہب کے مذہبی خیالات، رسموں اور اقدار کا مطالعہ کریں ، مصنف لکھتے ہیں ”ایک عرصہ سے مجھے یہ خیال تھا کہ دوسرے مذاہب کے مطالعہ کی جو تحریک قرآن سے مسلمانوں کو ملی اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جس محنت سے دوسرے مذاہب کا مطالعہ کیا اور ان کے پیشواؤں سے مکالمہ اور مناظرہ کیا، نیز دوسرے مذاہب پر جو تحقیقی کتابیں لکھیں ان کا تعارف اور تجزیہ کیا جائے۔ ” آگے لکھتے ہیں ” اس کتاب میں قرآن کریم اور انبیاء کرام کے مکالمے اور تاریخ میں اسلام اور دیگر مذاہب کے مطالعہ پر مسلمان علماء کی معتبر اور منتخب کتابوں کا تعارف کرایا گیا ہے اور ان مباحث کا تجزیہ کیا گیا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی اشاعت اس کی داخلی قوت، حق و صداقت، آزادی فکر اور حریت کے ذریعہ ہونہ کہ زور تلوار کی طاقت سے ہوئی۔ ‘‘( صفحہ ۱۸)

                کتاب کے کل دس ابواب ہیں۔ پہلے باب میں مصنف نے عہد نبوی اور عہد صحابہ میں بین مذاہب کامکالمہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کا عتبہ بن ربیع، یہودی علماء اور عیسائی وفد، کے ساتھ مکالمہ تفصیل سے پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی صحابہ کرام میں جعفر بن طیار اور نجاشی، مصیب بن عمیر اور اسید بن حضیر، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور عیسائی پادری کے ساتھ مکالمہ تفصیل سے نقل کیا ہے۔ مصنف ان مکالموں کو پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

                ‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے ان مکالمات پر غور کیجئے تو دو باتیں سامنے آجاتی ہیں۔ اول یہ کہ دین اسلام کے عقائد، احکام اور تعلیمات کو سمجھنے کے ساتھ مسلمانوں نے معاصر مذاہب کی حقیقت اور تعلیم کو بھی سمجھنے کی کوشش کی، ان کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھی اور ان کی کتابوں میں آخری رسول کی جو علامات اور پیش گوئیاں تھیں ، ان سب سے بھی واقفیت حاصل کی اور ان مذاہب کے ماننے والوں سے باہمی ربط وتعلق کی راہ نکالی – دوم یہ کہ مسلمانوں نے اپنے عقیدے اور اصول زندگی کا اظہار دوسروں کے سامنے نہایت معقولیت اور حکمت کے ساتھ کیا – دین اسلام کو متعارف کرانے میں دینی فراست اور ایمانی جرات سے کام لیا ،نہ معذرت خواہانہ انداز اپنایا اور نہ کسی طرح کی مداہنت کی بلکہ جس کو حق جانا اور دین و دنیا کی سعادت کا ذریعہ سمجھا اسے بلا کم و کاست دوسروں کے سامنے پیش کیا – دنیا کی متمدن قوموں اور ان کے بادشاہوں نے اس حق کی قوت اور اس کے اثرات کو محسوس کیا۔ ‘ (ص ۴۵)

                دوسرے باب میں مسلم سلاطین اور بین المذاہب مکالمہ پیش کیا گیا ہے۔ اس باب میں مصنف نے بہت سے مکالموں کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی ہندوستان میں بین مذاہب مکالمہ کے تحت مسلمانوں کا ہندوؤں ، بودھ، اور دیگر مذاہب کے حاملین کے ساتھ کئی واقعات درج کیے ہیں۔ اس باب میں انگریزوں اور عیسائی مشنریوں کے ساتھ مسلمانوں کی سعی کو پیش کیا ہے، مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور پادری فنڈر کا تفصیلی احوالِ پیش کیا ہے۔ بین مذاہب میں مولانا قاسم نانوتوی، سرسید احمد خان اور احمد دیدات وغیرہ کے کوششوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ تیسرے باب سے دسویں باب تک انہوں نے بین مذاہب مطالعات پر مبنی مسلمانوں کئی کتابوں کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ تیسرے باب میں مصنف نے البیرونی کی ہندوستانی مذاہب پر کتاب” فی تحقیق مللہند’کا جائزہ پیش کیا ہے، انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں ان مشکلات کا بھی ذکر کیا ہے جو مصنف کو ہندوستان میں پیش آئیں۔ اس باب کے آخر میں لکھتے ہیں ” مختصر یہ ہے کہ ابو ریحان البیرونی نے محنت و مشقت اور علمی بصیرت کے ساتھ ہندوستان کے مذاہب، تہذو ثقافت، رسوم و رواج اور جغرافیائی مقامات اور حالات کا مطالعہ کیا ہے، پھر نہایت غیر جانب داری اور علمی دیانت کے ساتھ ان کو بیان کیا ہے۔ یہ مطالعہ ہندو ومسلمان اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے علمی دستاویز ہے، گویا گیارہویں صدی عیسوی کے ہندوؤں کے مذہبی و سماجی حالات کی یہ مستند اور معتبر تاریخ ہے -‘‘ (صفحہ۱۲۰)

                چھوتے باب میں علامہ ابن حزمؒ کی کتاب’ الفصل فی الملل والا ھواع والنحل’ کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا ہے، اس کتاب کا موضوع مذہبی اعتقادات کا فلسفیانہ تجزیہ اور معاصر مذاہب سے اس کا موازانہ، نیر مسلمانوں کے مشہور مذہبی فرقوں کے عقائد و افکار کا تذکرہ اور محاسبہ کرنا ہے۔ ( صفحہ ۱۲۵) ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں ابن حزم کے حوالے سے فلاسفہ کا مذہب، مجوسی مذہب، صابئی مذہب، نانی مذہب،، برہمن مذہب، یہودی مذہب اور عیسائی مذہب، پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، پانچویں باب میں ڈاکٹر صاحب نے علامہ عبدالکریم شہرستانی کی کتاب’ الملل وانحل‘ کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شہرستانی کی کتاب میں اعتدال پایا جاتا ہے۔

                چھٹے باب میں مصنف نے عالم اسلام کی مشہور و معروف شخصیت علامہ ابن تیمیہ کی ‘کتاب الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ‘کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں علامہ نے عیسائی مذہب کا تفصیلی اور تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ ‘یہود اور نصاریٰ کے لڑیچر اور ان کے مذہبی فرقوں کے اختلاف پر ان کی نظر اتنی وسیع تھی کہ گولڈ زیہر کے بقول جو تورات کی شخصیتوں سے بحث کرنا چاہئے وہ ابن تیمیہ کی تحقیقات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ‘ پروفیسر صاحب مولانا ابوالحسن ندوی کے حوالے سے کتاب کی اہمیت کے بارے میں لکھتے ہیں ”اس کتاب سے ان کی وسعت نظر، مطالعہ کا تنوع، مذاہب و ادیان سے گہری واقفیت اور صحف سابقہ پر گہری نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ ‘‘(صفحہ ۱۶۳)ساتویں باب میں مصنف نے ساتویں صدی ہجری کے مشہور و معروف عالم دین علامہ ابن قیم کی کتاب ‘ھدایۃ الحیارفی اجو بۃ الیہود والنصاری ‘ کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں ” اس کتاب کے دو حصے ہیں ، پہلے حصہ میں یہود و نصاریٰ کے اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ مسلمان کیوں یہ کہتے ہیں کہ اہل کتاب مال و جاہ کی وجہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے۔ دوسرے حصہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے متعلق ان بشارتوں پر گفتگو کی گئی ہے جو توریت، زبور اور انجیل میں مختلف انبیاء کرام کی زبان سے صادر ہوئی ہیں ، اس ضمن میں بعض اور بحثیں بھی اہل کتاب کے متعلق کی گئی ہیں – (صفحہ ۱۹۴)

                تجزیاتی بحث کے آخر میں لکھتے ہیں ‘اگرچہ مصنف کا انداز مناظرانہ اور مجادلانہ ہے مگر مذکورہ مذاہب کے بارے میں ان کی معلومات بہت وسیع اور وقیع ہیں۔ یہودی اور عیسائی عقائد، تعلیمات اور تاریخ کا ہر گوشہ انھوں نے ٹٹولا اور داد تحقیق دی ہے۔ ابن قیم کے مطالعہ میں وسعت کے ساتھ ان کے استدلال میں قوت ہے، لب و لہجہ کی شدت سے صرف نظر کیا جائے تو تقابلی ادیان مذاہب پر یہ گراں قدر کتاب ہے۔ (صفحہ ۲۱۴)

                آٹھویں باب میں مصنف نے سرسید احمد خان کی کتاب’ دبستان مذاہب ‘کا مطالعہ پیش کیا ہے، کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”یہ کتاب ’دبستان مذاہب‘ سترہویں صدی عیسوی کے ہندوستانی مذاہب اور فرقوں کی مفصل تاریخ اور مذہبی سرگرمیوں کی مستند رپورٹ بن گئی ہے۔ ‘ صفحہ (۲۴۵)

                نویں باب میں مصنف نے سرسید احمد خان کی کتاب ‘تبین الکلام فی تفسیر التورہ والانجیل علی ملۃ الاسلام’ کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے یہ کتاب اس وقت لکھی گئی جب مسلمان انگریزوں سے شدید نفرت کرتے تھے، اس ماحول میں دونوں مذاہب کے حاملین میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے یہ کتاب لکھی۔ پروفیسر صاحب لکھتے ہیں ”اس کتاب کو لکھنے کے لیے سرسید نے دن رات محنت کی، پلنگ پر سونا چھوڑ دیا، فرش پر کتابوں کے درمیان ان کی نشت رہتی تھی، نیند کا غلبہ ہوتا تو وہیں پر سو جاتے، اٹھ کر پھر لکھنا شروع کرتے، اس کتاب کا مقصد توریت و انجیل پر قرآن کی فضیلت ثابت کرنا نہیں تھا نہ ہی اہل کتاب کے عقائد کے ابطال مقصود تھا بلکہ سامی مذہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں مشترک تعلیم و مذہب کو نمایاں کرنا تھا اور مسلمانوں اور عیسائیوں میں فکری و علمی ہم آہنگی کی راہ تلاش کرنا تھا۔ ”(صفحہ ۲۵۰)مصنف مزید لکھتے ہیں ” سرسید نے یہ کتاب عیسائیوں اور مسلمانوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بڑی محنت سے لکھی تھی مگر یہ مذہبی ہم آہنگی عملی شکل نہ اختیار کر سکی، اس کی وجہ یہ تھی کہ مصنف نے عیسائیوں کے بنیادی عقیدے ابن اللہ، تثلیث اور کفارے کو تسلیم نہیں کیا اس لیے عیسائیوں نے اس کتاب کو قابل قبول نہیں سمجھا۔ نیز مصنف نے جمہور علمائے اسلام کے برخلاف تاویل کا طریقہ اختیار کیا، اس لیے مسلمانوں نے اس کتاب پر توجہ نہ دی۔ ”(صفحہ ۲۶۵)

                کتاب کے دسویں اور آخری باب میں بائبل کے مفسر اور محقق مولانا عنایت رسول چریا کی کتاب” بشری” کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے کوشش کی ہے کہ کتب سماوی میں حضور صلی اللہ علیہ السلام کی نبوت کی جو بشارت ہے ان مقامات کو سامنے لانا، مولانا نے دن رات ایک کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بشارتیں آج بھی موجود ہیں۔

                الغرض مصنف نے امت مسلمہ کے اس تابناک پہلو کو بیان کیا ہے کہ کس طرح امت مسلمہ کو دوسرے مذاہب کو جاننے میں دلچسپی تھی، البتہ دور حاضر میں امت مسلمہ یہ کام انفرادی اور اجتماعی طور زیادہ بہتر طریقے پر کر رہی ہے لیکن مصنف نے ان کوششوں کا ذکر نہیں کیا ہے، مختلف دینی تنظیموں اور ملی اداروں کے علاوہ انفرادی سطح پر کچھ لوگوں نے یہ کام خوش اسلوبی سے کیا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک  ماڈرن ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر یہ کام احسن طریقے پر کر رہے ہیں امید ہے آئندہ اڈیشن میں اس پہلو پر بھی کچھ لکھا جائے گا۔ کتاب کو ہندوستان کے علمی، فکری،اور تحقیقی ادارہ ’دارالمصفنین اعظم گڑھ‘ نے عمدہ طباعت سے شائع کیا ہے، یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔