مطالعۂ کتب کی اہمیت

سہیل بشیر کار

قوموں کی تعمیرمیں بنیادی اقداراہم رول اداکرتے ہیں۔ قوموں کے عروج وزوال کی بنیاد اس قوم کے لوگوں کے بنیادی اقدارہی ہوتے ہیں۔ چونکہ علم ہمیشہ عمل کاامام ہوتاہے، لہٰذابنیادی اقدار صحیح علم سے ہی آتے ہیں۔ مطالعۂ کتب علم حاصل کرنے کااہم ذریعہ ہوتاہے۔ وسیع ودقیق مطالعہ کے بغیر انسان کاذہن، ادراک کی اس سطح تک رسائی نہیں پاسکتا، جہاں سے وہ مفید ومضراوراعلیٰ وادنیٰ کے بیچ کافرق جان سکے۔ مدارس، اسکول، کالج اوریونیورسٹی طالب علم کو علم ودانش کی دہلیزپرلاکھڑاکردیتے ہیں ، لیکن علم کی طلب کااصل سفر اس کے بعد سے ہی شروع ہوتاہے، جوایک طالب علم کواپنے شوق اورلگن سے پوراکرناہوتاہے۔

مطالعہ کامادہ طلع ہے۔ جس کامطلب ہے کسی غائب چیزکاوجودمیں آنا یاظاہرہونا۔ اس سے لفظ طلوع بناہے۔ چنانچہ طلوع آفتاب کے معنی میں غائب سورج کاظاہرہونا۔ مطالعہ کے لفظی معنی یہ ہوئے کہ دویادوسے زیادہ لوگوں کاایساباہمی تعامل جس سے کوئی غائب چیزوجودمیں آئے۔ یہ غائب چیزعلم ہی ہے جو مطالعہ سے وجودمیں آتی ہے اوریہ کتاب اورقاری کے درمیان تعامل کے نتیجہ میں وجودمیں آتی ہے۔

انسان کورب کائنات نے عقل وشعورسے نوازاہے۔ عقل وشعورکے نشوونما کیلئے مطالعہ کتب سب سے کلیدی رول اداکرتاہے۔ جس طرح غذا صحت کے لئے ناگزیرہے، اسی طرح روحانی اورفکری ارتقاء کے لئے مطالعہ ایک جزولاینفک کی حیثیت رکھتاہے۔ غذاکے بغیر جیسے جسم لاغرہوجاتاہے وہیں مطالعہ کے بغیرعقل وشعورمیں جموداورزوال اپنی جگہ بنالیتے ہیں۔ انسان کی عقل چاہے کتنی ہی زیرک کیوں نہ ہو، وہ انسان کوصرف کچھ مخصوص حالات سے ہی آگاہی بخش سکتی ہے۔ یہ صرف مطالعے کی ہی دَین ہے کہ جس کی مددسے ہم مختلف تہذیبوں اورتمدّنوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرسکتے ہیں۔ دنیا میں کئی ایسے عظیم انسان گزرے ہیں ، جنہوں نے اپنی وفات کے بعدبھی صدیوں تک انسانوں کے قلوب واذہان پراپنی دھاک بٹھائے رکھی۔ جب ہم ان کی زندگی کامطالعہ کرتے ہیں تو ایسامحسوس ہوتاہے گویاہم ان حضرات کی صحبت سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ ان سب نعمتوں سے انسانیت محروم رہتی، اگر قدرت نے کتابوں کی صورت میں ایک عظیم دولت ہمیں عطا نہ کی ہوتی۔ مطالعہ متمدن اقوام کی پہچان ہے، بلند خیالی اورذہنی ارتقاء کاذریعہ ہے۔ عظیم شخصیات کاوصف خاص ہے۔ لازوال کامیابی ’’دنیامافہیاومابعدہا‘‘کاپنہاں رازمطالعہ ہی ہے‘‘۔ مطالعہ کتب کااس سے بڑافائدہ اورکیاہوسکتاہے کہ ہمیں ایک مصنف کی سالوں کی انتھک محنت سے فیضیاب ہونے کاموقع مل جاتاہے، وہ بھی بغیرکسی مشقّت کے۔ آج انسانیت کا سنگین مسٔلہ ذہنی انتشار اور عدم سکون ہے جس کی وجہ سے انسان بہت ساری نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوچکاہے۔ ماہرنفسیات کے مطابق اچھی اورمفیدکتابوں کامطالعہ انسان کو ان امراض سے نجات دلاتاہے۔ اچھی اورمفیدکتابوں کے مطالعہ سے ہی انسان کی زندگی میں سکون اور اطمینان جیسی اعلیٰ اورمطلوبہ صفات پیدا ہوسکتی ہیں۔

پریس کی ایجادکے بعد چونکہ اب کتابوں کی اشاعت بڑے پیمانے پرہورہی ہیں اورسینکڑوں کتابیں آئے روزمارکیٹ میں دستیاب نظرآتی ہیں ، مشکل پیداہوجاتی ہے کہ انسان کوکون سی کتاب پڑھنی چاہیے اورکون سی نہیں۔ لیکن اس مسٔلے سے ہم اچھی طرح یوں نپٹ سکتے ہے کہ مطالعے میں کوئی ناغہ کئے بغیر مسلسل پڑھتے رہیں۔ جوں جوں ہمارا ذہن بیدارہوتاجائے گا، یہ فیصلہ کرناپھرکچھ مشکل معلوم نہیں ہوگاکہ کون سی کتاب میرے لئے مفید ہوسکتی ہے اورکون سی نہیں۔ فرانس بیکن ؔ نے خوب کہاہے:’’کچھ کتابیں صرف چکھنے کی ہوتی ہے، کچھ نگل جانے کی ہوتی ہیں اورکچھ ہی کتابیں چبانے اورہضم کرنے کی ہوتی ہیں۔ مولاناحمیدالدین فراہیؒ اپنے طلباء کونصیحت کیاکرتے تھے:

’’ہمیشہ اعلیٰ کتابیں پڑھنی چاہیے۔ اعلیٰ کتابیں ہی مطالعے کاصحیح ذوق پیداکرتی ہیں۔ کتابوں کی بھی دوسطحیں ہوتی ہیں اورطالب مطالعہ کے بھی دودرجے ہوتے ہیں : ایک وہ دورہوتاہے جب ایک پڑھنے لکھنے والاآدمی ہرفن کی واجبی واقفیت حاصل کرتاہے۔ آدمی کوچاہیے کہ اس فن کے ماہرین سے پوچھ لے کہ اس ضرورت کوپوراکرنے والی کتاب کون سی ہے۔ آدمی کواس مرحلے میں اس کامطالعہ کرناچاہیے۔ جب آدمی اس مرحلے سے گزرجائے تواسے اندازہ ہوجاتاہے کہ یہ فن اس کی دل چسپی کاہے یانہیں۔ اگراس کی دلچسپی کاہوتواسے اس فن کی اعلیٰ کتابوں میں سے کسی ایک جامع کتا ب کامطالعہ کرناچاہیے اوراس کی مشکلات کوسمجھنے کے لئے اس فن کے کسی استادسے رابطہ رکھناچاہیے۔ ایک مذہبی عالم کونیچرل سائنس کی چیزوں سے اتنا واقف ضرورہوناچاہیے کہ وہ دوسرے فنون میں ان کے حوالے سے آنے والی بات کوسمجھ سکے، لیکن اسے معیشت، معاشرت، تاریخ، قانون، تہذیب وتمدن، فلسفہ، نفسیات وغیرہ تمام انسانی علوم سے اچھی طرح واقف ہوناچاہیے۔ بطورخاص وہ علوم جوجدیدانسان کی سوچ اورطرززندگی پراثراندازہورہے ہیں ، ان کی اچھی واقفیت کے بغیردین کی دعوت اوردین کے دفاع کاکام کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں آخری اوراہم ترین بات یہ ہے کہ انسان کواپنی صلاحیت کی سطح، اپنی طبیعت کے رجحان اوراپنے ماحول کے داعیات کوسامنے رکھ کراپنے لئے لائحہ عمل بناناچاہیے۔ یہ سب خداکے فیصلے ہیں اورانہی پرراضی ہونابندے کے شایان شان ہے۔ ان کے ساتھ لڑائی ایک توآدمی کونتائج سے محروم کردیتی ہے اوردوسرے خود اس کی اخلاقی شخصیت کے لئے ضررکا باعث بنتی ہے۔ باقی رہا، پڑھی ہوئی باتون کایادرہنا تواس کاتعلق یادداشت کی قوت اوراس علم سے واسطہ پڑتے رہنے سے ہے۔ اس کے لئے کسی اضافی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ جب کسی کتاب سے گزرجاتے ہیں تواس میں بیان کردہ باتوں کاایک تاثرآپ کے ذہن میں ضرور قائم رہتاہے۔ جب کبھی ضرورت پڑے توتفصیلی معلومات کوآدمی دوبارہ تازہ کرلیتاہے‘‘۔

عصرحاضرکے تناظرمیں دیکھیں تومطالعے کی اہمیت ہردن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ بوجہ یہ کہ فی الوقت دنیاایک نظریاتی کشمکش سے دوچارہیں۔ نت نئے نظریات جنم لے رہے ہیں اوراپنے حدود میں اپناسکّہ جمانے کی تگ ودوکرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ مسلسل مطالعے کے ذریعے ہم اپنے آپ کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ذہنی وفکری طورتیارکریں۔ جن عظیم انسانوں کی سیرت پڑھ کر ہم اُن کے شیدائی ہوجاتے ہیں ، اُن کی بلندی کارازبھی اُن کے کثرتِ مطالعہ میں ہی پنہاں ہوتاہے۔ علامہ شبلی پروفیسرارنالڈکے بارے میں لکھتے ہے:

’’پروفیسرآرنالڈبڑی ذی علم شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی کتاب Preaching of Islamکوعالمی شہرت حاصل ہے۔ علامہ شبلی سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ ایک مرتبہ طے پایا کہ وہ شبلی کے پاس آکران سے عربی یافارسی پڑھیں گے۔ علامہ شبلی ؔ ایک واقعہ کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ایک بارشبلی بحری جہازسے روم کے سفرپرتھی۔ اس سے آرنالڈ بھی سفرکررہے تھے۔ راستے میں جہاز میں کوئی بڑی خرابی آگئی۔ مسافروں کوپتہ چلا توسب بہت پریشان ہوگئے۔ افراتفری پھیل گئی۔ شبلی بھاگے ہوئے آرنالڈکے پاس پہنچے تودیکھا وہ کسی کتاب کے مطالعے میں محوہیں۔ کہا:’’کچھ خبربھی ہے، جہازکے ڈوبنے کااندیشہ ہیں ‘‘۔ آرنالڈ نے جواب دیا:ہاں ، مجھے معلوم ہے، اس لئے میں چاہتاہوں کہ جتنی بھی زندگی بچی ہے، کسی اچھے کام میں گزارلی جائے۔ بالآخر آٹھ دس گھنٹوں کی مشقت کے بعدجہازٹھیک ہوا‘‘۔

جاپانی قوم نے دنیاکوبہت سی مثبت چیزیں دی ہے۔ اس کارازان کے محنت کے ساتھ ساتھ ان کاکثرت مطالعہ ہے۔ مجتبیٰ حسین اپنے سفرنامہ جاپان چلوجاپان میں لکھتے ہے:’’جاپانی لوگ ٹرین میں سفر کرتے وقت ’’مون برت‘‘ رکھ لیتے ہیں۔ پلیٹ فارم پرکھڑے کھڑے کتابیں پڑھتے رہتے ہیں۔ ٹرین آتی ہے توکتاب میں انگلی رکھ کر ٹرین میں گھس جاتے ہیں اور سیٹ پر بیٹھتے ہی کتاب کھول کرپڑھنے میں لگ جاتے ہیں۔ ہمیں اکثریوں محسوس ہوتاہے جیسے ہم کسی لائبریری میں بیٹھے ہیں اورلائبریری کے نیچے پہیے لگادئے گئے ہیں۔ جاپانی یاتو پڑھتے ہیں یالکھتے ہیں ‘‘۔

 مزیدلکھتے ہیں :

’’سارے ایشیامیں جاپانی سب سے زیادہ پڑھا کوقوم ہے اوردنیا بھرمیں ان کے اشاعتی کاروبار کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے، ہم نے محسوس کیاکہ جاپانی یاتوپڑھتا ہے یا لکھتاہے۔ باتیں بہت کم کرتاہے۔ جہاں چاہیں لوگ کتابیں خریدنے اورپڑھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ٹوکیومیں ایک محلہ ہے کنداجوشہنشاہ جاپان کے محل سے متصل ہے۔ اس میں ہرطرف کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ کتابوں کی اتنی بڑی دکانیں ہم نے کہیں نہیں دیکھیں۔ ہوٹلوں اورتفریح گاہوں میں بھی کتابوں کی فروخت کاانتظام موجودہے۔ کتاب خریدنے والوں کواپنے کو اپنے علم کی پیاس بجھانے کے لئے بہت دورجانانہیں پڑتا۔ جب ذراگردن جھکائی دیکھ لی۔ چارپانچ سال کے کم عمربچے ہی بڑے ذوق وشوق سے کتابیں خریدتے ہیں بلکہ انہیں پڑھتے بھی ہیں۔ جاپان کی آبادی تقریباً ساڑھے گیارہ کروڑ ہے اورسال بھرمیں تقریباً ۸۰/کروڑکتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ گویاہرجاپانی سال بھرمیں ساڑھے چھ کتابیں ضرورخریدتاہے(ایک ہم ہیں کہ پڑھنے لکھنے کے معاملے میں اتنی شہرت رکھنے کے باوجود پچھلے تین برسوں میں ہم نے کوئی کتاب نہیں خریدی‘‘۔

قابل تعجب ہے کہ آج ذرائع ابلاغ جس سُرعت کے ساتھ مطالعے کے مواقع فراہم کررہاہے، لوگ اتنا ہی پڑھنے کی طرف کم مائل ہوتے دکھائے پرتے ہیں۔ NOP کی پیش کردہ ایک تجزیہ کے مطابق ایک انسان  ہفتے میں اوسطاً 16.6گھنٹے ٹیلی ویژن کے سامنے گزارتاہے، آٹھ گھنٹے ریڈیو سنتاہے، 8.9گھنٹے کمپویٹر اورانٹرنیٹ کی نذرکرتاہے۔ جبکہ جوچیز انسان کی فکری نشوونمامیں سب سے کلیدی رول اداکرتی ہے، یعنی مطالعۂ کتب، اُس کے لئے سب سے کم یعنی 6.5گھنٹے ہی مختص کرپاتاہے۔

وادیٔ کشمیر ایک مسلم اکثریتی خطہ ہے، اور مسلمانوں کوعلم حاصل کرنے کی تلقین وترغیب حضورؐ پرپہلی وحی یعنی اقراء کے ذریعے سے ہی کی جاچکی ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ابتدائے آفرینش سے ہی امّت مسلمہ کو علم کی طرف خصوصی رغبت رہی ہے۔ لہٰذا اس اعتبارسے باشندنانِ کشمیر کواپنی علمی میراث کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کہناپڑے گا کہ وادیٔ کشمیرمیں مطالعے کے رجحان میں قابل قدراضافہ دیکھنے کومل رہاہے۔ اس کاثبوت یہ ہے کہ آئے دن نئے نئے معیاری اخبارات وجرائد منظرعام پرآرہے ہیں۔ یہ سب ذرائع انسان کی معلومات میں بہت حدتک اضافہ توکرتی ہے لیکن صحیح اورمستندعلم کے لئے کتابوں کی طرف رجوع کرنے کے بغیرکوئی چارہ نہیں۔ وادی میں کُتب فروشوں کی تعدادمیں اگرچہ اضافہ ہوگیاہے لیکن کتابیں خریدنے کے معاملے میں ہم تاحال اس معیارسے کوسوں دورہے، جس کاترقی یافتہ قومیں اپنے افرادسے تقاضہ کرتی ہیں۔ راقم چونکہ خود ایک پبلشنگ ایجنسی سے وابستہ ہے، اس لئے کئی ایسے تجربات دیکھ چکاہے جن سے ہماری قوم میں کتابوں کے تئیں عدم دلچسپی کا پتہ چلتاہے۔ حالت یہ ہے کہ نامور قلم کارحضرات اپنی کتاب شائع کروانے کے لئے ناشرحضرات کی منّتیں کرتے دکھائے دیتے ہیں۔ شاذہی کوئی کتاب ہوتی ہے، جس کے ایک سے زیادہ ایڈیشن منظرعام پر آجاتے ہوں گے۔

یہ ساری باتیں اس ضرورت کی متقاضی ہیں کہ مطالعہ کتب کاذوق پچپن سے ہی بڑھاناچاہیے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ رول اساتذہ اوراسکول انتظامیہ اداکرسکتی ہے۔ اپنے اسکولوں میں اچھی لائبریری قائم کرنے کے بعدطلبہ کوکتابوں کامطالعہ اوربعدمیں حاصل مطالعہ کوبیان کرنے کا رواج اگرقائم کیاجائے توبچپن ہی سے ایک بچے کے اندریہ عادت گھرکرجائے گی۔ ساتھ ہی والدین کوچاہیے کہ اپنے بچوں کونئی نئی کتابیں خرید نے پر اُن کی ستائش کریں۔ مشاہدے میں آیاہے کسی جگہ اگربچہ شوق سے کوئی کتاب خریدبھی لیتاہے، تووالدین کے ڈرسے اسے چوری چھپے گھرکے اندرلے جانی پڑتی ہے۔ جس کی وجہ یہ کہ والدین کتابوں کی فروخت پرخرچہ کرنے کوپیسوں کے زیاں سے تعبیرکرتے ہیں۔ یہ صرف وادیٔ کشمیرکی ہی نہیں بلکہ تمام عالم اسلام کی حالت ہے۔ جس کی وجہ سے عالم اسلام جہالت، بے روزگاری، افلاس، مظلومی اورجمودجیسے مہلک عناصر میں مبتلاہوچکی ہیں۔ لہٰذااگر ملّت اسلامیہ دوبارہ سے دنیامیں عزت اورعروج حاصل کرناچاہتی ہے توہمیں چاہیے کہ علم کی اس متاع گم گشتہ کوپھرسے حاصل کرنے کی فکرکریں۔ کیونکہ علم کے اس زینے سے گزرے بغیرکامیابی کی بلندی تک پہنچنانہ صرف مشکل بلکہ ایک ناممکن عمل ہے۔

٭٭٭

2 تبصرے
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ایک شہسوار قلم کےلئے مطالعہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا انسانی زندگی کی بقاء کیلئے دانا اور پانی کی ضرورت ہے .مطالعہ کے بغیر قلم کے میدان میں ایک قدم بھی بڑھانا بہت مشکل ہے، علم انسان کا امتیاز ہی نہیں؛ بلکہ اس کی بنیادی ضرورت بھی ہے، جس کی تکمیل کا واحد ذریعہ یہی مطالعہ ہے . ایک پڑھے لکھے شخص کےلئے معاشرہ کی تعمیر و ترقی کا فریضہ بھی اہم ہے؛ اس لئے مطالعہ ہماری سماجی ضرورت بھی ہے ۔ اگرانسان اپنے اسکول و مدرسہ کی تعلیم مکمل کرکے اسی پر اکتفا کرکے بیٹھ جائے تو اس کے فکر و نظر کا دائرہ بالکل تنگ ہوکر رہ جائے گا . مطالعہ استعداد کی کنجی اور صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا بہترین آلہ ہے ، یہ مطالعہ ہی کا کرشمہ ہے کہ انسان ہر لمحہ اپنی معلومات میں وسعت پیدا کرتا رہتا ہے اور زاویہٴ فکر ونظر کو وسیع سے وسیع تر کرتا رہتا ہے .
    مطالعہ ایک ایسا دوربین ہے جس کے ذریعے انسان دنیا کے گوشہ گوشہ کو دیکھتا رہتا ہے ، مطالعہ ایک طیارے کی مانند ہے جس پرسوار ہوکر ایک مطالعہ کرنے والا دنیا کے چپہ چپہ کی سیر کرتا رہتا ہے اور وہاں کی تعلیمی ، تہذیبی ، سیاسی اور اقتصادی احوال سے واقفیت حاصل کرتا ہے ۔

    1. سہیل بشیر کار کہتے ہیں

      بالکل صحیح فرمایا

تبصرے بند ہیں۔