مسئلہ طلاق: احتجاجِ مسلم خواتین اور مسلم دانشوران

محمد حسن

31 مارچ 2018 کو ممبئی کے آزاد میدان میں مسلم خواتین کے طلاق ثلاثہ بل کے تئیں خاموش احتجاج سے یہ معاملہ روز روشن کی طرح عیاں وبیاں اور ظاہر وبارز ہوگیا ہے کہ چند نام نہاد مذہبی لبادہ اوڑھے کسی مذہب کی آڑ میں مذہب کو پشیماں کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان اشخاص کے تقدس کو پامال کرسکتے ہیں جن کے لئے مذہب اور شریعت زندگی کی حفاظت سے بڑھ کراہمیت رکھتا ہے اور صرف تین دنوں بعد 4 اپریل 2018 کو رام لیلا میدان، ترکمان گیٹ، دہلی میں پرزور احتجاج سے اس مبہم حقیقت اور جعلی اجمال سے پوری طرح پردہ اٹھ گیا کہ زیادہ دنوں تک کسی کو اندھیرے میں رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی اپنا فکری غلام بنایا جاسکتا ہے یہاں تک کہ بہکاوے میں رکھنے کا عمل بھی تادیر قائم نہیں رہ سکتا ہے۔ اس حقیت سے در کنار اور صرف نظر کہ أیا مسلم خواتین کا اپنی پاک دہلیز سے باہر نکلنا اور احتجاجی مظاہرہ کرنا کہاں تک درست اور شرعی پسندیدگی میں داخل ہے اور کس حد تک مغربی ثقافت کی اتباع میں شامل ہے ؟۔ میں چند سطر درج کرتاہوں، صرف اس اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے جو مسلم امت کے درمیان ہے خواہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو۔

 طلاق فوری، طلاق ثلاثہ اور حلالہ جو ایک عرصہ سے اہم مسائل بنے ہوئے ہیں ان کا حل اگر ہم شریعت میں تلاش کریں تو بہت سہل انداز اور آسان طریقے میں ہمارے سامنے پہلے یہ بات کھل کر آئے گی کہ عوام کے اندر جو طلاق کا تصور ہے یا ہم یوں کہ لیں کہ عوام جس طلاق کو جانتی ہے یا اس کے ذہن میں طلاق کی جو تعریف پیوست ہے وہ اصل لغوی اور اصطلاحی تعریف سے مختلف ہے۔ عوام یا جاہل عوام، جو شریعت کے بنیادی اصولوں اور پاک تعلیمات سے ناآشنا ہے، وہ یہ سمجھتی ہےکہ طلاق کا مطلب ہے کسی نے اپنی بیوی کو یہ کہ دیا کہ ’جا میں نے تجھے طلاق دیا‘ اور اس پر طلاق کا نفاذ ہوگیا اور طلاق ثلاثہ کی صورت میں اسی چیز کو تین مرتبہ دہرا دیا گیا اور اب میاں بیوی کے علیحدہ ہونے کا جواز بن گیا۔ ان کا ازدواجی رشتہ ختم ہوگیا۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے حرام ہوگئے اور اب کسی بنا پر رجوع کی صورت میں حلالہ کا سہارا لینا ہوگا۔ صاف لفظوں میں یوں کہ لیں کہ دوبارہ اس عورت سے نکاح کے لئے حلالہ کےعمل سے گزرنا ہوگا۔

 یہاں ایک بات بتا دوں کہ جن دنوں طلاق ثلاثہ بل عدالت میں زیر سماعت تھا اور جس دن مسلم پرسنل لاء بورڈ کو روند کر یہ بل پاس ہوا اور ہندوستان میں اس کا نفاذ ہوا، چاہے وہ فوری طلاق ہو یا طلاق ثلاثہ۔ واضح رہے کہ نام کچھ بھی دئے جا سکتے ہیں اور بعد میں تشریحات کچھ بھی کی جا سکتی ہیں۔ کوئی بھی حالت امکانیات سے خالی نہیں سوائے مبہمات کے ازالے کے۔ ان دنوں میرے ایک غیر مسلم دوست مجھ سے یہ مسئلہ لے کر الجھ پڑے اور کہنے لگے کہ کم سے کم آئین کے مطابق اس پاک اور نازک رشتے کو ختم کرنے کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے اور ایک محدود مدت کی مہلت دی جاتی ہے اور نان و نفقہ کا بندوبست کیا جاتا ہے لیکن اسلامی شریعت میں یہ صرف ایک نطق اور تلفظ ہے جوں ہی با ت زبان سے باہر نکلی حکم نافذ ہوگیا اور شریعت کے قوانین لاگو ہوگئے اس میں رجوع کرنے کی مہلت ہے نہ افسوس اور معذرت کے مواقع ہیں سوائے حلالہ کے جو ایک ذی شعور انسان کے لئے بے حد دشوار ہے، جیسے ہی یہ باتیں میرے حواس سے ٹکرائیں میرے ذہن میں ہلچل سا مچ گیا اور میں نے فورا مخاطب کرکے کہا کہ در اصل اس مسئلے کی جو شکل پیش کی جاتی ہے یا جس شکل میں آپ اس کو دیکھ رہے ہیں یہ اس سے مختلف ہے۔

اسلامی شریعت اس معاملہ میں بہت متشدد ہے اور حدیث میں اس قول وفعل کو بہت قبیح قرارد گیا ہے یہاں تک ذکر ہے کہ اللہ کی نظر میں سب سے ناپسندیدہ چیز جس کی اجازت دی گئ ہے وہ طلاق ہے۔ اور اسلامی شریعت میں طلاق دینے کی بہت سی شرطیں ہیں ان شرطوں کے مفقود ہونے پر طلاق کا اطلاق نہیں ہوگا، ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ کسی نے دبئی سے اپنی بیوی کو فون لگایا اور ایک یا تین مرتبہ طلاق بول کر فون بند کردیا اور اب رشتہ ختم ہوگیا،عورت گھر خالی کردے یا اپنے میکے چلی جائے اور دونوں اپنے راستے لگ جائیں، دونوں کے راستے علیحدہ ہوگئےاور طریق زندگی مختلف ہوگئی۔

اور پھر جب اسلامی شریعت کے مطابق طلاق کا صحیح منظرجیسے تین حیض اور حمل وغیرہ ان کے سامنے پیش گیا گیا تو کہنے لگے کہ سچ میں طلاق معمولی بات نہیں ہے بلکہ عوام میں طلاق کولے کر افواہیں ہیں جس کی روک تھام کرنے ضرورت ہے۔ وہیں پر ان کو یہ بھی بتایا گیا کہ مرد کے تعلق سے عورت کو بھی بہت سے اختیارات حاصل ہیں اور پھر آبروریزی کی صورت میں حرام اور حلال کے صحیح دلائل اور منطقی بحثوں کے بعد ان کا ذہن اعتراض سے خالی ہوا اور مجھے راحت ملی۔

یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آبروریزی کسی نے کی اور سزا کسی اور کو ملے؟ سزا کا مستحق صرف وہی ہے جس نے آبرو ریزی کی ہے کسی معصوم کو اسلامی شریعت سزا دی ہے اور نہ دے سکتی ہے۔ دنیا کے سارے قوانین عذر کے راستے ہموار کرتے ہیں اور درستگی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اسلامی شریعت میں بھی وسعت ہے اس کو تنگ نظری پر محمول نہیں کیا جاسکتا ہے۔ رہی بات طلاق کے نوعیت کی تو یہ امت مسلمہ کا اندرونی مسئلہ ہے اسلامی مفکرین اور دانشوران قوم اس کا جائز حل نکال سکتے ہیں اور اس کی وضاحت اسلامی شریعت میں حد درجہ موجود ہے اور حلالہ کے عمل کی حقیقت تو بدرجہ اولی سب کے سامنے ہے۔ طلاق مسلم پرسنل لا کا اندرونی مسئلہ ہے اور اس میں مداخلت قطعی برداشت کی جاسکتی ہے اور نہ ہی مداخلت کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

طلاق فوری یا طلاق ثلاثہ کےمسئلے میں اگر ہم فرقہ پرستی کی عینک اتار کر دیکھیں اور ہوش کے ناخن لیتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہمارے باطنی اختلافات کی وجہ سے ہماری قوم کتنی رسوا ہورہی ہے اور ہماری مائیں اور بہنیں پاک دہلیز سے باہر نکل کرسڑکوں اور بازاروں میں احتجاج کرتے ہوئے سارے عالم میں دیکھی جارہی ہیں اور ہم اپنی آنے والی دشواریوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے چشمے پر لگے ہوئے دھول کر صاف کرلیں تو سارے مسائل چٹکی میں عنقا ہوجائیں گے اور ہم زبوں حالی سے نکل کر ترقی کے راستے لگ جائیں گے۔ اور ڈفلی، ڈگڈگی بجانے والے، بجانے والیاں، ڈفلی اور ڈگڈگی بجاتے رہ جائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔