ڈاکٹر کفیل خان کو انصاف کب ملے گا؟

سشیل کمار مہاپاتر

11 اگست 2017 کو گورکھپور کے BRD ہسپتال میں Oxygen کی کمی کی وجہ سے کئی بچوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس حادثے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے نو افراد کو قصوروار مانا تھا، جس میں doctor کفیل خان بھی شامل تھے۔ یہ وہی کفیل خان ہیں، جنہیں میڈیا نے پہلے ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ بتایا تھا کہ ان کے ذریعہ انتظام کیے گئے oxygen cylinders کی وجہ سے تقریبا سو بچوں کی جان بچ گئی تھی۔ لیکن بعد میں نہ صرف لاپرواہی کا الزام لگا کر انہیں suspend کیا گیا، بلکہ کئی اور الزام کے تحت اور اموات کے لیے ذمہ دار لوگوں میں ایک بتا کر گرفتار بھی کر لیا گیا۔

گزشتہ آٹھ ماہ سے ڈاکٹر کفیل خان جیل میں ہیں۔ ابھی تک انہیں بیل نہیں ملی ہے۔ جمعہ کو ڈاکٹر کفیل کا خاندان این ڈی ٹی وی آفس پہنچا اور انتظامیہ سے متعلق بہت سے باتیں بتائیں۔ این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر کفیل خان کی بیوی نے کہا کہ جیل کے اندر ڈاکٹر کفیل خان بیمار ہیں، لیکن انہیں صحیح علاج نہیں مل رہا ہے۔ بیوی نے کہا کہ اوپری سطح کے لوگوں کو بچانے کے لیے کفیل خان کو پھنسایا جا رہا ہے۔ جان بوجھ کر ان کی بیل کو روکا جا رہا ہے۔ اس دوران کفیل خان کی خاندان نے این ڈی ٹی وی کو ایک خط دیا، یہ خط ڈاکٹر کفیل خان نے 18 اپریل کو جیل سے لکھا تھا۔ اس خط میں انہوں نے خود کو بے قصور بتایا ہے۔ کفیل خان نے لکھا ہے ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ایک ڈاکٹر کے طور پر انہوں نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ کفیل خان کے خط کے کچھ حصے ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یہ خط انگریزی میں لکھا گیا ہے، جس کا اردو ترجمہ پیش ہے:

"آٹھ ماہ سے جیل میں تشدد اور توہین کے بعد بھی آج سب کچھ میری یادوں میں زندہ ہے۔ کبھی کبھی میں اپنے آپ سے سوال پوچھتا ہوں کہ کیا میں سچ میں مجرم ہوں، تو دل کی گہرائیوں سے جواب ملتا ہے نہیں، نہیں، نہیں۔ 10؍اگست کو وہاٹس اپ پر جب مجھے حادثے کی خبر ملی تو میں نے وہ سب کیا جو ایک ڈاکٹر، ایک باپ اور ملک کے ایک ذمہ دار شہری کو کرنا چاہیے۔ میں نے تمام بچوں کو بچانے کی کوشش کی، جو آکسیجن کی کمی کے وجہ سے خطرے میں تھے۔ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے معصوم بچوں کو بچانے کے لیے میں نے اپنے پوری کوشش کی۔

میں نے سب کو فون کیا، گزارش کی، آکسیجن کا آرڈر کیا اور میں نے وہ سب کچھ کیا، جو مجھ سے ہو سکتا تھا۔ میں نے اپنے HOD کو فون کیا، اپنے دوستوں کو فون کیا، BRD ہسپتال کے پرنسپل کو فون کیا، BRD کے ایکٹنگ پرنسپل کو فون کیا، گورکھپور کے DM کو فون کیا اور سب کو آکسیجن کے کمی کے وجہ سے ہسپتال میں پیش آئے سنگین حالات کے بارے میں بتایا۔ ہزاروں بچوں کو بچانے کے لیے میں گیس سپلائر کے پاس گڑگڑايا بھی۔

میں نے ان لوگوں کیش دیا اور کہا کہ سلینڈر ڈِلیور ہونے کے بعد باقی ادائیگی ہو جائے گی۔ لکوِڈ سلنڈر کے ٹینک پہنچنے تک ہم 250 سلینڈر جگاڑ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ایک جمبو سلینڈر کی قیمت 250 روپے تھی۔ میں ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ بھاگ رہا تھا۔ یہ بھی نظر رکھ رہا تھا کہ آکسیجن سپلائی کی کمی نہ ہو۔ آس پاس کے ہسپتال سے سلینڈر لانے کے لیے میں خود ڈرائیو کرکے گیا۔ جب مجھے لگا یہ زیادہ نہیں ہے، تب میں SSB پہنچا اور اس DIG سے ملا اور حالات کے بارے میں بتایا۔ DIG کے جانب سے فوری طور پر مدد کی گئی۔ BRD ہسپتال سے گیس ایجنسی تک خالی سلینڈر ٹینک پہنچانے اور انہیں بھر کر ہسپتال پہنچانے کے لیے ایک بڑے ٹرک کے ساتھ کئی فوجی فوری طور پر بھیج دیے گئے۔ وہ لوگ 24 گھنٹے تک اس کام میں لگے رہے۔ میں SSB کو سیلوٹ کرتا ہوں اور ان کی مدد کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

میں نے اپنے جونیئر اور سینئر ڈاکٹر سے بات کی، اپنے اسٹاف کو پینِك نہ ہونے کے لیے کہا، ناراض لوگوں سے غصہ نہ کرنے کے لیے کہا۔ سب کی زندگی بچانے کے لیے ایک ٹیم کے طور پر ہم نے سب کام کیے۔ جن پریواروں نے اپنے بچے کھوئے تھے میں نے انہیں تسلی دی۔ میں نے ان پریواروں کو بھی سمجھایا جو اپنا بچہ کھونے کے وجہ سے پریشان اور ناراض تھے۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ لکویڈ O2 ختم ہو گیا ہے اور اور ہم جمبو آکسیجن سلینڈر سے کام چلا رہے ہیں۔ لکویڈ آکسیجن کے ٹینک پہنچنے تک ہم نے اپنی سی کوشش جاری رکھی۔ 13 تاریخ کی صبح وزیر اعلی یوگی مہاراج ہسپتال پہنچے اور مجھے پوچھا کہ کیا آپ ڈاکٹر کفیل ہیں اور آپ نے سلینڈر جگاڑ کیے ہیں؟ تو میں نے "ہاں” میں جواب دیا۔ یوگی غصے میں آگئے اور کہا کہ آپ کو لگتا ہے سلینڈر جگاڑ کرنے سے آپ ہیرو بن جائیں گے۔ میں اسے دیکھتا ہوں۔ یوگی جی اس حادثے کے میڈیا میں آجانے کی وجہ سے ناراض تھے۔ میں اللہ کے نام پر قسم کھا کر کہہ رہا ہوں کہ کسی بھی میڈیا کو میں نے اس رات انفارم نہیں کیا تھا۔ میڈیا اپنے آپ وہاں پہنچا تھا۔

پولیس ہمارے گھر آنے لگی، ٹارچر  کرنے کے ساتھ ساتھ میرے گھر والوں کو دھمکی دینے لگے۔ لوگوں نے مجھے کہا کہ پولیس مجھے انکاؤنٹر میں بھی مروا سکتی ہے۔ میرے گھر کے لوگ پورے طور سے ڈرے ہوئے تھے۔ اپنے خاندان کو بچانے کے لیے میں نے یہ سوچ کر سرینڈر کر دیا کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا ہے اور مجھے انصاف ملے گا، لیکن نہیں۔ دن گزر گئے، ہفتے گزر گئے، ماہ گزر گئے، اگست 17 سے لے کر اپریل 18 تک ہولی آئی، دشہرہ آیا، کرسمس بھی نکل گیا، نیا سال آیا، دیوالی بھی چلی گئی۔ مجھے لگتا تھا کہ بیل مل جائے گی، لیکن اب لگنے لگا ہے کہ عدلیہ بھی دباؤ میں کام کر رہی ہے، زندگی، میرے لیے اور میرے خاندان کے لیے جہنم بن گئی ہے۔ انصاف کے لیے میرا پریوار ایک جگہ سے دوسرے جگہ چکر لگا رہا ہے۔ پولیس اسٹیشن، کورٹ، گورکھپور سے الہ آباد، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ میری بیٹی کی پہلی سالگرہ بھی میں نہیں منا پایا۔ اب وہ ایک سال سات ماہ کی ہو گئی ہے۔

10 اگست کو میں چھٹی پر تھا(چھٹی میرے HOD نے سینكشن کی تھی) لیکن پھر بھی اپنی ڈیوٹی ادا کرنے کے لیے میں ہسپتال پہنچا۔ میں ہسپتال کا سب سے جونیئر ڈاکٹر تھا۔ میں نے 8/8/2016 کو ہسپتال جوائن کیا تھا۔ میں NHRM میں نوڈل افسر کے طور پر کام کرتا تھا اور padiatrics کے لیکچرز کے ذریعے طالب علموں کو پڑھاتا تھا۔ میں کہیں بھی سلینڈر خریدنے، ٹینڈر لینے، آرڈر کرنے اور پیمینٹ کرنے کرانے کے کام  میں شامل نہیں تھا۔ اگر پشپا سیلز نے سلینڈر دینا بند کر دیا تو اس کے لیے میں کس طرح ذمہ دار ہوں؟ طبی فیلڈ کے باہر کا ایک عام آدمی بھی کہہ سکتا ہے کہ ڈاکٹر کا کام علاج کرنا ہے نہ کہ سلینڈر خریدنا پیچنا۔ مجرم تو گورکھپور کے DM، DGME، ہیلتھ اور ایجوکیشن کے پرنسپل سکریٹری ہیں، کیونکہ پشپا سیلز کا 68 لاکھ کی بقایا رقم ادا کرنے کے لیے 14 بار یاد دہانی کے بعد بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

یہ انتظامیہ کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ ہم لوگوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا اور ہم لوگوں کو جیل کے اندر ڈالا گیا، تاکہ سچائی گورکھپورکے جیل میں ہی رہ جائے۔ جب منیش کو بیل ملی، تو ہمیں بھی لگا کہ انصاف ملے گا اور ہم اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ خدمت کر سکیں گے۔ لیکن ہم لوگ اب بھی انتظار کر رہے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ وقت آئے گا کہ جب میں آزاد ہو جاؤں گا اور اپنے بیٹی اور خاندان کے ساتھ رہنے لگوں گا۔ انصاف ضرور ملے گا۔‘‘

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔