مطرّف بن شخیر ؒ 

رسول اکرم ﷺ کے صحابی عبد اللہ بن شخیر کے صاحبزادے مطرف بن شخیر بزرگ تابعی تھے۔ آپ کی امامت و پیشوائی مسلم تھی۔ متعدد صحابہ سے احادیث اخذ کیں، صحابہ کے پاکیزہ ماحول اور ایمانی فضا میں نشو و نما پائی۔ اس لئے آپ کی شخصیت ایمان و عمل کا پیکر بن کے چمکی۔ جس کے چند پہلو یہ ہیں:
نفس کے خطرات سے آگاہی :
مطرف بن شخیر نفس کی حقیقت و ماہیت سے باخبر تھے۔ اس کا اندازہ ان کی اس بات سے ہوتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
انسان، اللہ اور شیطان کے بیچ میں ہے۔ اگر اس کے دل میں خیر ہوتا ہے تو اللہ اس کو اپنی جانب کھینچ لیتاہے۔ اور خیر نہیں ہوتا تو اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ اور جس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔ کیونکہ نفس بھلائی و نیکی کی طرف کھینچ کے اس کو نہیں لے جائے گا۔ (الزہد: 242)
لہذا جس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے وہ بڑے خطرے میں گھر جاتا ہے جس سے بچنا بہت مشکل ہے۔
محاسبۂ نفس
مومن کے دل میں کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ اللہ کے پاس پہنچ کر اس کو کیا ملے گا؟ چونکہ یہ ایک غیبی بات ہے اس لئے کوئی کتنے ہی ایمان و علم کا مالک ہو، یہ بات اس کو نہیں معلوم ہو سکتی کہ اللہ نے اس کے لئے کیا فیصلہ کیا ہے؟ اس کو جنت دے گا یا کچھ اور؟ لیکن جب بار بار یہ خیال انسان کے دل میں آئے تو اس کو احتساب کرنا چاہئے کہ آخر اللہ کے اوامر و نواہی کی اس نے کتنی پابندی اور بجا آوری کی ہے۔ جس شخص کو اس طرح کا خیال آئے ، مطرف اس کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:
’’ جو شخص آخرت کی اچھائی یا برائی جاننا چاہتا ہے اس کو صرف اس بات پر غور کر لینا چاہئے کہ اس کے پاس اللہ کی طاعت کتنی ہے؟ ‘‘ (الزھد: 242)
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان زیادہ نیکیاں کرتا ہے تو نیکیوں کی وجہ سے دوسروں پر اپنی بڑائی و بزرگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ قرآن کی آیات ترہیب اس کے لئے نہیں ہیں۔ اس کے لئے تو صرف وہ آیات ہیں جن میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ ایسے موقع پر نفس سے ہوشیار رہنا نہایت ضروری ہے۔ حضرت مطرف بن شخیر نفس کی وسوسہ کاری سے کبھی غافل نہ رہتے۔ چنانچہ حج کے موقع پر میدانِ عرفات میں اپنے ایک ساتھی سے انھوں نے کہا ’’ میدانِ عرفات میں کیسے کیسے نیک لوگوں کا اجتماع ہے، ان میں صرف میں ہی ایک گنہگار ہوں۔ دوسرے نے کہا: اے اللہ میری وجہ سے ان کو اپنی رحمت سے محروم نہ کر۔ (الزھد: 244)
یہبات یاس و قنوطیت کا مظہر نہیں ہے بلکہ صرف اس احساس پر مبنی ہے کہ زیادہ سمجھ کر مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ زیادہ سے زیادہ عمل کی کوشش ہمیشہ جاری رکھنی چاہئے اور جتنا بھی زیادہ عمل ہوجائے اس کو کم ہی سمجھا جائے تاکہ عمل کا جذبہ سرد نہ پڑ جائے اور انسان ہمیشہ عمل میں کوشاں رہے۔
خود پسندی سے بچنے کی تربیت
تابعین کرام خود پسندی سے بہت ڈرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ نفس کی بہت بڑی کمزوری ہے اور اس کا شکار ہو کر انسان عمل میں سہل انگاری کرنے لگتا ہے۔ اسی خوف و ڈر کی وجہ سے حضرت مطرف فرماتے ہیں:
رات بھر سونا اور صبح کو ندامت کے آنسو بہانا میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ رات بھر نماز پڑھی جائے اور صبح کو خود پسندی اور دوسروں کے مقابلے میں اپنی برتری کی نمائش کی جائے۔ (سیر اعلام النبلاء: 4؍1۹0)
کیونکہ جو عبادت بندگی کے احساس کو قوت دینے کے بجائے غرور کا باعث ہو وہ بینتیجہ ہے۔ اسی لئے حضرت مطرف بصراحت کہتے ہیں:
’’ جس مجلس میں بھی میری تعریف کی گئی، مجھے اس سے دکھ ہوا۔ ‘‘
جب تابعین کرام کو اپنی تعریف سن کر دکھ ہوتا تھا، تم ہم کیوں اپنی تعریف سن کر خوش ہوتے ہیں۔ ہم کو تو ان سے زیادہ اپنے نفس سے ڈرنا چاہئے۔
اخوت کی لگن
اخوت بھی اصلاح نفس کا ایک ذریعہ ہے۔ کیونکہ ایک مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ کی مانند ہے۔ اس لئے نیک لوگ اللہ واسطے کی اخوت کے بڑے دلدادہ و مشتاق ہوتے ہیں، تاکہ یہ نیک لوگ نفس کی اصلاح و تربیت میں معین و مددگار ثابت ہوں۔ اسی خیال سے تابعین اخوت کے حقوق کی بڑی رعایت کرتے تھے۔ حضرت مطرف فرماتے ہیں:
نیک ہمنشیں تنہائی سے بہتر ہے اور تنہائی بد ہمنشیں سے بہتر ہے۔ (الزھد: 241)
جب کوئی رہنمائی کرنے والا نہ ہو تو تنہا رہنا اس سے بہتر ہے کہ ایسے شخص کی ہمرہی اختیار کی جائے جو شیطان اور بدی کے راستہ پر لگا دے۔
مطرف کہتے تھے نیک دوستوں کی ملاقات اہل و عیال کی ملاقات سے بہتر ہے۔ اہل و عیال کہیں گے اے ابو، اے ابو اور نیک دوست میرے لئے دعائے خیر کریں گے۔ (الزھد:242)
وہ فرماتے ہیں : کوئی بیوہ جتنی محتاج ہوتی ہے اس سے زیادہ میں نیک دوستوں کا محتاج ہوں۔ ( الزھد: 245)
دعا کی تربیت
حضرت مطرف بن شخیر دعا کو صرف تربیت کاایک وسیلہ ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے سرتاپا خیر و فلاح تصور کرتے تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
میں نے بڑی کوشش کی اور غور و فکر سے بھی بہت کام لیاتاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کون سی چیز خیر و برکت کی جامع ہے۔ بہت سی چیزیں حسنات و خیرات سے پر ہیں۔ روزہ ، نماز وغیرہ سب خیر ہی خیر ہیں لیکن روزہ نماز کا سارا خیر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب اس سے مانگا جائے گا تب وہ دے گا اور جب ہر خیر مانگنے پر ہی منحصر ٹھہرا تو پھر دعا تمام خیر و برکت کی جامع ٹھہری۔ (الزھد: 244)
دعا ہر طرح کے خیر و برکت کی جامع کیوں ہے؟ اس کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ دعا اپنی بے بسی و ناتوانی کا اظہار ہے اور اللہ کی بے پایاں قدرت کے یقین کا مظہر۔ اسی کے ساتھ اپنی محتاجی اور اللہ کے غنی ہونے کا عقیدہ و ایمان کا اعلان ہے۔ اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے دعا کو اصل عبادت قرار دیا۔ فرمایا: ’’ الدعاء ھو العبادۃ ‘‘ (دعا اصل عبادت ہے۔) حضرت مطرف یہ دعا اکثر مانگا کرتے تھے:
’’ اے اللہ ! مجھے اپنی امان میں رکھ، بادشاہوں کے شر سے ، ان کے قلم کے شر سے، اس بات کے شر سے کہ میں کوئی موجب رضابندگی کی بات کہوں اور تری رضا کے سوا کوئی دوسری شے چاہوں، اس کام کے شر سے جو تیرے یہاں رسوائی کا موجب ہو، اس بات کے شر سے کہ تو نے جو علم مجھ کو عطا کیا ہے اس کی سعادت میں کوئی دوسرا مجھ سے آگے بڑھ جائے، اس بات کے شر سے کہ میں دوسروں کے لئے عبرت کا سامان بنوں، اس بات کے شر سے کہ مجھ پر کوئی افتاد پڑے تو اس سے چھٹکارا پانے کے لئے کسی معصیت کا سہارالوں۔‘‘ (الزھد: 242)
پناہ طلب کرنے کا مطلب ہے قوی تر کا سہارا لینا، اللہ تعالیٰ سب سے قوی تر ہے۔ اس لئے اسی کا سہارا صحیح معنوں میں سہارا ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جہاں بندے کو امان ملے۔ اس لئے اپنی دعا کا آغاز بیرونی شر سے بچاؤ اور حفاظت کی التجا سے کیا۔ بیرونی شر میں بے راہ سلاطین و امراء کا شر سب سے نمایاں تھا۔ اس لئے پہلے اس سے پناہ مانگی، اس کے بعد داخلی شر سے پناہ مانگی۔ داخلی شر میں سب سے خطرناک ریاتھی۔ اس لئے اس سے ابتدا کی۔ پھر دوسرے عام شر سے پناہ مانگی۔ پھر آخر میں اس سے پناہ کی دعا مانگی کہ مصیبت کے وقت صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جاتا رہے۔ دعا کے معانی و مطالب پر غور کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ الہامی دعا ہے۔ یہ الہام اسی کو ہو سکتا ہے جس نے نفس کی تربیت تابعین کے طریقہ اور ان کے اصول کے مطابق کی ہو۔ جس کے نتیجہ میں اس کا دل ان تمام شرور کے خوف سے لبریز ہو کر اللہ تعالیٰ کو اپنا سہارا بنالے تاکہ وہ اپنی رحمت و قدرت کا سہارا دے کر اس کو اس شر سے بچا لے۔

تبصرے بند ہیں۔