مظلوم روہنگیا اورخودساختہ امن کی فاختہ سوچی

ہلال احمد

روہنگیامسلمانوں کی سسکتی بلکتی اوردل دہلادینے والی ویڈیوزگزشتہ کئی برسوں سے منظرعام پرآرہی ہیں جس میں نہتے مسلم نوجوانوں بچوں بوڑھوں اورعورتوں کوبدھسٹ دہشت گردوں کے ذریعہ جلایاجاتاہے، معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔ برمافوج اوربدھسٹوں کی ذریعہ جاری مشترکہ نسلکشی وفوجی تشددسے زائدازچارلاکھ روہنگیابنگلہ دیش سمیت دیگر ملکوں میں پناہ لینے پرمجبورہیں ، خوداپنی ہی زمین ان کے لیے سمیٹ دی گئی ہے متاثرین کے خوف ودہشت کاعالم یہ ہے کہ اپنے ملک واپس جانے کے بجائے موت کو گلے لگالینے کوترجیح دینے کی بات کرتے ہیں ، برماحکومت کی بے حسی میں آئے دن اضافہ ہوتاجارہاہے ایوان میں بیٹھے حکمراں زہرافشانی کرنے اورفوج کی دفاع کرنے میں مصروف ہیں ۔ انسانیت کے جنازے کاکھلا نظارہ ساتوں زمین وآسمان کرکے اشکبارہیں ، ادھرکچھ دنوں سے مظلوم روہنگیامسلمانوں کی حمایت میں دبی دبی زبانوں میں آوازیں  بلندہونے لگیں ہیں ، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل مسٹر انٹونیو گتیریس نے گزشتہ روز جنرل اسمبلی میں روہنگیا مسئلے پر اعلی سطح کی بحث کے افتتاحی خطاب میں کہا کہ ’’برما کے جنوبی صوبہ راخین میں نسلی تشدد اور کشیدگی میں ڈرامائی اضافہ پر ہم سب حیران ہیں ۔

نہتے لوگوں پر ظلم و زیادتی، امتیازی سلوک، ظالمانہ تعصب اور پر تشدد جارحیت کا دور جاری رہنے کی وجہ سے چار لاکھ سے زیادہ افرادکیمپوں میں رہنے پر مجبورہیں ، جس سے علاقائی استحکام کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے‘‘جہاں ایک طرف عالمی لیڈران اورہیومن رائٹس واچ نے میانمارکی حکومت اورفوج پر سخت پابندی کا مطالبہ کیاہے وہیں دوسری جانب امن نوبل ایوارڈیافتہ آنگ سان سوچی نے عذرگناہ بدترازگناہ کرتے ہوئے اس انسانیت سوزنسل کشی کا ذمہ خود انہیں مظلومین کے سرمنڈھنے کی کوشش کی ہے انہوں نے کہاکہ ’’ہم پورے ملک میں امن و استحکام اور قانون کی حکمرانی بحال کرنے کے لئے پابند عہد ہیں ، 70 سال سے ملک کو امن و استحکام کی ضرورت تھی جس کے لیے راخین میں امن قائم کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنانے کی کوشش کی گئی لیکن روہنگیا کمیونٹی کے لوگوں نے پولس چوکیوں اور بے گناہ لوگوں پر حملے کئے‘‘۔

 روہنگیا بحران پر چوطرفہ تنقید کا سامنا کر نے والی میانمار کی اسٹیٹ کونسلر آنگ سان سو چی نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے ڈکٹیٹرشپانہ خطاب میں کہا’’میانمار حکومت کا ارادہ کسی بھی طرح تنقید سننے کا نہیں ہے، کسی بھی صورت میں ملک کی سلامتی سے سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ روہنگیا بحران پر وہ عالمی دباؤ میں نہیں آئیں گی اور ان کی حکومت ملک کے استحکام اور قانون کی حکمرانی کے لئے پابند عہد ہے‘‘۔ امن کی نام نہاد فاختہ سوچی نے قوم کے درمیان اس خطاب میں مسلمانوں کے خلاف ہورہے تشدداوردہشت گردی میں ملوث فوج کی ناتو مذمت کی اورناہی نسل کشی کے خاتمے کی بات کہی۔ بے شرمی اورامن نوبل کی توہین کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ راخین میں روہنگیامسلمانوں کی نصف سے زائد بستیاں اب بھی آبادہیں ۔ گویادبے لفظوں میں انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ بقیہ نصف آبادی ظلم وتشدداوربدھسٹی وفوجی بربریت کاشکارہوئی ہے۔

روہنگیامسلمانوں کی ظلم کی ویڈیوز سوشل میڈیاپر آتی رہتی ہیں جسے دیکھ کران کی حیوانیت کااندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ کس طرح بے سروسامان شہریوں کواسلحوں سے لیس فوج گولیوں سے بھون دیتی ہے۔  گوتم بدھ کے عقیدت مندنہتے لوگوں کوہجوم کی شکل میں خاک وخون میں غلطاں کردیتے ہیں ۔ یہ بحران اتناسنگین ہے کہ ہرانسانیت نواز مغموم اورمتفکرہے۔  کئی ممالک نے روہنگیامسلمانوں سے ہمدردی کااظہارکرتے ہوئے بھرپورامدادکی جانب قدم بڑھایاہے جس میں سرفہرست مملکت توحیدسعودی عرب کے فرمانرواں شاہ سلمان بن عبدالعزیزہیں انہوں نے روہنگیامہاجرین کی مددکے لیے دیڑھ کروڑڈالرکی امدادی رقم کااعلان کیاہے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ پہلے ہی اپنے بساط بھرتعاون کے لیے اپنے ملک کادروازہ پناہ گزینوں کے لیے کھول رکھاہے۔

 بایں ہمہ انسانیت کے ناطے سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کی مدد کی جائے اوردنیاکے پاورفل ممالک برماحکومت پر اس بات کادباؤبنائیں کے وہاں پرروہنگیاکے ساتھ ہورہے بدترین سلوک پرقدغن لگائی جائے اورامن وامان بحال کیاجائے بصورت دیگربرماحکومت کابائیکاٹ کیاجائے اورجمہوری طرز پراحتجاج ریکارڈ کرائے جائیں ،  کھلی جارحیت اور مظلوم روہنگیا کے حق میں آوازبلندکرناانسانیت نوازی ہوگی تاہم ملک عزیزمیں برسراقتدارجماعت جانبداری کامظاہرہ کرتے ہوئے روہنگیاؤں کودوبارہ اسی آگ کے لپیٹ میں واپس بھیجنے کاارادہ رکھتی ہے اس سلسلے میں حکومت ہندنے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کر تے ہوئے کہا ہے کہ ان کا غیر قانونی طریقے سے آنا اور رہنا ملک کی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہے۔

پندرہ صفحات پر مشتمل مرکز کے حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ایسے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ ہے۔ حلف نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ کچھ روہنگیا کے پاکستانی دہشت گرد تنظیموں سے منسلک ہونے کی بھی اطلاعات سیکورٹی اداروں نے دی ہیں ۔ حلف نامے میں حکومت نے واضح طورپرکہا ہے کہ ایسے روہنگیا پناہ گزین جن کے پاس اقوام متحدہ کے دستاویزات نہیں ہیں ، انہیں  ہر حال میں ملک سے جانا ہوگا۔ مرکزی حکومت نے پیش قدمی کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے درخواست بھی کرڈالی کہ روہنگیامعاملہ میں عدالت دخل نہ دے یہ حکومت کامسئلہ ہے۔

 بہرحال ہرملک کی اپنی پالیسی ہوتی ہے جس میں سب سے اہم اپنے شہریوں اورملک کاتحفظ ہوتاہے۔ تاہم انسانیت نوازی میں آگے رہنے والے ہندوستان کویہ ہرگززیب نہیں دیتاہے کہ وہ اس طرح کارویہ اختیارکرے۔ کسی بھی ملک میں ستائے گئے لوگ جو بھی مناسب راستہ پاتے ہیں جان بچاکربھاگتے ہیں چاہے وہ شام میں تشدد کاشکارہوئے لوگ ہوں یا پاکستانی اورتیبتی ہندو، روہنگیا ہی کودیکھ لیجئے کہ کس طرح ندی نالوں اورسمندروں کوعبورکرکے دوسرے محفوظ مقامات پرپہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اورکچھ جاں بحق بھی ہوجاتے ہیں ۔ بھاگتے وقت بس اپنے جان کے علاوہ کسے غیرملکی کاغذات کی فکر رہی ہوگی۔ ہندوستان ایک جمہوری اورسپرپاورملک ہے اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خودپیشقدمی کرتے ہوئے ان کے تحفظ کی راہ ہموارکرے، برماحکومت کو اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے مجبورکرے بصورت دیگرروہنگیامظلومین کوواپس کرناہماری بے حسی پر دال ہوگی۔ ملک کے پانچ ناموروکلاء روہنگیاکی حمایت میں آگے آئے ہیں جن کی ستائش کی جانے چاہیے۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے یہاں آئے ہوئے لوگوں کاخیال کرے؛ سیاست سے ماوراء انسانیت کالحاظ رکھے جوکہ قدیم ہندوستان کی تاریخ رہی ہے۔

قابل غوربات ہیکہ ہندوستان کامؤقف بھی کچھ واضح نہیں ہے کیونکہ ایک طرف وہ بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کوامدادفراہم کرتااوردوسری جانب ملک میں پناہ گزینوں کو باہرکا راستہ دکھانے کی کوشش بھی۔ معلوم ہوکہ جنوبی برماکے راخین میں گزشتہ  25 اگست سے شروع ہونے والی پر تشدد کارروائی کے بعد سے اب تک تقریبا چار لاکھ سے زیادہ روہنگیا عوام بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں ۔ ہندوستان میں پناہ گزیں روہنگیاہماری ہمدردی کے متقاضی ہیں انہیں الزام تراشی اوربے جاخدشات کے ذریعہ ملک بدرکرنے کوشش نہ کی جائے توہندوستان کی شبیہ بین الاقوامی طورپرمزیدمستحکم ہوگی اوریہی ہماری پہچان بھی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔