معاشرے کی تعمیر میں آسان نکاح کا کردار

خان عرشیہ شکیل

يا يها الناس اتقوا ربكم …..  (سوره النساء)

اسلام ایک مکمل  نظام حیات ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں کیا طریقے کار اپنایا جاۓ۔کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے ، پوری رہنمائی ملتی ہے۔

العمد للہ نکاح کی شرعی حیثیت اس کے فوائد  نیز غیر شرعی طریقے سے نکاح  کے نقصانات  بھی بیان کیے گئے ہیں۔

سورہ نساء کی آیت 25میں ارشاد باری تعالی ہے:

ان کے سر پرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح  کرلو اور معروف طریقے سےان کے مہر ادا کروتاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ  ہو کررہیں۔ نہ آزاد شہوت رانی کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں۔

اسلام میں نکاح ایک عبادت ہے، جہاں مرد  و عورت  اللہ  کے بتائے ہوۓ طریقے  سے میاں بیوی  بننے کا معاہدہ  کرتے ہیں۔

انسانی نسل کی بقا،انسان کی فطری  ضرورتوں  کی تکمیل  کا واحد اور مقدس ذریعہ نکاح ہے۔

اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری  جنس سے بیویاں  بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے  درمیان محبت   اور رحمت پیدا کردی یقیناً  اس میں بہت  سی  نشانیاں  ہیں ان لوگوں  کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔(سورہ روم ۔۔آیت 21)

عبداللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا  ۔”جو تم میں سے نکاح  کے خرچ کی استطاعت رکھتا ہو وہ نکاح کرلیےکیونکہ  یہ نگاہ کو نیچارکھتا اور شرم گاہ کی حفاظت  کرتا ہے۔اور جو نکاح کی استطاعت  نہیں رکھتااسے چاہیے کہ شہوت  کا زور توڑنے کے لۓ روزہ رکھے۔ نکاح  کی بنیاد ہی تقوی  پر رکھی گئی خطبہ  نکاح  میں تین  آیات تقوی پر  ہے۔

1)اے لوگو۔ڈرو اپنے رب سے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا۔

2)اللہ  سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔

3)اے ایمان والو۔اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو

تین آدمی ایسے ہیں جن کی مدد اللہ  نے اپنے اوپر لازم کررکھی ہے

اللہ  کی راہ میں جہدوجہد کرنے والا مجاہد

وہ غلام جو آزادی کے لۓ اپنے مالک کو پیسوں کی ادائیگی کرتا ہے۔

وہ شخص  جو برائی سے بچنے کےلۓ نکاح  کرے۔

رسولﷺ نے فرمایا ۔تمہارے  پاس اگر ایسے شخص  کا رشتہ آئے جن کے دین واخلاق سے تم مطمئن  ہو تو اس کے ساتھ اپنی لڑکی کی شادی کردو۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ پھیلے  گا۔ (ترمذی)

نکاح کے چھ شرعی اعمال  ہیں ہیں:

دو فرائض: ایجاب و قبول اور دو گواہ

تین سنیتں: خطبہ  نکاح، تقسم چھوہارے، ولیمہ

ایک واجب: مہر

لیکن ہم نے درج بالا احکام پر عمل کرنے کے بجائے نکاح  کو تضح و رسم و رواج کا رنگ دے کراسے اسلامی رنگ سے بہت الگ کردیا۔

رسم رواج کی اخرافات

مایوں،ہلدی،مہندی،جوتا چھپائی ،چوتھی اوربارات ان تمام رسموں میں دھڑلے سےپیسہ،وقت کا ضیاع  ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ہی میوزک،ناچ گانے،ویڈیو گرافی کی جاتی ہے۔باراتیواں کے انواع و اقسام کے کھانوں کی فرمائش   کی جاتی ہے۔ باراتیواں کے لۓ قمیتی تحائف مہیا کی جاتی ہے۔ یہ لڑکی  والوں پر اضافی بوجھ ہوتا ہے۔ باراتیواں کے استقبال میں ذرا سی کمی وبیشی پر لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں ۔بعض  وقت شادی بھی  ٹوٹ جایا  کرتی ہے۔

جہیزکی لعنت

جہیز ایک ہندوانہ رسم ہے۔ لیکن آج کل یہ مرض مسلم معاشرے میں وبا  کی طرح پھیل چکا ہے۔90%جہیز کی ڈیمانڈ لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے وہیں 40% لڑکی والے اپنی مرضی سے جہیز دیتے ہیں۔

لڑکے والے چاہتے ہیں جو کمائی  بیٹے  کی تعلیم پر خرچ کی گئی وہ لڑکی والوں  سے وصول  کرے۔دوسری وجہ ہم نے اپنی بیٹی کو جہیز میں سب کچھ دیا ہم کیوں نہ لیے۔ وہ لوگ اپنی بیٹی کو دے رہے ہیں وہ استعمال  کریےگئ۔ہم تو نہیں لیے رہے۔ تیسری وجہ  دنیا کیا کہہ گی کہ ایسے گھر سے رشتہ جوڑے جہاں کچھ نہیں ملا۔

لڑکی والے بھی سمجھتے معاشرہ کو کیا  منہ دیکھینگے کہ بیٹی کو خالی ہاتھ رخصت کردے۔ اگر زیادہ جہیز دے گے تو سسرال میں عزت بنی رہیگی۔ وراثت  میں حصہ  نہ دینے کی نیت بھی کار فرما ہوتی ہے۔

فاطمی جہیز کو بنیاد بنا کراسے ایک باقاعدہ رسم بنایا گیا۔حقیقت یہ ہے کہاحضرت علی رضی اللہ  عنہ بہت ہی کم عمری  سے آپﷺ کے سر پرستی میں  پرورش پا رہے تھے۔ آپ کے پاس کوئی اپنا گھر تھا نہ کوئی  اثاثہ ۔ایسے حالات میں آپﷺ نے محسوس  کیا کہ شادی کے وقت وہ چیزیں  مہیا کر دی جائے جو روز مرہ کی ضرورت  تھی۔یہ تمام چیزیں  حضرت حضرت  علی رضی اللہ  عنہ کی زرہ بیج  کر حاصل کی گئی۔ اس کے علاوہ کوئی  اور مثال  ایسی نہیں ملتی  کہ آپ ﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادیوں کی شادی کے موقع  پر کچھ دیا ہو۔

شادی  کے نام پر ہونے  والے خرافات کا سلسلہ  بہت  داراز ہے۔ہم شرعی طریقے سے نکاح  کرکے ایک  سنت زندہ کر کے اللہ  کی خوشنودی حاصل  کر سکتے ہیں۔لیکن ہم غیر شرعی  طریقے سے شادیاں کرکے اللہ  کی ناراضگی  مول لیے رہے ہیں اور سماج میں پھیلی برائیوں کے ہم  خود ذمہ دار ہے۔

نکاح  کی ترغیب  کے ساتھ ساتھ اللہ  کے رسولﷺ نے نکاح  کو آسان بنانے کی نصیحت  کی۔وہ نکاح  با برکت ہوتا ہے جو خرچ کے اعتبار سے آسان ہو۔

بے جا اسراف کے نقصانات

شادیوں میں تاخیر  ہورہی ہے۔۔غریب  خاندان  کی بیٹیاں گھر کی دہلیز  پر بوڑھی  ہوتی جارہی ہے۔غریب  ماں باپ اپنا گھر بیج  کر بیٹیوں  کی شادیاں کرتے ہیں اور خود بے گھر ہو جاتےیا پھر سود سے رقم حاصل  کرتے اس کی قسط بھرتے بھرتے بوڑھے ہو جاتے۔

نوجوان  لڑکے اور لڑکیاں  گھر سے بھاگ کر شادیاں رچاتی یا پھر آزادی  کے نام پر لیو ان ریلیشن شپ کے نام پر زنا کے مرتکب ہوتے۔

نکاح  کے معنی حصن یعنی قلعہ کے ہیں۔گویا نکاح  کرکے زوجین ایک ایسے قلعے  کی پناہ حاصل حاصل کر لیتے ہیں جو انھیں بے عفتی سے محفوظ  رکھتا ہے۔

ہر کوئی  اپنے تئیں عہد کرلے کہ وہ شرعی طریقہ  سے نکاح کریے گا تو انشاء اللہ معاشرے  بہت سی برائیوں  سے بچ جاۓ گا۔اور نکاح  کی برکات سے فیض یاب ہوگا۔

اللہ  سے دعا ہے کہ ہمیں پختہ ارادے کے ساتھ عملی اقدام  کرنے والا بنائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔