معبود برحق کی عبادت و اطاعت

ابو محمد حمزہ

 لوگو ! بندگی اختیار کرو اپنے اُس ربّ کی جو تمہارا اور تم سے پہلے لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالق ہے، تمہارے بچنے کی توقع اِسی صورت سے ہو سکتی ہے۔‘‘

اگرچہ قرآن کی دعوت تمام انسانوں کے لیے عام ہے، مگر اس دعوت سے فائدہ اُٹھانا یا نہ اُٹھانا لوگوں کی اپنی آمادگی پر اور اس آمادگی کے مطابق اللہ کی توفیق پر منحصر ہے۔ لہٰذا سورۃ البقرہ میں پہلے انسانوں کے درمیان فرق کر کے واضح کر دیا گیا کہ کس قسم کے لوگ اس کتاب کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور کس قسم کے نہیں اُٹھا سکتے۔ اس کے بعد تمام نوعِ انسانی کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جاتی ہے، جس کی طرف بلانے کے لیے قرآن آیا ہے۔ یعنی ’’عبادت‘‘ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ ’’لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اُس ربّ کی جو تمہارا اور تم سے پہلے لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالق ہے۔‘‘

آیت مذکور کی مزید وضاحت کرتے ہوئے صاحب تدبر مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں:

’’اے لوگو‘‘ سے خطاب اگرچہ بظاہر عام ہے لیکن یہاں مخاطب خاص طور پر مشرکین عرب ہیں۔ اس خطاب کو مشرکین کے ساتھ مخصوص ماننے کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اس کے بعد جو بات کہی گئی ہے، جو طرزِ استدلال اختیار کیا گیا ہے اور مخاطب سے جو مطالبہ کیا گیا ہے، ہر چیز اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ یہاں خطاب کا اصلی رُخ مشرکین ہی کی طرف ہے۔ یہود کے ذکر کے بیچ میں یہ خطاب بطور ایک امانت کے آ گیا ہے۔

یہاں ’’بندگی اختیار کرو اپنے ربّ کی ‘‘سے مقصود مشرکین کو صرف خدا کی بندگی کی دعوت دینا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ خدا کی بندگی کی اس دعوت کو قبول کریں جو محمد ﷺدے رہے ہیں۔ اس کلام کی یہی پوشیدہ حقیقت ہے کہ جس کی وجہ سے اس کے ساتھ’’ اورگر تمہیں شک ہے اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا‘‘ کا ربط موزوں ہوا۔ یعنی پیغمبرﷺجس بندگی کی دعوت دے رہے ہیں اس کو قبول کرو اور اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں شبہ ہے کہ یہ کوئی من گھڑت چیز ہے، خدا کی اُتاری ہوئی نہیں ہے، تو تم بھی اس کے مانند کوئی سورہ پیش کرو۔نیز اس کے اندر یہ بات بھی چھپی ہوئی ہے کہ تم خدا کی جس بندگی کے مدعی ہو وہ درحقیقت خدا کی بندگی نہیں ہے، خدا کی بندگی کا صحیح طریقہ وہی ہے جس کی دعوت یہ کتاب دے رہی ہے۔

 خَلَقَکُمْ کے ساتھ وَالََّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کا اضافہ اس لیے فرمایا ہے کہ مشرکین عرب اس بات کے تو قائل تھے کہ ان کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن اپنے بزرگوں میں سے انہوں نے بعضوں کو خدائی صفات میں شریک قرار دے کر خالق کی صف میں کھڑا کر دیا تھا اور ان کے بت بنا کر ان کی پرستش کرنے لگ گئے تھے۔ یہاں قرآن نے ان کے ساتھ ساتھ ان کے تمام اگلوں کو بھی عام مخلوقاتِ الٰہی میں شامل کر کے اشارۃً اس بات کی طرف بھی توجہ دلا دی کہ خدا کی بندگی کرنی ہے تو نہ صرف اپنے آپ کو مخلوق و مقہور مان کر خدا کے آگے جھکو بلکہ ان کو بھی خدا ہی کی مخلوق ما نو جن کو تم نے اپنی حماقت سے خالق کا درجہ دے رکھا ہے۔

لعلّ مختلف معنوں کے لیے آتا ہے جن میں سے کسی چیز کے ممکن و متوقع نتیجہ کے بیا ن کے لیے بھی اس کا استعمال مشہور و معروف ہے۔ ہم نے اس کو اسی معنی میں یہاں لیا ہے اور جس سیاق میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ہمارے نزدیک اس کے یہی معنی صحیح ہیں۔

تَتََّقُوْنَ کے یہاں دو معنی ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ تم تقویٰ حاصل کرو، دوسرے یہ کہ تم خدا کے غضب اور اس کے عذاب سے بچو۔ یہاں دونوں معنوں کے صحیح ہونے کا امکان ہے لیکن ہم نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے۔ اس صورت میں اس کے مفعول کو محذوف ماننا پڑے گا اس محذوف کو قرآن نے اس کے بعد والی آیت میں خود کھول دیا ہے۔ فرمایا ہے۔ ’’پس اس آگ سے بچو جس کے ایندھن آدمی اور پتھر بنیں گے۔‘‘

صاحب ’’فی ظلال القرآن‘‘ اس آیت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’اب گویا یہ تمام لوگوں کو دعوت ہے کہ وہ اس رب واحد کی بندگی میں داخل ہو جائیں جس نے انہیں پیداکیا ہے۔ اور اسی نے ان کے آباء و اجداد کو بھی پیدا کیا ہے۔ وہ ایسا رب ہے جو اکیلا اس کائنات کا خالق ہے لہٰذا صرف وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی بندگی کی جائے اور اس کی بندگی کا ایک خاص مقصد ہے اور توقع ہے کہ اللہ کی بندگی کر کے تمام لوگ اس مقصد تک جا پہنچیں اور اسے حاصل کر لیں۔ اور وہ مقصد یہ ہے ’’تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔‘‘تم انسانی زندگی کا وہ نقشہ اختیار کر لو جو پسندیدہ ہے اور جو اللہ کو پسند ہے یعنی اللہ کی بندگی کرنے والوں اور اس سے ڈرنے والوں کا نقش حیات، جنہوں نے اللہ کی خالقیت اور ربوبیت کا حق صحیح طرح ادا کر دیا، صرف ایک خالق کی بندگی کی، جو تم حاضر اور گزشتہ لوگوں کا خالق ہے، اور جس نے آسمان و زمین کے وسائل کے ذریعہ ان کے رزق کا بندوبست کیا اور اس کام میں اس کا نہ کوئی مساوی ہے اور نہ شریک۔ ‘‘

الغرض جس شخص نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دی‘ یہ اس کے لئے بڑا کام ہے۔ اللہ کی بندگی ایسے کرنی چاہیے کہ جیسے وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ باری تعالیٰ کے بارے میں ہمیں جیسا احساس ویقین ہوگا ویسا ہی امر ہوگا۔ عبادت صرف اللہ کی کرنی چاہیے کیونکہ خدائی قدرت اور اس کی تخلیق پر جس قدر انسان شکر مند رہے گا، اُس کے لیے بہتر رہے گا۔ ساتھ انصاف اور عقل مندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان اسی کی مالکیت اور غلامی قبول کرے جو اسے تخلیق کرنے والا ہو، اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ذات وہ واحد ویکتا ذات ہے جس نے نہ صرف ہمیں بلکہ پوری کائنات اور اس میں موجود تخلیقات کو بنایا ہے، اس لیے اس کی ہی عبادت کرنا، اسی کے آگے سربسجود رہنا، اس کے ہر حکم کی بلا چون وچرا تعمیل کرنا وغیرہ ہمارا فرض بنتا ہے۔ اللہ ہمیں صحیح عقیدہ و عمل عطا فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔