معصوموں کے لہو سے تر ہے زمین!

سیدہ تبسم منظور ناڈکر

بھارت میرا ملک ہے۔ سب بھارتی میرے بھائی اور بہنیں ہیں۔ یہ ہم بچپن سے پڑھتے آرہے ہیں۔ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔ ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستان ہمارا‘‘، یہ ہمارا قومی ترانہ ہے۔بس صرف ایک سوال ؟ کیا ہم اس گلستان میں آج محفوظ ہیں؟؟ہمارا سنتری کیا واقعی ہمارا وہ سنتری ہے جو محافظ ہے؟ ہمارا پاسباں کیا واقعی ہمارا پاسبان ہونے کا دعوی کرسکتا ہے؟  پھر سے یہی سوال کہ کیا ہمیں آج یہ حق ہے کہ ہم کہہ سکیں کہ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا! ‘‘ یہاں تو عجب منظر ہے۔یہاں ایک کی چیخ و پکار اور آہ و بکا ختم نہیں ہوتی کہ ملک کے کسی اور گوشے سے کسی اور معصوم کی دلدوز چیخیں سنائی دینے لگتی ہیں۔

ہر روز، ہر گھنٹے کتنی ہی معصوم ننھی کلیوں کو یہ خونی درندے اپنی ہوس کا شکار بنا کر روند رہے ہیں، کچل رہے ہیں اور پھر جان سے مار کر پھینکے دے رہے ہیں۔درندوں نےصوفیوں سنتوں کی اس سر زمین کو اپنے رذیک وجود سےلہو لہان کردیا ہے اورننھےمنے معصوموں کے خون سےنہانے میں خوشی محسوس کررہے ہیں۔۔۔۔ زمانہ یہ کیا دیکھ رہا ہے کہ ابھی ایک کے غم کو دھیرج نہیں ملی، آنکھوں کے اشک تھمے نہیں کہ دوسری بیٹی حیوانیت کا شکار ہوئی اور لٹ گئی مر گئی۔ ہر روز اخبار میں فرنٹ پیج پر یہی خبریں ملتی ہے۔پڑھ کے دل دہل جاتا ہے۔ عورتوں کے ساتھ ظلم و ستم کی خبریں۔۔۔۔۔اب تو ایسے تسلسل سے آرہی ہیں کہ لگتا ہے منصوبہ بند طریقے سے عورتوں کو ہراساں کرنے کی تحریک شروع ہوگئی ہو۔ کٹھوعہ کا شرمناک اور دل دہلانے والاواقعہ۔۔۔محض آٹھ سال کی معصوم بچی کی عصمت لوٹی گئی۔۔۔اور جان سے بھی مار دی گئی۔۔۔زانیوں نے شرم وحیا کے انسانیت کے سارے پیمانے توڑ دیے۔۔۔۔کس طرح ان درندوں نے اپنی بہن بیٹیوں سے نظریں ملائی ہوں گی؟ ساٹھ سال کا آدمی۔۔۔گھن آتی ہے سوچ کر۔۔۔ ان وحشی درندوں کی حرکت سے شیطان یقیناً خوشی سے سرشار ہورہا ہوگا۔

 قلم تو ہاتھوں میں ہے مگر غم، غصہ، تکلیف لکھنے میں مانع ہو رہا ہے۔ دل و دماغ نے کام کرنا ہی بند کردیا ہے۔دل لرز لرز اٹھ رہا ہے۔۔۔ خون کے آنسو رو رہا  ہے۔ روح کانپ رہی ہے۔ اگر ہم دیکھنے سننے والوں کا یہ حال ہے تو ان والدین کا کیا حال ہوگا، یہ سوچ کر ہی خوف محسوس ہوتا ہے۔ ملک میں بڑھتے ہوئے عصمت دری کے معاملات میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا۔۔۔۔پورا ملک کٹھوعہ اور اناؤ کے لئے احتجاج میں ایک جٹ ہوگیا ہے۔ یہ بیٹیاں کسی ایک مذہب کی نہیں ہیں بلکہ پورے ہندوستان کی بیٹیاں ہیں۔ اگر اسی طرح ہماری ننھی پریاں، جوان بیٹیاں لٹتی رہیں، مرتی رہیں تو یہ معاشرہ کیسے آگے بڑھے گا۔ ہم سب ہی کے گھروں میں بیٹیاں ہیں۔ اب خوف محسوس ہوتا ہے۔ ڈر لگتا ہے۔ جب بچیاں اسکول کالج جاتی ہیں۔  نہ جانے کب کس کی ہوس بھری نظر پڑے گی۔ ڈر لگتا ہے۔ ان وحشی درندوں سے، ان بھیڑیوں سے کس طرح بچائیں۔ کہاں محفوظ ہے یہ صنفِ نازک۔ ۔۔۔۔نہ معصوم کلیوں کو چھوڑا جاتا۔۔۔۔۔نہ حاملہ خواتین کو۔  نہ عمر دراز عورتوں کو۔ نہ نابالغ لڑکیوں کو کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔کہنے کو تو ہندوستان کو سبھیتا کی مورت کہاں جاتا ہے مگر کہاں ؟کہاں گئی اس کی سبھیتا؟ جہاں عورت کو دیوی کی طرح پوجا جاتا تھا۔وہ بھارت کہاں ہے؟جہاں ہمارے ہندو بھائی بہن مندر میں پوجا کرتے ہیں اورجہاں ان کے مطابق ان کے بھگوان، ان کی دیویاں بستی ہیں اس جگہ کو بھی ناپاک کرڈالا ان درندہ صفت لوگوں نے۔اسے بھی ریپ کا اڈا بنا دیا۔ ہم کس ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔ کس طرف جارہا ہے ہمارا ملک،جو پولیس ہماری حفاظت کے لئے ہوتی ہے۔۔۔۔وہ ہی رکشک۔۔۔۔۔ بھکشک بن گئی۔ کس پر یقین رکھیں۔ کون ہے نگہبان؟ کون ہے محافظ؟ تین طلاق۔ ۔۔تین طلاق۔۔۔۔ سے عورت کو انصاف دلانے والے کہاں ہیں سب کے سب اب کیوں انصاف نہیں ہوتا؟

’’بیٹی بچاو۔ بیٹی پڑھاؤ‘‘  ان ہوس کے بچاریوں کی وجہ سےیہ صرف جھوٹ اور ڈھونگ لگنے لگا ہے۔۔۔۔۔ ان وحشی درندوں کا بس چلے تو وہ کسی کو بھی نہ چھوڑیں۔ایک طرف تو عورت کو دیوی سمجھ کر اس پوجا کی جاتی ہے۔۔۔۔دوسری طرف انہیں عورتوں، ننھی معصوم بچیوں کے ساتھ اسطرح کی گھناؤنی حرکت کرتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی۔۔۔۔ ان تمام درندہ صفت قاتلوں کو پھانسی ہونی چاہئے۔ یہ احتجاج تب تک رہے جب تک یہ درندے سولی نہیں چڑھتے۔ جب تک سولی نہیں چڑھیں گے تب تک زنا نہیں رکے گا۔

’میک ان انڈیا‘ اب  ریپ ان انڈیا بن گیا ہے۔ ہر دن خوف کے سائے میں گزرتا ہے۔۔۔۔نہ جانے اب کیا ہو؟ ۔تب کیا ہو؟ یہاں جانوروں کے جان کی قیمت ہے۔ انسان کی جان کا کوئی مول نہیں۔یہاں بے گناہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔۔۔۔۔اور مجرم زانی،خونی کھلے عام سینہ تانے گھوم رہے ہیں۔یہ کیسا قانون ہے؟ یقیناًاسی کو کہتے ہیں اندھا قانون!

 کتابوں میں پڑھا ہے قیامت کے دن کا منظر بہت ڈراونا ہوگا ۔لیکن آج کے ماحول میں جس طرح کی زندگی ہم جی رہے ہیں۔ وہ بھی کم خوفناک اور ڈراونی نہیں۔ انسان کے روپ میں کچھ ایسے جنگلی وحشی جانور گشت کر رہے ہیں جنہیں ہم تو اپنی جان کا اپنے مال کا محافظ سمجھ کر مطمئن رہتے  ہیں مگر وہ ہیں نہیں۔۔۔۔ وہی عوام کی جان و مال، عزت و آبرو کی محافظ کہلانے والی پولیس کے لوگ آصفہ کے کیس میں ملوث ملتے ہیں۔ پوری زمین کو معصوموں کے لہو سے تر کر دیا ہے۔ ہر روز کہیں نہ کہیں سے نابالغ اور ننھی بچیوں کی لاشیں ملتی ہیں۔ ہر طرف ڈر اور خوف کا ایک عجیب عالم ہے۔ چاروں طرف وحشت و بربریت اور بدامنی کا راج ہے امن کی چڑیا عرصہ ہوا اس گلستان سے رخصت ہو چکی۔اب قوم و ملت کے ہر فرد کو زندہ سلامت رہنے کے لئے، ماں بہن بیٹیوں کو بچانے کے لئےکچھ کرنا ہوگا۔ خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا۔ سستی اور کم ہمتی کا چولا اتارنا ہوگا۔ اپنی سوچ و فکر کے نئے زاویے تراشنے ہوں گے۔ سب کو آگے آنا ہوگا۔ایسے عصمت کے لٹیروں کو پھانسی دلانے کے لئے ایک جٹ ہوکر مانگ کرنی ہوگی۔اب تو آنکھیں کھولو۔ اور جب یہ آنکھیں کھل گئی ہے تو اسے بند مت ہونے دینا۔۔۔ ہرکوئی دیش اور مذہب بچانے کی بات کرتا ہے۔۔۔۔مگر انسانیت بچانے کی نہیں۔۔۔۔۔انسانیت بچےگی تو دیش اور مذہب بھی محفوظ رہےگا نا! کوئی تو انسانیت سے انسانیت کی پہچان کروائے۔

تبصرے بند ہیں۔