مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

نازش ہما قاسمی

یہ ہمارے ملک میں ہی ممکن ہے الیکشن لڑا جاتا ہے ہند و مسلم کی بنیاد پر اور جیت وکاس کی ہوتی ہے۔۔۔۔!

۔۔۔منکووووووول۔​۔۔

گجرات الیکشن اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔۔۔بی جے پی کی شرمناک جیت ہوئی اور کانگریس ہار کر بھی جیت گئی۔ بی جے پی ۱۸۲ سیٹوں میں سے ۹۹ سیٹوں پر سمٹ گئی اور راہل گاندھی ناٹ آئوٹ ۷۷ رہے، باقی سیٹیں دیگر پارٹیوں کو ملیں۔ اس الیکشن سے سیکولر پسند عوام کو بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں، لوگوں کو ایگزٹ پول پر یقین نہیں تھا کہ بی جے پی جیت جائے گی اور چھٹی مرتبہ اپنی حکومت وہاں بنائیں گی، لوگ راہل گاندھی، ہاردک پٹیل اور جگنیش میوانی کی قیادت پر یقین کرتے ہوئے اسے بی جے پی کے پالے سے دور رکھناچاہتے تھے، لیکن ای وی ایم کی مہربانی، لیڈران کی اشتعال انگیزی، ایس پی بی ایس پی کا ایم آئی ایم والا رول اور دیگر اہم وجوہات نے الیکشن کو ہندو مسلم  بناکر بی جے پی کو کراری جیت سے ہمکنار کرایا۔

اس الیکشن کو ۲۰۱۹ کے سیمی فائنل الیکشن کے طور پر بھی دیکھا جارہا تھا کہ جو پارٹی گجرات میں کامیاب ہوگی وہی ۲۰۱۹ میں بھی پوزیشن مضبوط کرکے اقتدار پر قابض ہوگی۔ خیر گجرات الیکشن میں کانگریس ہارنے کے باوجود بھی جیت گئی ہے ۲۰۱۲ کے ریزلٹ کے مقابلے میں راہل گاندھی نے ۷۷ نشستیںحاصل کرکے بی جے پی کے گڑھ میں ہی بی جے پی کے دانت کھٹے کردئیے جس سے بی جے پی کی یہ امیدیں ٹوٹتی نظر آرہی ہیں کہ ۲۰۱۹ کا الیکشن ہمارے لیے آسان ثابت ہوگا۔ ۲۰۱۹ میں کس کی حکومت بنے گی اور کون ای وی ایم کے سہارے اقتدار پر قابض ہوگا یہ دور کی بات ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمان گجرات میں نو فیصد ہونے کے باجوود بھی کالعدم رہے ان کے ووٹ بیکار گردانے گئے۔ ایسا کیوں ہے؟

کیا یہ ہمارے سیاسی زوال کی ابتدا ہے،  کیا سبرامنیم سوامی اور دیگر ہندو انتہا پسند لیڈران اپنے عزائم میں کامیاب ہونے والے ہیں کہ مسلمانوں سے ان کا ووٹ دینے کا حق چھین لیا جائے۔ ہمارے اتنے ووٹ ہوتے ہوئے بھی کوئی مستقل پالیسی نہیں ہمیشہ منتشر ہوجاتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم متحد ہوکر کسی بھی ایک پارٹی کو کامیاب کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یوپی الیکشن میں تو مسلم علمائوں نے فرداً فرداً کسی نہ کسی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کی تھی لیکن گجرات میں انہوں نے اپنے منہ بند رکھے تھے، پھر آخر کیوں یہاں کانگریس کو اتحاد کے ساتھ ووٹ نہیں ملے، بی جے پی پورے ملک میں اپنی تین سالہ ناکامی اور گجرات میں ۲۲ سالہ جھوٹ کے ساتھ کیسے کامیاب ہوگئے۔

’مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا‘۔ امید ہے راہل گاندھی اس اندھیر نگری میں امید کی کرن بن کر ابھریں گے۔ نوجوانوں کی سیاست میں آمد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ تبدیلی چاہتا ہے۔ اور تبدیلی ہمیشہ نوجوانوں کے ذریعہ ہی وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ ہر مذہب وملت کے نوجوان ہی مستقبل کی ضمانت ہوتے ہیں، راہل گاندھی، ہاردک پٹیل، جگنیش میوانی،  الپیش ٹھاکر، کنہیا کمار وغیرہ جیسے نوجوان ہی مستقبل میں ہندوستانی تہذیب وتمدن کے علمبردار ہوں گے۔ یہ سبھی مودی حکومت سے نالاں اور ان کی فرقہ پرستی کے ستائے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان بھی اپنا کوئی نوجوان رہنما تلاش کرکے اس کی قیادت میں ۲۰۱۹ کے معرکے کو سر کریں۔ راہل گاندھی پر سیکولر پسند عوام کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں، وہ اس فرقہ پرستی کے دور میں امید کے طور پر ابھرے ہیں سیکولر ازم کی مالا جپنے والی پارٹیوں کو چاہئے کہ وہ ۲۰۱۹ کا الیکشن ہندو مسلم کی بنیاد پر نہ کرکے ترقی کے عنوان پر لڑیں اور کامیابی حاصل کریں۔

مودی جی کی طرح فرقہ پرستی کی سیاست کو فروغ نہ دیں۔ انہوں نے یوپی الیکشن کو بھی مسجد مندر، دیوالی، عید قبرستان اور شمشان کے ذریعے سر کیا تھا اور گجرات الیکشن کو بھی ہندو مسلم پاکستان، احمد پٹیل، پدماوتی، علاء الدین خلجی کے ذریعہ جیتا ہے، لیکن اس شرمناک جیت کا سہرا اپنے پاگل وکاس کے سر باندھ دیا۔ پورے ملک کے عوام کو معلوم ہے کہ وکاس کیا ہے؟ کس کی ترقی ہوئی ہے؟ لیکن پھر بھی جیت وکاس کی ہورہی ہے۔ اس الیکشن نے بہت سی چیزیں صاف کردی ہیں۔ مسلمان قومی یکجہتی، قومی یکجہتی کھیل رہے ہیں، اور فرقہ پرست اپنی فرقہ پرستی کو پروان چڑھاتے ہوئے کامیاب ہورہے ہیں۔ قومی یکجہتی ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں عوامی رجحان کی تبدیلی پر بھی زور دینا چاہئے آج برادران وطن کی اکثریت فرقہ پرستی کے زہر سے متاثر ہے، ان کے ذہنوں میں یہ بات سرایت کرچکی ہے کہ ہندوستان صرف ہندوئوں کا ملک ہے، بہت کم ایسے افراد ہیں جنہیں گنگا جمنی تہذیب کی فکر ہے۔ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر گجرات میں تین تین ہندو رہنماؤں کے ہوتے ہوئے مودی کی ناکام حکومت کیسے کامیاب ہوجاتی؟

اس لیے تمام تنظیموں، سیکولر ازم کی نام نہاد پارٹیوں کو چاہئے کہ وہ مذہب مذہب کھیلنا بند کردیں، ملک کے مستقبل کی فکر کریں، جمہوریت کی فکریں، اس کھیل میں ان کے لئے تو مختصر سا فائدہ لیکن ملک کا بہت بڑا خسارہ ہے، گاندھی، نہرو، ابوالکلام کی روایتیں پامال ہوجائیں گی، گنگا جمنی تہذیب کا جنازہ نکل جائیگا، پورا ملک ذہنی طور پر ہندتوا کا غلام ہو چکا ہے، اس غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے کی ضرورت ہے، لوگوں کو یقین دلانے کی ضرورت ہے، جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ان کے حق میں نہیں ہے، مسلم قیادت کو اس سمت توجہ دینے کی ضرورت ہے، نہ کہ لوگوں کے شکوک و شبہات کو یقین میں بدلا جائے، بلکہ انہیں احساس دلایا جائے ملک کی صورت حال سے واقف کرایا جائےیہی وقت کا تقاضہ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔