سالِ نو: عبرت وموعظت کے چند پہلو

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

عیسوی سالِ نو کی آمد ہے، 2017ء ختم ہو کر2018شروع ہونے والا ہے، یعنی ہمارے زندگی کا ایک سال اور ہماری زندگی تین سوساٹھ دنوں کی شکل میں قیمتی لمحات گذر گئے، مغرب کی اندھی تقلید نے یہ ہمیں باور کرایاہے کہ سالِ نو یومِ جشن ہے، جشن کس چیز کا ؟ کیا اس بات کا جشن کہ ہماری زنذگی کے لمحات اور گھڑیاں روز بروز کم ہوتی جارہی ہیںاور ہم راہی عالم بقا ہورہے ہیں ؟ وقت کا گذرنا اور انسانی زندگی کے لمحات اور گھڑیوں کا کم ہونا یہ مسرت آگیں موقع نہیں، یہ تو وقت احتساب ہے، ایک سال گذرگیا، کیا ہم نے سال کے تین سو ساٹھ دنوں کی صحیح اور بامقصد وصولیابی کی، یا انہیں ایسے ہی خر مستیوںاور عیش کوشیوں میں گذار دیا؟ ویسے توہم نے سال تین سو ساٹھ دنوںکو بھی ایسے ہی غفلت، لاپرواہی، دنیائے دنیئہ کی محض اندھی ہوس میں گذاردیا، پھر سال نو کی آمد پر بھی جشن منانے رہے ہیں، جشن ہی نہیں منارہے ؛ بلکہ سال بھر تو ہم نے جو بھی خدا کی نافرمانی ااور حکم عدولی میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کیا، یہ تو بس غفلت اور لاپرواہی تھی، یہاں تو سال کے تمام گذرجانے پر اپنی پچھلی غفلت، لاپرواہی اور ضیاع وقت کا جشن منایاجارہا ہے، سال بھر تو گناہ کئے ہی، یہاں تو سابقہ گناہوں والے زندگی پربجائے پشیمانی کے جو گناہ سال بھر پوشیدہ کئے، سال نو کی آمد پر وہ گناہ بر سر عام اور علی الاعلان کئے جارہے، سالِ نو کی آمد ایک کافر اور اللہ عزوجل کے منکر اور مشرک کے لئے تو جشن کا موقع ہوسکتا ہے، لیکن ایک مسلمان کا جو اللہ اور اس کے رسول اور روزِ آخرت اللہ عزوجل کی ملاقات کا یقین کرتا ہے اور اس دنیااوریہاں کی زندگی کو عارضی قیام اور امتحان گاہ باور کرتا ہے، وہ کیوں کر ایام اور گھڑیوں کے گذرنے کو مطلقا موقع جشن قرار دے سکتا ہے، وہ احتساب کرتا ہے کہ یہ گذری ہوئی گھڑیاں کیا واقعۃ ایک مومنانہ اور مسلمانانہ حیثیت کے ساتھ گذر ی ہیں، یا صرف غفلت شعاری اور اپنے نفس اور شیطانی کی اتباع وپیروی میں ؟یہ سالِ نو کی آمد ہمارے لئے وقت کی قدردانی کا پیش خیمہ اور موقع ثابت ہو تو سونے پر سہاگہ ہے، ورنہ اگر زندگی کے یہ لمحات بغیر فکر معاد یا معاش کے گذر جاتے ہیں تو سوائے ان گذری ہوئی گھڑیوں کی قبر پر آنسوبہانے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا، ورنہ یہ سالِ نو کا جشن ہمارے آخرت کی صلاح وفلاح کا ذخیرہ نہیں، جہنم کے عذابات وعقاب کے ذخیرہ کا باعث بن جائے گا۔ انسانی زندگی میں وقت کی اہمیت نہایت ہی مسلم ہے۔

وقت کیا ہے ؟

یہ در حقیقت انسانی زندگی(اس کی پیدائش سے لے کر موت کے درمیان) کے چندغیر یقینی اور موہوم لمحات کا نام ہے، جس کا صحیح بامقصد اور منظم استعمال ہی انسان کی ترقی، عروج، اقبال مندی، خوش حالی اور فارغ البالی کا ضامن ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف اس کے استعمال کے تعلق سے لاپرواہی، غفلت شعاری ہی اس کی ناکامی ونامرادی، شکست وریخت اور زوال وانحطاط کاباعث ہوتی ہے، وقت کی انسانی زندگی میں اسی اہمیت کے پیشِ نظر حکماء نے اسے سونے کی طرح کہاہے؛ بلکہ حقیقت پسندوں اور حقیقت بینوں کے یہاںتو وقت اس سے بھی کہیں زیادہ گراںقدر اوربیش بہا شیٔ ہے، عالم وجود میں اس کا کوئی مثل اور بدل نہیں ؛ اس لئے کہ اگر انسان سوناچاندی، ہیرے جواہرات یا اپنی دھن دولت سے کسی طرح ہاتھ دھو بیٹھتا ہے تواسے محنت وجستجو او رمکمل کوشش کے ذریعے دوبارہ حاصل کرسکتا ہے، یہی حال کھوئی ہوئی صحت کا ہے جو ماہر اطباء سے رجوع، ادویہ کے استعمال اور حفظان صحت کے اصول پر کاربند ہو کر دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہے، کھوئے ہوئے علم کا بھی مطالعہ کے تسلسل کے ساتھ کتابوں کی ورق گردانی، حقیقی طلب وجستجو کے ذریعہ دوبارہ حصول ممکن ہوپاتا ہے۔ لیکن زندگی کے جو لمحات اور گھڑیاں بیکاری میں بغیر فکرمعاد یا معاش کے یوں ہی گذرجاتی ہیں، وہ بہر صورت واپس نہیں ہوسکتیں، گویا ان گذرے ہوئے لمحات پر موت طاری ہوجاتی ہے، جس پر سوائے کفِ افسوس ملنے اور اس کی قبر پر آنسو بہانے کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا ؛ اس لئے بعض حکماء نے تو وقت ہی کو زندگی قراردیا ہے، وقت کے کسی حصہ کو ضائع کردینا یہ درحقیقت عمرِ عزیز کے ایک حصہ کو ضائع کردینا ہے ؛ چونکہ زندگی کے تمام لمحات رب عظیم کی طرف سے طئے شدہ ہیں ؛ جس میں کمی یا بیشی کا کوئی امکان نہیںہے، لمحہ لمحہ دن ہے، دن دن سے مہینہ تشکیل پاتا ہے، مہینوں سے سال اور سالوں سے صدیاں وجود میں آتی ہیں، اسی ماہ وسال اور لمحات وگھڑیوں سے انسانی زندگی عبارت ہے، جس کے کما حقہ استعمال ہی کے ذریعے انسان دنیا میں دارین کی فلاح وبہبود کوحاصل کرسکتا ہے۔

تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دنیا میں رہ کر جن اقوام واشخاص نے وقت کی قدردانی کی ہے، اسے نہایت ہی منصوبہ بندی اور نظم وضبط کے ساتھ استعمال کیا ہے، انہوں نے صفحۂ ہستی پر رہتی دنیا تک کے لئے اپنے عظیم ولاجواب کارناموں کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور دنیا وآخرت کی صلاح وفلاح کو حاصل کیا ہے، غور کیجئے ! نبی کریم ا اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین جب وقت کا سلیقہ مندانہ استعمال کیااور اس کی صحیح قدر دانی کی اور اپنے عزم وحوصلہ کے جوہر دکھائے تو ان کی تیرہ سال پر محیط مختصر مدت نے وہ رنگ دکھایاکہ وہ دنیا وآخرت ہر دوکی کامیابیوں سے سرفراز ہوگئے، اخروی صلاح وفلاح کے لئے ان کے حوالے سے قرآن کریم کا یہ ارشاد کافی ووافی ہے ’’رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ ‘‘ اللہ عزوجل ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے، ان کی دنیوی کامیابیوں کا (جو کہ در اصل اخروی کامیابی کی ہی رہین منت ہے )یہ حال تھا کہ جس سرزمین پر قدم رکھتے کامیابی کے جھنڈے گاڑتے چلے جاتے، اس وقت کی سوپر پاور طاقتیں قیصر وکسري نے بھی ان کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے، حالانکہ نبی کریم ا اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جس وقت مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب چلے تھے بالکل نہتے، بے سروسامان، رہنے کے لئے آشیانہ سے بھی محروم، یہ سب کچھ کیوں کر ہوا ؟ اس وجہ سے کہ انہوں نے لمحوں اور گھڑیوں کوناپ تول کر، سوچ سمجھ کر استعمال کیا، یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک مسلمانوں نے وقت کی قدر وقیمت کو سمجھا تھااور اس کا سلیقہ مندانہ استعمال کیا تھا تووہ ہر جگہ کامیاب وکامران تھے، اس کے بالمقابل جہاں انہوں نے وقت جیسی متاعِ بے بہا کا بے دریغ استعمال شروع کیا، لا پرواہی اور بے دردی سے اسے ضائع کرنے لگے، عیش کوشی، ، تن آسانی، آرام طلبی کے یہ لوگ خوگراور عادی ہوگئے تو یہ لوگ قعرِ مذلت میں گر پڑے، دنیا بھی گئی عقبی بھی گئی اور صفحۂ ہستی سے ان کانام ونشان بھی مٹ گیا۔ اغیار نے ان کی تن آسانی کا یہ فائدہ اٹھایا کہ حکومت تو ان کے ہاتھ سے چھین ہی لی، مزید یہ کہ عالمی سطح پر ان کی شبیہ کو مسخ کردیا، جو قوم دنیا کی امام اور مقتدا تھی آج وہ دنیا کی نگاہ میں اجنبی بن گئی، اسلامی لباس اور حلیہ کو ترچھی نگاہ سے دیکھاجانے لگا، ان پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا لیبل چسپاں کر کے ان کے تعلق سے بین الاقوامی سطح پر ہوّا کھڑا کردیا گیا، غیروں کو مسلمانوں کے اس استحصال کے مواقع اسی وقت ملے جب مسلمانوں نے وقت کا بے دردی کے ساتھ استعمال کیا، خرمستی اور آرام طلبی کو انہوں نے مقصدِ حیات بنالیا ؛ حالاں کہ احادیث ِ رسول اور اسلافِ امت کے واقعات کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ وقت کے صحیح اور بامقصد استعمال کے حوالے سے مسلمان غیروں سے باشعور اور حساس ہوتا ہے۔

وقت کی اہمیت احادیث کی روشنی میں :

ایک حدیث میں نبی کریم  اکاارشاد گرامی ہے ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جس کے بارے میں لوگ دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک صحت وتندرستی اور دوسرے فرصت وفراغت (بخاری )مطلب یہ ہے کہ جو صحت وتندرستی کی نعمت سے بہرہ ور ہوتا ہے تو وہ یہ کہتا رہتا ہے کہ ابھی تو جوانی ہے، صحت ہے، ابھی فرصت ہے، وقت بہت پڑا ہے کام کر لوں گا، حضور اکرم  ا فرمارہے ہیں کہ : صحت اور فرصت پر اعتماد اور بھروسہ کئے رہنا یہ دھوکہ ہے، کسے کیا پتہ کہ صحت برقرار رہے گی بھی، یا فراغت اور فرصت کے لمحات کبھی میسر بھی آئیں گے، صحت بگڑ گئی یا کوئی مشغولیت ایسی آگئی کہ فرصت پر تکیہ کئے ہوئے کام دھرے کے دھرے رہ گئے، موت نے یا سخت بیماری نے آن دبوچ لیا، بستر مرگ پر پڑے رہ گئے، اسی لئے نبی کریم  انے ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا کہ : ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو(۱)بڑھاپے سے پہلے جوانی کو غنیمت سمجھو (۲)بیماری سے پہلے صحت کو (۳) مجتاجگی سے پہلے مالداری کو (۴) مشغولیت سے پہلے فرصت کو (۵) زندگی سے پہلے موت کو غنیمت جانو‘‘(مستدرک)مطلب یہ ہے کہ جوانی کو جب کہ قوی مضبوط اور توانا ہوتے ہیں کچھ کر گذرنے کی صلاحیت ولیاقت ہوتی ہے، موت یا بڑھاپے کے آنے سے پہلے اس جوانی کی قدر کر لی جائے، صحت کی برقراری کی بھی کوئی ضمانت نہیں، بڑھاپاتو ضرور آئے گا، سارے اعضاء جواب دے جائیں گے، اعمال کرنے کے لئے اعضاء میں توانائی نہ رہے گی، مالداری ہے تو ذخیرۂ آخرت کر لیا جائے، مال تو بس ہاتھ کا میل ہے، آج کسی کا ہے تو کل کسی کا، خدا کی راہ میں، غریبوں کی امداداور ان کی داد رسی میں خرچ کر کے سامانِ آخرت کر لیا جائے۔ اور ایک حدیث میں نبی کریم ا کا ارشاد گرامی ہے :’’ہر روز فجر طلوع ہو کر پکارتی ہے، اے ابن آدم! میں نئی خلقت ہوں اور تیرے اعمال پر گواہ ہوں، میرے ذریعہ زادِ راہ تیار کر لے ؛ کیوں کہ میں قیامت تک نہیں لوٹتی ‘‘(حلیۃ الأولیاء: ۲؍۳۰۳)

وقت کی اہمیت اسلاف کے اقوال کی روشنی میں :

اسلاف اور بزرگانِ دین جنہوں نے اپنی عمر کے لمحات اور گھڑیوں کو گن گن کر اور ناپ تول کر استعمال کیا اور انہوں نے اسی وقت کی قدردانی کے نتیجے میں نہ صرف اس قدر بڑا علمی ذخیرہ ہمارے لئے چھوڑا کہ اس کا نہ صرف مطالعہ کرنا ؛ بلکہ اس کی ورق گردانی بھی ہمارے دشوار گذار ہے، اطاعت واعمال میں بھی وہ اس درجہ پر فائز ہوئے تھے کہ ان کے نوافل اور دیگر اعمال واشغال بھی ہمارے حقائق سے دور نظر آنے لگے، عمربن قیس ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’صحت میں مرض سے پہلے، زندگی میں موت سے پہلے، جوانی میں بڑھاپے سے پہلے، فرصت میں مصروفیت سے پہلے عمل کرلو (الزھد لابن مبارک : ۳)عون بن عبد اللہ ؒفرماتے ہیں کہ : ’’ کتنے دن کا استقبال کرنے والے ایسے ہوتے ہیں جواسے پورا کرنہیں پاتے، کتنے ہی کل کا انتظار کرنے والے ایسے ہوتے ہیں جو کل کو حاصل نہیں کرپاتے، اگر تم موت وحیات اور راہِ حیات کے حوالے سے سوچوتو امیدوں اور اس دھوکے سے اعراض کرنے لگو‘‘(حوالہ سابق) حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’ میں نے ان لوگوں کو پایا ہے جن کا اپنے عمر کے لمحات اور اوقات پر بخل سونے چاندی کے دراہم ودنانیر سے کہیں زیادہ تھا‘‘ پھر آگے فرماتے ہیں کہ : ’’ اے آدم کے بیٹے ! ٹال مٹول سے بچ(یعنی اچھے کام کا ارادہ کرنے پر اسے کر گذر، اس کو کل پر مت ٹال )آج کا دن تمہارے پاس یقینی ہے، کل کا دن تمہارے پاس یقینی نہیں، اگر کل تمہارے پاس آجائے تو اسے بھی آج کے دن کی طرح وصول کر‘‘(یعنی بس یوں سمجھ کہ میرے پاس آج کا دن اور یہی فرصت ہے )حضرت امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’ دنیا میں جتنے بھی کام ہیں وہ تین طرح کے ہیں : ’’ ایک وہ جن میں کچھ نفع اور فائدہ ہے چاہے دین کا فائدہ ہو یا دنیا کا فائدہ …ایک وہ جن میں کچھ نفع اور فائدہ ہے چاہے دین کا فائدہ ہو یا دنیا کا فائدہ …دوسرے وہ کام ہیں جو مضرت والے اور نقصان دہ ہیں، ان میں یا تو دین کا نقصان ہے یا دنیا کا نقصان ہے …تیسرے وہ کام ہیں جن میں نہ نفع ہے نہ نقصان، جس کام میں نہ نفع ہے او رنہ نقصان وہ بھی حقیقت میں نقصان دہ ہیں ؛چونکہ وقت ایسے کام لگ رہا ہے جس میں کوئی نفع نہیں، گویا تم نے اس وقت کو برباد کردیا ‘‘(احیاء العلوم)بعض لوگوں نے کہاہے کہ : ’’من علامۃ المقت إضاعۃ الوقت ‘‘ اللہ کی ناراضگی کی علامت وقت کا ضیاع ہے۔

وقت کی قدر اور اسلاف کے واقعات :

تنظیم اوقات اور وقت کی قدردانی کے حوالے سے اسلاف کے واقعات بھی ہمارے لئے نشانِ راہ ہیں کہ وقت کے حصول اور وصول میں کس قدر کوشاں رہتے تھے۔ ابن حجرؒ جو مشہور محدت اور بلند پایہ مصنف ومحقق ہیں اور تمام علوم وفنون میں ان کی کتابیں متداول اور رائج ہیں، ان کے وقت کی قدردانی اور اس کے پس انداز کرنے کا واقعہ یوں لکھا ہے کہ : جب یہ تصنیف میں مشغول ہوتے تو کتاب لکھتے لکھتے قلم کا خط خراب ہوجاتا، اس زمانے میں لکڑی کے قلم ہوتے اور اس کا خط باربار بنانا پڑتا اور اس کو چاقو سے درست کرنا پڑتا، اس میں تھوڑا سا وقت لگ جاتا تو وہ اس دوران ’’ سبحان اللہ والحمد للہ واللہ أکبر‘‘ پڑھاکرتے ؛ تاکہ یہ وقت بھی ضائع نہ ہو (اصلاحی خطبات)حضرت مفتی شفیع صاحب ؒصاحب تفسیر معارف القرآن کے حوالے سے یہ واقعہ لکھاہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے : میں جس وقت بیت الخلاء میں قضائِ حاجت کے لئے جاتا ہوں تو بیت الخلاء کے لوٹے کو دھولیتا ہوں کہ وقت بیکار نہ چلاجائے (اصلاحی خطبات) اس کے علاوہ دیگر اسلاف اور ائمہ کے بے شمار واقعات وقت کی قدردانی کے تعلق سے کتابوں کے اوراق میں بکھرے پڑے ہیں کہ وہ بجائے روٹی کھانے کے ستو پھانک لیا کرتیـــــــــــــــــــــــ۔ یہ اسلاف اور وقت کے ائمہ ہیں کہ جنہوں نے وقت کی قدر کی جس کی وجہ سے وہ مرنے پر بھی حیات ہیں، ان کے نام احترام واکرام کے ساتھ لئے جاتے ہیں، ان کی زندگی لوگوں کے مشعلِ راہ اور نمونہ بنی ہوئی ہے،

انسانی عمر کا تجزیہ :

اگر انسانی زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں توحقیقی اور واقعی زندگی تین سال ہوتی ہے، یعنی وہ عمرجس کے لئے انسان کی تخلیق اور پیدائش ہوئی یعنی عبادات اور اعمالِ صالحہ، جس کے بارے میں ارشاد باری عزوجل ہے ’’میں نے جنات اور انسان کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ : ’’ میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہوں گی، بہت کم کوئی اس عمر سے تجاوز کر جائے گا( ترمذی ) موجودہ دور میں انسانی کی عمر چالیس یہی ساٹھ ستر سال عموما ہوتی ہے، اگر نبی کریم ﷺ کی عمر مبارک کے اعتبار سے ہر شخص کی عمر (۶۳) سال باور کر لیتے ہیں اور ہمیں یہ پتہ ہے کہ دن (۲۴) گھنٹے کاہوتاہے، اگر بالفرض تریسٹھ (۶۳) کے ہر دن آٹھ (۸) گھنٹے کام کاج میں صرف کرتے ہیں تو ہم اپنی عمر کے اکیس (۲۱) سال کام میں لگادیتے ہیں، اسی طرح اگر انسان اصولِ طب کے اعتبار سے صحت کا خواہش مند ہے تو اسے ہر دن آٹھ(۸) گھنٹے نیند کی ضرورت ہوتی ہے، اگر تریسٹھ سال(۶۳) کے ہر دن میں سے آٹھ گھنٹے سونے میں لگ جائیں تو اس طرح (۲۱) اکیس (۲۱) (۴۲) بیالیس سال ہم نے کام کاج اور سونے اور آرام میں صرف کردیا، اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ انسان اپنی عمر کے ابتدائی بارہ (۱۲) یا تیر(۱۳) سال شریعت کا مکلف ہی نہیں ہوتا اوراس عمرکو لڑکپن میں کھیل کود میں صرف کردیتا ہے (۴۲) کو (۱۳) کے ساتھ جوڑ تے ہیں تو پچپن (۵۵) سال کی عمر یوں ہی گذر گئی۔ ۔ ۔ جس میں سے بعض کو تو ہم لڑکپن، بچپن اور کچھ حصے کو سونے اور کچھ حصے کو کام کاج میں گذاردیا، اب زندگی کے آٹھ(۸) سال باقی رہ گئے، کیا یہ آٹھ سال تمام کے تمام عبادت میں گذرتے ہیں، نہیں، بلکہ انہیں آٹھ سال میں میں ہم اہل وعیال، عزیز واقارب اور حیاتِ انسانی سے متعلقہ ضروریات کو پورا کرتے ہیں، جو شخص نماز کا پابند ہوتا ہے وہ دن ورات میں سے ایک گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ اس میں صرف کرتا ہے، اس طرح مشکل سے تین سال اللہ کی اطاعت وفرماں برداری میں شمار ہوتے ؛ لیکن ہمارے رب کا بے پایاں کرم ہے نیت کی اصلاح اور ہر کام میں شریعت کے اصول کو ملحوظ رکھنے سے ہمارااٹھنابیٹھنا، چلناپھرنا، معاشرت ومعاملات سب کے سب عبادت شمار ہوتے ہیں۔ دس منٹ، پندرہ منٹ، گھنٹہ دو گھنٹہ تو ہمارے پاس کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے، چائے خانوں، کلبوں اور دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں ہمارا وقت بے دریغ استعمال ہوتا ہے، سارا کا سارا دن کھیل کود، انٹرنیٹ کیفے اور ویڈیوگیمس میں مصروف رہ کر گذار دیتے ہیں، وقت کے اس بے دردی کے ساتھ زیاں کے باوجود ہمیں ذرہ برابراحساسِ زیاں تک نہیں ہوتا ؛ بلکہ ہم اس پر ٹائم پاس اور وقت گذاری کا خوبصورت اور حسین لیبل چسپاں کردیتے ہیں۔

تو وقت کی اس اہمیت اور ہمارے وقت کے ساتھ اس سلوک کے نتیجے میں ہمارے لئے سالِ نو یومِ احتساب ہونا چاہئے، یایو م جشن، جو یومِ جشن کہ خود بے شمار برائیوں، بے حیائیوں، مرد وعورت کے آزادانہ اختلاط اور اخلاق وعز ت وناموس کی دھجیاں اڑادیتا ہے، سالِ نو کی آمد کا حقیقی اور واقعی پیغام تو یہ ہے کہ ہم گذرے ہوئے زندگی کے لمحات میں جس وقت کو ہم نے صحیح استعمال نہیں کیا ہے، ا ب سے یہ عزم کریں کہ یہاں سے زندگی کا ہر لمحہ خدا کی رضا اور فکر معاد ومعاش میں گذرے گا، ہر کام خواہ وہ دینی یا دنیوی رب ذوالجلال کی کے احکام کے پس منظر میں انجام دوں گا، اس طرح اس کی دین ودنیا دونوں صلاح وفلاح سے ہم کنار ہوں گے۔

تبصرے بند ہیں۔