ملائم کے اکھاڑے کے پہلوانوں کی دھینگا مشتی

عبدالعزیز

کہا جاتا ہے کہ سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو پہلوانی کی مشق اکھاڑے میں کر چکے ہیں، اسی لئے انھیں پہلوانی کا سارا گر معلوم ہے۔ گزشتہ روز نہ صرف خود انھوں نے اپنی پہلوانی کا کرتب اپنے سیاسی اکھاڑے (مرکزی دفتر) میں دکھایا بلکہ اپنے چھوٹے بھائی شیوپال سنگھ یادو اور اپنے بڑے بیٹے اکھلیش یادو کو بھی ایک دوسرے کے مقابلہ میں اتارا اور خود تھوڑی دیر تک ریفری بنے رہے مگر جب دونوں ایک دوسرے کو چت کرنے کے سب کرتب دکھا چکے تو دنیا کے سامنے ٹی وی چینلوں کے ذریعہ اپنے کرتب دکھانے کی بھرپور کوشش کی۔ جو لوگ اکھاڑے سے باہر تھے وہ اپنے اپنے پہلوانوں کو کامیابی کی منزل پر لے جانے کیلئے نعرہ لگاتے اور تالیاں بجاتے رہے۔ زبان زیادہ چلتی رہی، ہاتھا پائی کی بھی کئی بار نوبت آئی مگر زبانی کشتی کا مظاہرہ کچھ زیادہ ہی ہوا ۔ کسی نے کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو تو کسی نے اپنے بھائی کا بچاؤ کیا۔ کسی نے اپنے دشمن کو برا بھلا کہا تو کسی نے اپنے مقابل کو ہرانے کیلئے اپنے حامیوں کے مقابلے میں اسے اس کے پیر کی دھول کے برابر بتایا۔ ملائم سنگھ نے بھائی اور بیٹے کے مقابلہ کو برابر پر ختم کردیا مگر بھائی کی حوصلہ افزائی زیادہ کی۔ بیٹے کو برا بھلا کہنے سے گریز نہیں کیا۔ اس طرح اکھاڑے میں سب ایک دوسرے کو ننگا کرنے کی کوشش کی۔
سیاسی کشتی دیکھنے والوں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ ناٹوں کا ناٹک ہے کہ یادووں کی دنگل ہے۔ یوپی میں دو چار گھر جہاں نٹوں کا ہوتا ہے وہ صبح لڑائی کرتے ہیں اور شام کو مل بیٹھ کر گپ شپ کرتے دکھائی دیتے ہیں، ٹھیک یہی سب یادووں کی لڑائی میں گزشتہ روز ہوا۔ صبح شیو پال یادو نے اپنے بھتیجے کی عزت اتارنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، شام کو مگر ان سے ملنے بھی ان کے گھر گئے۔ خبریں دو قسم کی آئیں۔ شام کو بتایا گیا کہ دونوں مل کر پھر ملائم سنگھ کے گھر گئے۔ Patchup کی کوشش ہوئی مگر اکھاڑے کی چوٹ کچھ اس قدر تھی کہ مرہم پٹی یا فرسٹ ایڈ سے کوئی کام نہ ہوسکا، زخم ہرا کا ہرا رہا۔ دوسری خبر یہ تھی کہ شیو پال یادو اکھلیش کے گھر کے پاس پہنچے ضرور اور ایک گھنٹہ تک انتظار کیا مگر بھتیجا ٹس سے مس نہیں ہوا، نہ انھیں خوش آمدید کہا اور نہ ہی گھر میں آنے کی دعوت دی۔ بالآخر گھر کے باہر وہ کھڑا کھڑا اپنے بڑے بھائی کے پاس چلے گئے جہاں اکھلیش بعد میں پہنچے۔ ایک دوسرے کے حامیوں کے درمیان لڑائی اور کشتی صبح سے ہوتی رہی جو شام تک جاری رہی۔ بڑوں کی کشتی ختم ہوئی تو حامی پہلوان بھی تھوڑی دیر تک سکتے میں رہے کیونکہ انھیں کشتی کا کچھ نتیجہ برآمد ہوتا ہوا نہیں دکھائی دیا اور نہ ہی ان کو کوئی راستہ نظر آیا کہ کس راستہ پر قدم بڑھائے جس کو جو سمجھ میں آیا نعرہ بازی کرتے ہوئے یا چہل قدمی کرتے ہوئے پان کھاتے اور چائے پیتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کا راستہ لیا۔
ملائم سنگھ یادو غریبوں اور مسلمانوں کے مسیحا سمجھے جاتے ہیں مگر اپنی پارٹی اور حکومت کو اپنے خاندان والوں کی وراثت سمجھتے ہیں اور حکومت کی تشکیل کے بعد مسلمانوں کو تو انگوٹھا دکھادیتے ہیں اور غریبوں کے سامنے اپنی سالگرہ دھوم دھام سے مناتے ہیں اور کروڑوں کی دولت پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ عوام کو یاد ہوگا کہ مظفر نگر کے فساد زدگان مصیبت اور مشکلات کے شکار تھے، اس وقت ملائم سنگھ یادو کی سالگرہ منائی جارہی تھی، ممبئی سے ایکٹر ایکٹریس کو چارٹرڈ پلین (Chartered Plan) کے ذریعہ بلایا گیا اور مصیبت زدگان کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد فساد زدگان کو ان کے کیمپوں سے زبردستی نکال باہر کیا گیا۔ تیس بتیس گاؤں کے پچھتّر ہزار مسلمان آج بھی بے یارو مددگار ہیں، در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ پہلوانوں کی حکومت میں پورا یوپی لاقانونیت اور غنڈہ گردی کا شکار تھا۔
ایک بات تو یہ غور کرنے کی ہے کہ جو اپنے غنڈے اور بدمعاشوں کو چھوٹ دیتے تھے آج ان کا گھر اور دفتر لڑائی کا اکھاڑہ بن گئے ہیں۔ دفتر میں غور و فکر کے بجائے کشتی کھیلی جارہی ہے، وہ بھی دھینگا مشتی یا نورا کشتی۔ دوسری بات جس پر غور و فکر کرنا چاہئے کہ ان کی پارٹی کے جو ایم ایل اے، ایم ایل سی تماشہ دیکھنے آئے تھے ان کی حیثیت تماش بین کے سوا کچھ بھی نہیں تھی، وہ بالکل بے دست و پا تھے۔
ایک مسلمان وزیر ہیں جو اعظم خان کے نام سے مشہور ہیں، ان کی عظمت کا حال یہ تھا کہ وہ نہ اس اکھاڑے میں تھے اور نہ ہی تماش بینوں کی بھیڑ میں کہیں دکھائی دے رہے تھے مگر وہ اپنی ذات کو بچانے کیلئے ٹی وی پر ضرور آتے ہیں اور خوبصورت مکالمے سے کام لیتے ہیں۔ یوپی میں دو ڈھائی سو فسادات ہوگئے اس موقع پر انھوں نے نہ حکومت چھوڑا اور نہ اپنی پولس کو برا بھلا کہا اور نہ ہی فساد زدگان کی کھوج خبر لی۔ اب وہ سر پر ٹوپی لگاکر مسلم چہرہ کی حیثیت سے تعارف کرائے جائیں گے تاکہ مسلمان اپنا ووٹ سماج وادی پارٹی کو دے جو سماج دشمنی پر اتارو ہے۔
امید تو یہی ہے کہ ان کی خاندانی لڑائی اور دھینگا مشتی کو اب مسلمان نظر میں رکھیں گے اور جو کچھ چار ساڑھے چار سال تک ان کے بھائیوں اور بہنوں پر گزری ہے اسے یاد کریں گے اور ان سماج وادیوں کو گھاس بھی نہیں ڈالیں گے جو اپنے غنڈوں اور سماج دشمنوں سے مسلمانوں کی ناک میں دم کراتے رہے۔ دادری جیسے واقعات کراتے رہے اور پھر اپنے خاندان، دفتر، راستہ کو میدان جنگ میں جاتے جاتے تبدیل کرنے پرآمادہ ہوئے۔ مسلمانوں نے خصوصیت کے ساتھ دیگر لوگوں کو بھی انتخابی میدان میں ان پہلوانوں کو ہرانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔