اسلام کانظام طلاق ( پہلی قسط)

منورسلطان ندوی

مذہب اسلام کی سب سے بڑی خوبی اوراس کاسب سے بڑاامتیازیہ ہے کہ اس کی تعلیمات انسانی ذہن کاتیارکردہ نہیں ،اورنہ ہی یہ زمانہ کے تجربات کانتیجہ ہیں بلکہ یہ تعلیمات ہیں اس ذات برحق کی جس نے یہ کائنات بنائی،جس نے انسانوں کوپیداکیااوراس کے لئے تمامترسہولتیں پیداکیں، انسان کوپیداکرنے والاانسان کے مزاج اورمذاق اس کی ضرورتوں سے زیادہ واقف ہے،جس نے دنیاکانظام بنایااسی ذات برحق نے دنیامیں انسان کے رہنے کا طریقہ بھی بتایا،انہی کے بتائے ہوئے طریقہائے زندگی کے آخری ایڈیشن کانام ’شریعت محمدی ‘ہے،رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ بعثت کی تکمیل ہوگئی،اوریہ شریعت ہمیشہ ہمیش کے لئے انسانی رہنمائی کے لئے باقی رہے گی،انسان کی کامیابی وکامرانی شریعت کے اتباع میں مضمرہے۔
اسلامی شریعت کااصل مصدروسرچشمہ قرآن وحدیث ہے،اورپھران دونوں مصادرکی روشنی میں اجماع اورقیاس کاوجودہوتاہے،انسانی زندگی کے تمام مسائل انہی چاروں مصادرسے ماخوذہیں،زندگی کے مختلف ابواب سے متعلق جواحکامات دئے گئے ہیں ان میں بعض منصوص ہیں،آیات بھی اورآحادیث بھی،ان منصوص مسائل میں انسانی عقل وفکرکاکوئی دخل نہیں ہے،مثلانمازکے اوقات،نمازکی رکعات،زکوۃ کی مقداروغیرہ،اوربہت سے مسائل ایسے ہیں جن سے متعلق قرآن وحدیث میں نص توموجودہے،مگروہ صریح نہیں ہے ،ایسے مسائل میں صحابہ کرام،خلفاء راشدین،کبارتابعین اور پھر ائمہ مجتہدین نصوص اوراجتہادکے اصول وضوابط کی روشنی میں اجتہادکرکے مسائل مستنبط کرتے ہیں،زندگی کے تمام ابواب مثلا عبادات،معاملات،عائلی مسائل،مالی مسائل،جنایات وغیرہ کے احکام انہی دوطرح کے مسائل پرمشتمل ہیں۔
اسلامی شریعت میں عائلی مسائل مثلانکاح وطلاق ،عدت،نفقہ،حضانت ،اورمیراث و وصیت وغیرہ کا پورانظام موجودہے،ان میں سے ہرباب سے متعلق کلی اورجزئی تمام مسائل متعین ہیں،اورسارے احکامات خدائی احکامات ہیں،اس لئے یہ انسانی مصالح اوران کی ضروریات کے مکمل مطابق ہیں،یہی سب سے بہترنظام حیات ہے، اس سے بہترتوکیااس کے مقابلہ میں انسانی فکرکاتخلیق کردہ کوئی نظام یاازم ہوبھی نہیں سکتاہے۔
شریعت میں جہاں نکاح کاپورانظام بتایاگیاوہیںمیاں بیوی کے درمیان نزاع اوراختلافات کودورکرنے کاطریقہ بھی بتایاگیاہے،نکاح کے ذریعہ دواجنبی ایک رشتہ میں بندھ جاتے ہیں اورایک ہوجاتے ہیں،پھردونوں کے مابین اکثراچھی ہم آہنگی ہوجاتی ہے ،اوردونوں خوشی خوشی ایک ساتھ رہتے ہیں،اورکبھی ایسابھی ہوتاہے کہ مزاج کے فرق،اوردیگراسباب کی بناء پرہم آہنگی نہیں ہوپاتی،جس کے نتیجہ میں دونوں کے مابین ایک خلیج حائل ہونے لگتی ہے،کبھی ایک دوسرے کو سمجھانے،خاندان کے بڑوں کے سمجھانے یاایک دوسرے کے تئیں نرم پڑنے کی صورت میں یہ اختلافات ختم ہوجاتے ہیں اورکبھی یہ اختلافات مزیدبڑھ جاتے ہیں،یہاں تک دونوں کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے،دوافرادکی لڑائی میں پوراخاندان متاثرہونے لگتاہے،ان ناخوش گوار صورتوں اورپیچیدہ عائلی مسائل کے حل کاطریقہ بھی قرآن نے بیان کیاہے۔
میاں بیوی کے درمیان باہمی نزاع کودورکرنے کاقرآنی طریقہ
زوجین کے درمیان درآنے والے اختلافات اورشقاق کودورکرنے کاجوطریقہ قرآن میں بتایاگیاہے ان کواپناناچاہیے،اوران مراحل کوپوراکرنے کے بعدہی طلاق کافیصلہ کرناچاہیے،آپسی معاملات کوسلجھانے کاطریقہ درج ذیل ہے:
1۔بیوی کے ساتھ حسن سلوک:قرآن میں بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم باربار آیاہے:
عاشروہن بالمعروف(سورہ نساء:19)
ترجمہ:اوربہنوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزربسرکیاکرو۔
شوہربیوی کے ساتھ حسن سلوک کرے تو بہت سے مسائل یاتوپیداہی نہیں ہوتے یاپیداہونے کے بعدحل ہوجاتے ہیں،عورتیں شوہریاسسرال کی بعض ناگوارباتوں کوشوہرکے حسن سلوک کی وجہ گوارکرلیتی ہیں۔
2۔میاں بیوی ایک دوسرے سے متعلق تکلیف کوبرداشت کریں:قرآن میں صبرکرنے اورباہم نزاع کی صورت میں برداشت کرنے اورانگیزکرنے کاحکم ہے اوربتایاگیاہے کہ ہوسکتاہے کہ اگرتمہیں کوئی ایک چیزبری لگی تودوسری چیزاچھی لگے گی:
عاشروہن بالمعرو ف فان کرہتموہن فعسی ان تکرہوا شیئاویجعل اللہ فیہ خیراکثیرا(سورہ نساء:19)
ترجمہ:بیویوں کے درمیان خوش اسلوبی سے گزربسرکیاکرو،اگروہ تمہیں ناپسندہوں توعجب کیاکہ تم ایک شئی کوناپسندکرواوراللہ تعالی اس کے اندرکوئی بڑی بھلائی رکھ دے۔
صحیح مسلم کی روایت ہے:لایفرک مومن مومنۃ ان کرہ منہاخلقارضی منہااخری(صحیح مسلم)
3۔میاںبیوی ایک دوسرے کوسمجھائیں،اس طرح بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
4۔بسترالگ کرکے اعراض کرنا:اگرافہام وتفہیم سے باہمی اختلافات دورنہ ہوں توحکم ہے کہ مرداپنابسترالگ کرلیں، اس طرح اعراض کرنے کی صورت میں سمجھداربیوی مسائل پرغورکرنے پرمجبورہوگی،اورشوہرکی شکایات کودورکرنے کی کوشش کرے گی۔
5۔معمولی تادیب:اس کے بعدبھی کام نہ چلے اوربیوی کی نادانی اورجہل بڑھتاجائے تومعمولی اندازسے مارنے کابھی حکم ہے،احادیث میں مارنے کاطریقہ بھی بتایاگیاہے۔
ان اقدام کے بعداگرمصالحت ہوجاتی ہے تومردوں کوحکم ہے کہ اب کوئی الزام عورت کونہ دیں بلکہ خوشی خوشی ساتھ رہیں،ارشادہے:
واللاتی تخافون نشوزہن فعظوہن واہجروہن فی المضاجع واضربوہن فان اطعنکم فلاتبغواعلیہن سبیلاان اللہ کان علیاکبیرا(سورہ نساء:36)
ترجمہ:اورجوعورتیں ایسی ہوں کہ تم ان کی سرکشی کوعلم رکھتے ہوتوانہیں نصیحت کرواورانہیں خواب گاہوں میں تنہاچھوڑدو،اورانہیں مارو،پھراگروہ تمہیاری اطاعت کرنے لگیں توان کے خلاف بہانے نہ ڈھونڈو،بے شک اللہ بڑاہی رفعت والابڑاہی عظمت والاہے۔
6۔دونوں خاندان کے کچھ افرادجمع ہوں اورمسئلہ کوحل کرنے کی کوشش کریں:ان مراحل کے بعدبھی اگرمسائل حل نہ ہوںتوآگے حکم ہے کہ دونوں طرف کے ذی ہوش اورمعاملہ فہم افرادجمع ہوں اورمیاں بیوی کی باتیں سن کرجومناسب سمجھیں فیصلہ کریں،اللہ تعالی فرماتے ہیں اگردونوں حکم مصالحت کرنا چاہیں گے توضروراللہ تعالی انہیں مصالحت کی توفیق عطافرمائے گا:
وان خفتم شقاق بینہمافابعثواحکمامن اہلہ وحکمامن اہلہاان یریدااصلاحایوفق اللہ بینہماان اللہ کان علیماخبیرا(سورہ نساء:۳۵)
ترجمہ:اوراگرتمہیں دونوں کے درمیان کشمکش کاعلم ہوتوتم ایک حکَم مردکے خاندان سے اورایک حکم عورت کے خاندان سے مقررکرو،اگردونوں کی نیت اصلاح حال کی ہوتواللہ دونوں کے درمیان موافقت پیداکردے گا،بے شک اللہ بڑاہی علم رکھنے والااورہرطرح سے باخبرہے۔
ان مراحل سے گزرنے کے بعدبھی اگرآپسی ناچاقی باقی رہے تواب شوہرکوایک طلاق رجعی دینے کااختیارہوگا۔
یہاں یہ واضح رہے کہ میان بیوی کی آپسی ناچاقی کودورکرنے کی جومذکورہ ہدایات قرآن نے دی ہیں یہ اختیاری ہیں،لزومی نہیں،یعنی اگرکوئی ان مراحل کے بغیرطلاق دے دیتاہے توطلاق واقع ہوجائے گی،البتہ مذکورہ ہدایات پرعمل نہ کرنے کاگنہ گارہوگا۔
طلاق کی حیثیت
طلاق کی مشروعیت ضرورتاہوئی ہے،ورنہ اللہ تعالی کے نزدیک یہ بہت ہی ناپسندیدہ عمل ہے،رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
ابغض الحلال الی اللہ تعالی الطلاق۔(سنن ابی دائود،کتاب الطلاق،باب فی کراہیۃ الطلاق،حدیث نمبر:2180)
اللہ تعالی کوحلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندطلاق ہے۔
جائزچیزوں میں سب سے ناپسندیدہ اوراللہ تعالی کوغصہ دلاوالی چیزطلاق ہے،آپ ﷺ نے فرمایا:مااحل اللہ شیئاابغض الیہ من الطلاق۔(سنن ابی دائو،کتاب الطلاق،باب فی کراہیۃ الطلاق،حدیث نمبر:2179،المستدرک علی الصحیحین،کتاب الطلاق،ج2،ص:214،حدیث نمبر:2794)
ایک روایت میں طلاق کے بارے میں بڑاسخت لفظ آیاہے،روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
تزوجواولاتطلقوافان الطلاق یہتزلہ عرش الرحمن۔(الفوائدالمجموعہ لاحادیث الموضوعۃ،ج1،ص:139)
نکاح کرو،طلاق نہ دیاکرو،کیونکہ طلاق سے اللہ رب العزت کاعرش ہل جاتاہے۔
اس روایت کومحدثین نے ضعیف کہاہے۔(حوالہ سابق)
طلاق کی تعریف
نکاح کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان جورشتہ وجودمیں آتاہے اس کوختم کرنے کانام طلاق ہے،رفع قیدالنکاح حالااومآلا بلفظ مخصوص(الفتاوی الہندیۃ،ج1،ص:348)
طلاق کی مشروعیت کی دلیل
قرآن کی متعددآیات سے طلاق کامشروع ہونامعلوم ہوتاہے،مثلا:
الطلاق مرتان فامساک اوتسریح باحسان،(سورہ بقرہ:229)
ترجمہ:طلاق تودوہی بارہے،اس کے بعدیاتورکھ لیناہے قاعدہ کے مطابق یاخوش اسلوبی کے ساتھ چھوڑدیناہے۔
یاایہاالنبی اذاطلقتم النساء فطلقوہن لعدتہن(سورہ طلاق :1)
ترجمہ:اے نبی! جب ت اپنی عورتوں کودینے لگوجن کے خلوت ہوچکی ہے توان کوعدت سے پہلے طلاق دو۔
احادیث میں اس موضوع پرکثرت سے روایتیں موجودہیں،مثلاحضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی زوجہ کوطلاق دیاتوحضرت عمرنے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا،آپ ﷺ نے فرمایا:مرہ فلیراجعہاثم یطلقہااذاطہرت…(صحیح البخاری،کتاب الطلاق،باب قولہ یاایہاالنبی اذاطلقتم النساء،حدیث نمبر:5251)
تمام مسلمان طلاق کے مشروع ہونے کے قائل ہیں،علامہ ابن قدامہ نے طلاق کے جائزہونے پرمسلمانوں کااجماع نقل کیا (المغنی، ج7، ص:96)
انسانی عقل کاتقاضہ بھی یہی ہے کہ طلاق ہو،کیونکہ شوہروبیوی کے درمیان جب ہم آہنگی نہ ہو،اورنکاح کے رشتہ کوباقی رکھناممکن نہ ہو،ایسی صورت میں نکاح کی بنیادپر بیوی کوروکے رکھناجس کے ساتھ رہناممکن نہ ہو،نکاح کے مقصدکوختم کرناہے،اوران مصالح کوضائع کرناہے جن کے تکمیل کی خاطرنکاح کی مشروعیت ہوئی ہے۔
طلاق کی حکمت
اللہ تعالی نے اہم مقاصدکی تکمیل کے لئے نکاح کومشروع فرمایاہے،اوریہ حقیقت ہے کہ نکاح سے جومقاصدمطلوب ہیں وہ اسی صورت میں پورے ہوسکتے ہیں جب شوہروبیوی کے درمیان اچھے تعلقات ہوں،حسن معاشرت ہو، باہم محبت ومودت ہو،ایک دوسرے کے لئے ہمدردی ہو،شریعت میں حسن معاشرت کی بڑی تاکیدکی ہے،متعددآیات میں اس کاحکم آیاہے،اوران تمام چیزوں سے بچنے کی تاکیدفرمائی گئی ہے جن کی بنیادپریہ رشتہ کمزورہوتاہے یاٹوٹتاہے،لیکن ان سب کے باوجوداگرمیان بیوی میں نباہ کی صورت نہیں ہو،دونوں کاساتھ رہنامشکل ہوجائے، شوہراپنی بیوی کی اصلاح سے عاجزہویابیوی اپنے شوہرکوسمجھانے سے قاصرہوجائے،ایسی صورت میں شریعت نے میاں بیوی کوتاریکی میں بھٹکنے کے لئے نہیں چھوڑاہے بلکہ ان کی رہنمائی کی ہے،اوردونوں کے مسائل کاحل پیش کیاہے،اسی حل کانام طلاق ہے،گویاطلاق کی مشروعیت میاں بیوی کے درمیان اس منافرت کوختم کرنے کے لئے ہے،جس کادوسراکوئی حل نہیں ہے۔  (جاری)

تبصرے بند ہیں۔