ملبیری کے آس پاس: جذبات واحساسات کی شاعری 

وصیل خان

عطاءالرحمان طارق شعراء کی اس بھیڑ میں خود کو منفرد اور اپنی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرلینے کا ہنر جانتے ہیں، یہی سبب ہے کہ وہ اپنی ہر نئی کتاب میں ایک نیا رنگ و آہنگ، نیا اسلوب اور نئی فکری جہتیں تلاش کرلیتے ہیں جو ان کی کامیابی کی ضامن بن جاتی ہیں ۔ ویسے تو ادب میں ان کی شناخت ادب اطفال کے حوالے سے ہوتی رہی ہے۔ اس موضوع پر ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں ’ ہرّے ہرّے، دتم دتم اور بوندا باندی جیسے نظموں کےمجموعے شامل ہیں ۔ اسی طرح ایک اور کتاب ہنڈولہ، بچوں کیلئے نثری کہانیوں پر خراج تحسین وصول کرنے کے ساتھ یہ ثبوت بھی دے چکی ہے کہ وہ نثری ادب پر بھی اچھی گرفت رکھتے ہیں۔ ’دھانی دھانی’ اور’ ملبیری کے آس پاس‘ عام شاعری پر مشتمل ہے جس سے بچے اور بڑے دونوں بیک وقت محظوظ ہوسکتے ہیں۔ ملبیری کے آس پاس ان کی تازہ ترین تخلیق ہےجو اس وقت زیر تذکرہ ہے۔

یہ کتاب بھی زیادہ تر نظموں پر مشتمل ہے لیکن اخیر کے صفحات میں کچھ غزلیں اور قطعات بھی ہیں جو ان کی جودت طبع، جدید فکری میلان اور نو بہ نو وجدانی احساسات کی ترجمان ہیں۔ کتاب کے آغاز میں ایک دعا ہے اس میں جس تمنا اور خواہش کا اظہار کیا گیا ہے وہ بھی اپنے اندرون ایک خاص رنگ اور کیفیت لئے ہوئے ہے جس کی متاثر کن دھمک دل و دماغ پر بڑی دیر تک قائم رہتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’؍میں پرارتھنا لکھتا ہوں ؍قائم رہے سدا ؍ پیڑوں کا سہاگ ؍اور ؍ دائم برستا رہے ؍جیون کا ھیم ؍ ‘‘ شاعری اور ادب کے حوالےسےتحریرکی گئی کتابوں میں اس طرح کے دعائیہ کلمات جن میں پیڑوں کے سہاگ اور جیون ھیم کی تمنا کی گئی ہو شاید ہی کبھی نظر سے گزرے ہوں اور اس تناظر میں جب ان دنوں عوامل کے ساتھ عوامی سطح پر سفاکیت اور درندگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہو شاعر کی ان تمناؤں اور آرزوؤں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

خارجی عناصر پر داخلی کرب کا اظہار اعلیٰ انسانی سطح پر ہی پہنچ کر کیا جاسکتا ہے اور چونکہ شاعر کا دل ان احساسات سے لبریز ہے وہ  اپنے گردوپیش جو بھی محسوس کرتا ہے وہ ایک وجدان کی صورت صفحہ ٔ قرطاس پر ابھر آتا ہے، شاعری دراصل اسی وجدانی کیفیت کا نام ہے۔ مجروح سلطانپوری نے اپنے ایک شعر میں اس کیفیت کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے۔

جب ہوا عرفاں تو غم آرام جاں بنتا گیا   

  سوز جاناں دل میں سوز دیگراں بنتا گیا 

ممبئی جیسے صنعتی شہر میں پلے بڑھے طارق کی نظموں میں دیہاتوں کے ان مناظر اور کیفیات کا بیان اس سلیقے اور روانی سے کیا گیا ہے جیسے ان کی روح اسی ماحول میں رچی بسی ہو دراصل یہ گہرے تجزیاتی اور مشاہداتی حدت کی دین ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے ذاتی تجربات کو عوامی احساسات میں تبدیل کردیتے ہیں۔ چندمثالیں دیکھیں۔

دھان کے کھیت میں اس نے دیکھا مجھے 

 کچی کچی منڈیروں سے آتے ہوئے 

اور کانوں میں اترا کے جھٹ پہن لیں   

   دھان کی بالیاں، مسکراتے ہوئے 

؍اس نے شاید برسوں میں ؍ایسا پہلی بار کیا ؍لے کر کانی انگلی سے ؍کاجل اپنی آنکھوں کا ؍ میری ٹھوڑی کے نیچے ؍ ہنستے ہنستے پونچھ دیا ؍۔۔ پنگھٹ کے اوپر تھے ؍ چھدرے چھدرے سائے ؍ من کی پیاس بڑی تھی ؍ میں خاموش کھڑی تھی ؍ سکھیوں نے چلنے کی ؍ دی مجھ کو آوازیں ؍ لیکن میں اپنی ہی ؍ سوچوں میں کھوئی سی ؍ جانے کون دشا سے ؍ وہ پردیسی آیا ؍ اور جھجھک کر بولا ؍ گوری میں پیاسا ہو ں ؍ میں نے اپنی گاگر ؍ ہولے سے ڈھلکائی ؍۔ شاعری احساس کے بغیر کہاں ، طارق کے احساسات کی چمک ہر رنگ میں فروزاں نظر آتی ہے جس کا اظہار وہ برملا کرنے سے نہیں چوکتے اور اسے انتہائی موثر انداز میں شعری پیکر عطا کردیتے ہیں ۔ ۲۶؍ جولائی ۲۰۰۵کی ہلاکت خیز بارش اور ۱۱؍۲۶کا ممبئی کا وہ خونین منظر کون بھول سکتا ہے، اس تناظر میں ان کی غزلوں کی اثر انگیزی قابل دید ہے۔ زبان کی سلاست، خوش رنگ انداز بیان اور معنویت سے لبریز فکری تمازت قاری کو مختلف رنگوں میں شرابور کردیتی ہے، یہ صفت بلا شبہ اچھی اور معیاری شاعری کیلئے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوتی ہے۔ ایوان ادب میں ہم اس کتاب کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ چند اور نمونے بطور تمثیل دیکھتے چلیں۔

  کھائے کیوں حد نارسا کا فریب   

 آدمی کیوں بساط سے گزرے 

  معبدوں میں لہولہان ہوں میں       

کن خداؤں کے درمیان ہوں میں

 کیتلی میں ابل رہی ہے اجل     

 کشتیوں میں سوار ہے دہشت   

   ساحلوں پر ٹہل رہی ہے اجل 

پھر ہوا یوں کہ سارے کنول کھل گئے 

  کیوں بتاؤں سکھی میں تو لہرا گئی 

میرے من میں اداسی نے سایا کیا   

 کوئی خوشبومجھے درد پہنا گئی

نام کتاب:ملبیری کے آس پاس ( شعری مجموعہ ) ، شاعر:عطاء الرحمان طارق ( فون نمبر: موبائل:  09773238043، ناشر: ایڈشاٹ پبلی کیشنز،ممبئی، قیمت: 150/- روپئے صفحات :  128، ملنے کے پتے: ثکتاب دار ۱۱۰؍۱۰۸،جلال منزل ٹیمکراسٹریٹ ممبئی ۸   ، ثگل بوٹے کیڈی شاپنگ سینٹر، ۲۸؍گراؤنڈ فلور، ناگپاڑہ جنکشن ممبئی ۸، ث مکتبہ جامعہ لمٹیڈ پرنسس، بلڈنگ جے جے روڈ ممبئی نمبر ۳

تبصرے بند ہیں۔