ملتِ بیمار کے صحتمند قائدین؟

یاور رحمٰن

بابری مسجد معاملے پر مولانا سلمان ندوی صاحب کے بیباک موقف اور عالمانہ غرور  نے ملک میں کہرام سا مچا دیا ہے۔ زیادہ تر زبانیں ان کے خلاف کٹاری بن گئی ہیں۔ عوام خاموش ہیں اور خواص کی ایک خاص نفری اس ‘کافر بورڈ’ کے خلاف مومنین با صفا بن گئی ہے۔ تمام ہندی مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادت کے  دعویدار آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بور ڈ نے انھیں موقف مسلمانی کا باغی قرار دے کر بورڈ سے نکال دیا ہے۔

 سلمان صاحب نے بھی اپنے گھر کی چھت کی تنگی دیکھ کر خبریہ چینلوں کی پناہ لے لی ہے۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ اپنے نقار خانے میں اکیلے چلانے کے بجاۓ مچھلی بازار کے اینکر وں کی مدد کیوں نہ لے لی جاۓ ؟  آخر کو یہ عوام بھی تو انہی کی سنتے ہیں!  اور اس طرح، پچھلے تین دنوں سے اس بازار میں مسلمان ایک ‘ریجیکٹڈ مال’ کی طرح پروسا جا رہا ہے۔

ایک سمجھدار اور با شعور مسلمان کی نظر میں سیاست تو دونوں طرف ہو رہی ہے۔ گھر کے باہر دشمنوں کی ایک فوج کھڑی ہے اور اندر ڈرا نے والے بزدلوں کا اک مجمع۔ دونوں کے نزدیک مصالحت اور مفاہمت کا مطلب اپنے اپنے مفادات کی موت کے سوا اور کچھ نہیں۔

اس معاملے میں حیدرآباد والے صاحب کا غیض و غضب تو اور بھی کمال کا ثابت ہوا۔ ندوہ والے صاحب کے خلاف انکی آگ اگلتی سیاسی تقریر نے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔ عوامی جلسوں میں علما کی توقیر کا دم بھرنے والے صاحب نے ایک عالم کو جی کھول کے ذلیل کیا۔ صرف اس لئے کہ اس کے مناسب یا نا مناسب موقف نے شاید انھیں ایک عدد بھڑکتی ہوئی ‘سیاسی تقریر’ کا زریں موقع دے دیا تھا۔

اب اس پر کوئی کچھ نہیں بول رہا ہے۔ سارے بڑے نام خاموشی کی موٹی کھدر میں منہ دبا ئے بیٹھے ہیں۔ کیا علم و تقویٰ اسی کو کہتے ہیں کہ انتشار کو پانی کی طرح سر سر بہنے دیا جاۓ؟ میں کسی کو منافق کہنے کی جسارت تو نہیں کر سکتا، لیکن یہ ضرور کہ سکتا ہوں کہ پاسداران توحید کی اس بھیڑ میں سبھی اپنے اپنے مفادات کے پجاری ہیں۔

مغرور علما کی آپسی جنگ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ملک کے تقریباً سبھی بڑے مدرسے، تنظیمیں اور جماعتیں اس تقویٰ آمیز جنگ میں دو لخت ہو چکی ہیں۔ لیکن انکی خبریں اردو اخباروں کی زمین سے اوپر نہیں اٹھ سکیں۔ گویا موت گھر میں ہوئی اور جنازہ آنگن میں دفن ہوکر اک بھولی بسری داستان بن گیا۔

 غالباً یہ پہلا موقع ہے جب علما کی تو تو میں میں سیٹلائٹ کے دوش پر محو پرواز ہے۔ ٹی وی اینکر وں کی طنز آمیز لذت اندوزی ٹی وی کے سکرینوں کو فریم ٹو فریم رنگین کر کے تماش بینوں کو محظوظ کر رہی ہے۔ یعنی بڑے زبردست انداز میں اسلام کا ‘تعارف’ ہو رہا ہے۔

میں اپنے سینے میں موجود دھڑکتے ہوئے دل کو ٹٹولتے ہوئے سوچتا ہوں کہ جس قیادت پر ہم اپنی عقیدتیں نثار کرتے ہیں، کیا وہ ایسی ہی ہونی چاہیے ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔