ویلنٹائن ڈے کے پردے میں جاگتی ہوس کی بھوک!

حکیم نازش احتشام اعظمی

غیر مصدقہ تاریخ کے مطابق سترہویں صدی عیسویں میں روم سے شروع ہونے والا بے حیائی کو عام کرنے والا شرمناک تہوار انسانی تہذیب کے ساتھ ہماری مشرقی اقدار کو بھی مسخ کرنے میں کا میاب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ خلاصہ کلا م یہ کہ مغرب میں ’’یومِ محبت‘‘ کے طور پر ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے منایا جانے والا یہ تہوارگزشتہ چندبرسوں سے ہندوستان کے مثالی سماج  میں بھی دیمک کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اس دن جو بھی جس کے ساتھ محبت کا دعوے دار ہے اسے پھولوں کا گل دستہ پیش کرتا ہے۔ اب دعویٰ اپنے اندر مروت ووفاداری کے جذبات سے لبریز ہے یا اس کا مقصد صرف ہوس کی پیاس بجھانا ہے یہ ایک قابل غور پہلو ہے۔ حیران کن اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ تہوار منانے والے ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر پائے ہیں کہ یہ دن منانے کی وجہ کیاہے۔ غور طلب ہے کہ اس نام نہادتہوار یعنی ’’یوم عشاق ‘‘ کے مفاسد کیا ہیں اور اس سے ہماری تہذیب اور مریا داؤں کا کس طرح خون کیا جارہا ہے اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے ’’ویلنٹا ئن ڈے‘‘ کے بارے میں جاننا ہمارے لئے بے حد ضروری ہے۔ واضح رہے کہ اس حوالے سے مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں ۔

اگر ان روایات کو بھی بنیاد بنایا جائے تو ایک عقل مند اور باشعور انسان اس تہوار کو منانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کوئی بھی باغیرت اور باحمیت شخص کبھی یہ گوارا نہیں کرے گا کہ کوئی راہ چلتا شخص اس کی بیٹی کو پھولوں کا گل دستہ پیش کرتا پھرے۔ اسی طرح کوئی بھی باحیا، با غیرت اور پاکدامن لڑکی کبھی یہ پسند نہیں کرے گی کہ اس کا کلاس فیلو، یونیورسٹی فیلو یا کوئی بھی راہ چلتا نوجوان اسے پھول پیش کرے اور محبت کی پینگیں بڑھائے۔ انسانیت کو سلام کہہ چکے جدید یت پر جان لٹادینے والے نئے معاشرہ کا جس میں جدید اور عصری دانش گاہوں میں مغربی طرز معاشرت کا اسیربن چکے طبقہ کی تعداد زیادہ ہے اگر ان کی فکروں کو ٹٹولیں تو یہ جان کر آپ انگشت بدندان رہ جائیں گے کہ بظاہر روشن خیال باور کرانے والا یہ طبقہ دوسروں کی عصمت سے کھیلنے کیلئے تو لبرلزم کا حامی ہے مگر بات اپنی بہن، بیٹیوں پر آ جائے تو اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک جاتی ہے۔

اگر یہ طبقہ کسی دوسرے کی بہن، بیٹی کو رجھانے اور عشق کے نام نہاد لفظوں کا جادو چلاکر آبرو نوچ لیں بھنبھوڑلے تو اسے یہ روشن خیالی کہتا ہے اور جدیدیت کے مکاروں کی اصطلا ح میں یہ کوئی برائی بھی نہیں ہے۔ مگر جب انہیں معلوم ہوجائے کہ خود ان کی بہن یا بیٹی اسی روشن خیالی کی بھینٹ چڑھ کر کسی دوسرے کی بانہیں گرم کررہی ہے تو ان کی ساری روشن خیالی کافور ہوجاتی ہے اور لمحہ بھر کیلئے بھی یہ سوچنا گوارا نہیں کرسکتے کہ یہ خود ان کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ مجھے آج اسی پس منظر میں آ نجہانی انکت یاد آ رہا ہے، جس سے اسی قسم کی ناپاک سوچ نے جینے کا حق چھین لیا کہ اگر کسی غیر کی بہن بیٹی کو ہوس کا نشانہ بنانے کیلئے لفظ ’’ محبت ‘‘ کو رسوا کردیں تو یہ جائز ہے۔ مگر کوئی دوسرا اگر اسی طرح  ہماری بہن، بیٹیوں کے قدموں میں پھول نچھاور کرے تو وہ قابل گردن زدنی ہے۔

ہم  روشن خیال اور لبرل کہلانے کے شوق میں یہ بھول گئے کہ مغرب کا بے حیا سماج جسے لبرلزم اور آزادی باور کراکر آوارگی کا سرٹیفکیٹ بانٹ رہا ہے اسے ہی ہمارے ہندوستانی اور مشرقی معاشرے میں بدچلنی اور اقدار شکنی کہا جاتا ہے۔ ہم یہ بھی بھول گئے انسانیت کی قباسے آزاد ہوچکا مغرب اب بن بیاہی ماؤں کو قبول کرچکا ہے اور یہ بات اس کے یہاں معیوب نہیں رہ سکی، حد تو یہ ہے کہ آج مغرب کے اسکولوں میں بچے اپنی ماؤں کے نام سے جوڑے جاتے ہیں اوربچے کا باپ کون ہے اسے بہت زیادہ سیریس نہیں لیا جاتا۔ جبکہ ہمارا ہندوستانی سماج اور مشرقی تہذیب اپنی نسلوں کے تحفظ اور خاندانی شناخت سے رشتہ جوڑنے کو ہی قابل فخر اور باعث احترام سمجھتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ’’بے حیائی‘‘ کو تہوار کانام دے عشق و محبت جیسے پاکیزہ الفاظ کو رسوا کرنے پیچھے مقصد کیا ہے اور اس بے غیرتی و ہوس پرستی کی تاریخ کہاں سے شروع ہوتی ہے۔

ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ اس دن کے حوالے سے مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں جن میں سے کوئی مستند نہیں ہے، البتہ ایک خیالی داستان جو اس حوالے سے بہت مشہور ہو چکی ہے، اسے بطور مثال ذکر کرتے ہیں : کہا جاتا ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ’’ ویلنٹائن ‘‘ نامی ایک پادری کو ایک راہبہ سے ’’عشق‘‘ ہو گیا۔ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا اور اب بھی ممنوع ہے۔ اس نے عشق کو انتہا تک پہنچانے کیلئے ایک ڈرامہ رچایا اور اپنی معشوقہ سے کہاکہ ’’مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ اگر 14 فروری کو راہب اور راہبہ (بغیر نکاح کے) صنفی ملاپ کر لیں تو ان پر کوئی حد نہیں لگے گی۔ ‘‘ راہبہ اس کے چکر میں آ گئی اور دونوں ’’جوشِ عشق‘‘ میں ’’منہ کالا‘‘ کر بیٹھے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر انھیں قتل کر دیا گیا۔ اس پادری کا نام ’’ویلنٹائن‘‘ بتایا جاتا ہے جسے بعد میں بے حیائی کے پرچم برادرنام نہاد ’’عشاق‘‘ کی طرف سے ’’شہیدِ محبت‘‘ کا لقب دیا گیا۔ اسی عاشق راہب ویلنٹائن کی یاد میں ہر سال 14 فروری کو ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔

یہ وہ داستان ہے جس کی بنیاد پر ایک جنونی گروہ مشرقی معاشرے خصوصاً برصغیر پاک وہند میں بے حیائی کو فروغ دے رہا ہے۔ باعثِ شرم یہ ہے کہ اس عاشق راہب اور معشوقہ راہبہ کا جس مذہب سے تعلق تھا وہ اس تہوار کو اپنا ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ مگر مسلمان ہیں کہ بے حیائی کے اس کلچر کو دل و جاں سے قبول کیے ہوئے ہیں ۔ باعثِ صد افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر  چھایا ہوا ایک مخصوص گروہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کو ’’یومِ تجدید محبت‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ماضی قریب تک ایسی ’’محبت‘‘ کو باعث عار سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب اسے باعث افتخار سمجھا جانے لگا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اگر کسی کو عشق کی بیماری لگ جاتی تو وہ معاشرے میں اپنی عزت کو برقرار رکھنے کی خاطر اپنے اس مرض کو ظاہر نہیں کرتا تھا۔ مگر آج صورت حال یہ بن چکی ہے کہ ہمارا میڈیا اس مرض کو ایک ’’مقدس شے‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ مشرق میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ویلنٹائن جیسی واہیات تقریبات کو رواج دیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ ہمارے یہاں ابتداء میں مشنریز اوراین۔ جی۔ اوز کے تحت چلنے والے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں باقاعدہ طور پر اس بے ہودہ تہوار کو منایا جاتا تھا، مگر اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ قدروں اور مریاداؤں اور آستھا ؤں کی محافظ کہلانے والی حکومت کے زیر انتظام یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں بھی یہ وبا ڈیرے ڈال چکی ہے۔ یقینا ان سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے ہمارے ہی بچے، ہماری ہی بیٹیاں اور بہنیں ہوتی ہیں جن کو دنیاوی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب اور دین سے دور بھی لے جایا جا رہا ہے۔ گلی کوچوں ، محلوں ، بازاروں ، کالجوں اور یونیور سٹیو ں میں لفنگے نوجوان ان با حیا اور شریف لڑکیوں کو پھول پیش کر کے چھیڑ خانی کرتے رہتے ہیں جو اپنے آپ کو مغربی تہذیب سے محفوظ رکھنا چاہتی ہیں ۔ عفت و عصمت کی پیکر یہ لڑکیاں اس بداخلاقی کا جواب دینے کے بجائے عزت بچا کر وہاں سے بچ نکلنے ہی میں عافیت سمجھتی ہیں ۔ مختصر یہ کہ اگر واقعی ہمیں اپنی تہذیب اور اپنے دین و اقدار سے محبت ہے تو دوسروں کی بہنوں ، بیٹیوں اور ماؤں کی رانیں دیکھ کر سیٹیاں بجانے والوں کو پہلے اپنی بہن، بیٹیوں کو نیکر پہنا دینا چاہئے۔

بد نظر اٹھنے ہی والی تھی کسی کی جانب

اپنی بیٹی کا خیال آیا تو دل کانپ گیا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    زوال پذیر معاشرے میں بالادست تہذیب کو قبول کرنے کا رجحان بڑھتا ہے..

    پھراسی زوال پذیر معاشرے میں اسی بالا دست تہذیب کو قبول کرنے سے مزاحمت کا عنصر توانا ہو توامید ابھی باقی ہوتی ہے.

    اور مزاحمت تو کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتی ہی ہے.

    اب اگر مزاحمت معاشرے میں غالب ہو جائے تو زوال میں تعطل بھی آتا ہے جبکہ مزاحمت مغلوب ہو جائے تو زوال نوشتہ دیوار ہوا کرتا ہے.

    فی زمانہ.. مغربیت زدگی ہمارے ہاں کی ایسی ایسی ہی مزاحمت کا گلا دبانے میں مصروف ہے اور مزاحمت کاروں کے کیمپ میں کہیں کہیں کوئی کوئی دانش مندی کا چراغ روشن ہے .

    کوئی اگر کہ دے کہ
    ہم زوال پذیر قوم ہیں،

    معذرت چاہتا ہوں،
    میں متفق نہیں ہوں،
    بلکہ
    ہم اپنے زوال سے برسر پیکار ہیں،

    اور بازی ابھی باقی ہے،

    جب کوئی قوم دنیاوی طور پر غالب آتی ہے تو ان کے طور طریقے مغلوب قوموں میں رائج ہوجاتے ہیں ۔ ہم بحیثیت قوم تیزی سے تنزلی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ عوام اسی طریقے کو اپناتی ہے جو زمانے کی اشرافیہ میں مقبول ہوتا ہے۔ ویلنٹائن کی تاریخ بتانے کے بجائے دین اسلام کا صحیح تشخص بحال کرنے کی سنجیدہ محنت کریں۔۔ جہاں بھی دین معتبر ہے وہاں ویلنٹائن ڈے سمیت کسی بھی خرافات کو عمومی طور پر پزیرائی نہیں ملتی.

تبصرے بند ہیں۔