جنگِ پیپسی اور کوکا کولا: حیرت انگیز جنگ

وقاص چودھری

  کولا وار  کی اصطلاح امریکہ میں 1980 کی دہائی میں ابھری، اس کا مقصد کوکا کولا کمپنی اور پیپسی کمپنی کے بیچ ہونے والے ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کے طریقہ کار کو بیان کرنا تھا، دنیا کے زیادہ تر ممالک میں کوکا کولا سب سے زیادہ مشہور اور پسند کی جانے والی کمپنی ہے، دوسرا نمبر پیپسی کا ہے، دونوں کمپنیوں کے بیچ سخت مقابلہ دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔

کوکا کولا پہلی بار 18886 میں امریکہ میں قائم ہوئی، اس کے اصل ریسیپی میں کوکا کے پتے اور تھوڑی سی کوکین شامل تھی، آغاز میں اس کمپنی کا دعوی تھا کہ کوکا کولا پینے سے سر درد دور ہوتی ہے اور انسان کو ایک خوشگوار احساس حاصل ہوتا ہے، اسے ‘برین اینڈ نرو ٹانک’ کا نام دیا گیا۔

1893 میں پیپسی کمپنی کی بنیاد رکھی گئی، اس کی ریسپی میں پیپسن اور کولا نٹ شامل تھے، ابتدائی طور پر پیپسی کا دعوی تھا کہ پیپسی نظام انہضام کو بہتر کرتی ہے اور انسان کو صحت مند بناتی ہے۔

1900کی دہائی کے آغاز میں جب الکوحل کا استعمال امریکہ کے لیے ایک مسئلہ بن گیا اور بہت سے سماجی گروپوں نے الکوحل پر پابندی کا مطالبہ شروع کیا تو کوکا کولا اس لابی کا حصہ بن گئی، اس کے نتیجہ میں 1903 میں کوکا کولا نے اپنے فارمولا سے کوکین کو خارج کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی جگہ کیفین کا استعمال شروع کیا، تب سے اس نے اپنے آپ کو دی گریٹ نیشنل ٹمپرینس بیوریج قرار دینا شروع کیا۔

1915 : کوکا کولا نے امریکہ میں ترقی کا سفر جاری رکھا تو پیپسی نے بھی مقابلہ جاری رکھتے ہوئے اپنے پراڈکٹس کے ریٹس کم اور بوتلوں کا سائز کوکا کولا کے مقابلے میں بڑا رکھنے کو ترجیح دی، اس کے علاوہ پیپسی نے ہر بوتل کے ساتھ اسٹرا کی سہولت بھی فراہم کر دی۔

1920 کی دہائی میں امریکہ میں معاشی بہتری آنے کے بعد امریکی صدر نے اعلان کیا کہ امریکہ کا کام صرف بزنس ہے، کوکا کولا نے بھی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے اسی نعرے کو اپنے اشتہار میں استعمال کیا۔

1929 میں امریکہ کی معیشت کو ایک بڑا دھچکا پہنچا۔بہت سے تاجر دیوالیہ ہو کر رہ گئے اور لاکھوں امریکی بے روزگار ہو گئے، 1931 میں پیپسی نے دیوالیہ ہونے کا اقرار کر لیا۔

1935 کوکا کولا کمپنی ٹوٹنے سے بچ گئی اور اپنا امیج برقرار رکھنے میں کامیاب رہی، 1930 کی دہائی میں اس نے امریکی شہریوں کو تسلی دیتے ہوئے وقفہ لے کر کوک کے ڈرنک سے مدد لینے کا مشورہ دیا اور اسے امریکی وے آف لائف قرار دیا۔

1934 میں پیپسی نے دیوالیہ پن سے چھٹکارا حاصل کیا اور لوگوں کو اپنے بارے میں یاد تازہ کروائی۔

1939، دوسری جنگ عظیم کے دوران کوک نے جرمنی میں ایک پلانٹ قائم کیا جو اس وقت نازی حکمرانوں کے زیر تسلط تھا، یہیں پر کوک کا دوسرا فلیور فانٹا متعارف کروایا گیا۔

1942: دوسری جنگ عظیم کے دوران کوکا کولا نے کچھ ایسے اشتہارات بنائے جن میں کمپنی کو محب وطن کے طور پر پیش کیا گیا، ان اشتہاروں کے ذریعے امریکی عوام کو اپنے آبائی وطن کی یاد دلانے کی کوشش کی گئی۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران پیپسی نے دعوی کیا کہ یہ زیادہ کیلوریز کے ذریعہ جنگ میں امریکی فوجیوں کے لیے مددگار ثابت ہوئی۔

1947 میں پیپسی نے پہلی بار سیاہ فارم امریکیوں کو اپنے اشتہاروں میں جگہ دی، اس وقت تک سیاہ فارم امریکیوں کو حبشی کہا جاتا تھا اور انہیں سیاسی اور سول حقوق سے محروم رکھا جاتا تھا۔

پیپسی کو ایسا کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا جب کچھ امریکی ریاستوں کے نسل پرست باشندوں نے پیپسی کو بائیکاٹ کی دھمکیاں دینا شروع کیا، لیکن ساوتھ میں موجود سیاہ فارم لوگوں میں پیپسی تیزی سے مقبول ہوئی اور فروخت میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا۔

1950 کی دہائی کے اوائل میں جب امریکی معیشت ایک بار پھر بہتری کی طرف گامزن تھی، کوکا کولا نے اپنے پراڈکٹس کو امن اور آشتی کا ذائقہ قرار دیا، پہلی بار اس کمپنی نے اپنے آپ کو کوک کے نام سے متعارف کروایا۔

اسی دوران پیپسی نے اپنا ترقی کا سفر جاری رکھا جب کہ کوکا کولا خوشحالی کی تلاش میں مگن رہی۔

1955 میں کوک نے پہلی بار سفید فارم امریکیوں کو اپنے اشتہاروں میں شامل کیا۔

پیپسی نے سفید فارم عوام کو اپنی سپلائی جاری رکھی، لیکن چونکہ جنوبی ریاستوں میں اسے سرد مہری کا ثامنا تھا اس لیے پیپسی نے ان علاقوں میں ایک مختلف مہم شروع کی اور اپنے آپ کو southern goodness قرار دیا۔

پاکستان میں کوکا کولا کا پہلا پلانٹ 1953 میں قائم ہوا۔

پیپسی نے امریکی نائب صدر رچرڈ نکسن کی بین الاقوامی برانڈ ایمبیسیڈر کے طور پر خدمات لیں ، پیپسی نے نائب صدر کو درخواست کی کہ وہ سوویت کمیونسٹ لیڈر نکیتا کھروشیو کو پیپسی کا گھونٹ لینے پر آمادہ کریں ، نکسن نے یہ کام 1959 کے ماسکو کے دورے پر کر دکھایا، پیپسی نے اس موقع پر لی گئی تصاویر کو اپنی مارکیٹنگ کے لیے بھر پور طریقے سے استعمال کیا۔

پیپسی پاکستان مارکیٹ میں 1959 میں پہلی بار دکھائی دی۔

1961: پیپسی کے لیے 60 کی دہائی میں دیکھی جانے والی تبدیلی ترقی کا ایک ذریعہ ثابت ہوئی، اس دوران پیپسی نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے نیا نعرہ متعارف کروایا، یہ نعرہ تھا: now it is Pepsi for those who think young

1963 میں نفع میں بتدریج کمی کی وجہ سے پیپسی پاکستان سے نکلنے پر مجبور ہو گئی۔

1965 میں میڈیا نے نوجوانوں کو ایک نئی نسل قرار دیا اور اسے We Generation کا نام دیا، پیپسی نے اس جنریشن کی ملکیت کا دعوی کرتے ہوئے اسے پیپسی جنریشن کا نام دے ڈالا۔

جب رچرڈ نکسن 1969 میں امریکی صدر بنے تو انہوں نے کوک کو پیپسی سے ری پلیس کر دیا اور اسے وائٹ ہاوس کا آفیشل ڈرنک قرار دیا۔

1960 کی دہائی میں جب دنیا بھر کے طلبا نے شدت اور احتجاج کا راستہ اپنایا تو کوکا کولا نے ان نوجوانوں کا ساتھ دیتے ہوئے انہیں ٹھنڈا رہتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کرنے پر ابھارا۔

1969 میں کوک پہلی بار اپنی سب سے مشہور سطر کے ساتھ سامنے آئی، یہ سطر یوں تھی: it is the real thing

1972 نیو ایج ٹرینڈ اور موومنٹ کی وجہ سے خاص طور پر پیس موومنٹ کی بدولت ایک کوک ٹی وی کمرشل نے امریکی معاشرے کے ملٹی کلچرل نیچر کو سامنے لانے کی ٹھانی، یہ کمرشل بہت زیادہ مقبول ہوئی اور اس کا پیغام I would like to teach the world to sing پاپ ہِٹ کہلایا۔

پیپسی 1972 میں پہلی بار سوویت یونین میں داخل ہوئی، کوک بھی اسی سال سوویت یونین پہنچی لیکن امریکی حکومت نے اسے تسلیم نہیں کیا، البتہ کوک نے سرکاری طور پر 1979 میں فانٹا کے ذریعے سوویت یونین میں اپنا نیٹ ورک پھیلایا۔

پیپسی چلی کا سب سے مقبول ڈرنک قرار پائی، 1973 میں امریکی مدد سے ملٹری بغاوت کے زریعے منتخب سوشلسٹ گورنمنٹ کو باہر کر دیا گیا، بعد میں معلوم ہوا کہ 1970 میں منتخب حکومت قائم ہوئی پیپسی کولا اور دوسری بڑی امریکی کمپنیاں چلی میں موجود تھیں نے اپنے تحفظات سے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر کو آگاہ کیا تھا اور اشارہ دیا تھا کہ اس میں امریکی مداخلت کے آثار موجود ہیں ۔

1973: 70 کی دہائی کے آغاز میں We Generation سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ سیلف سیکنگ بننے لگے۔

سوشیالوجسٹ ٹام وولف کے مطابق We Generation نے Me Generation کے سامنے ہاتھ ٹیک دیے تھے، اس تبدیلی کا جشن مناتے ہوئے پیپسی نے بھی لوگوں کو ایک فر کی حیثیت سے مخاطب کیا۔

1970 کی دہائی کے آخر میں کوک بھارت سے واپس جانے پر مجبو ر ہوئی جس کی وجہ سخت فارین ایکسچینج ریگولیشن رولز تھے، اس وقت تک پیپسی بھارت میں نہیں آئی تھی اور کوک کے جاتے ہیں ایک دوسرے ڈرنک کو بھارت میں داخل ہونے کا موقع ملا جسے Thumbs Up کہا جاتا تھا۔

پیپسی نے 70 کی دہائی کا مشہور بمپر سٹیکر have a nice day متعارف کروایا، 1975 میں اسے تبدیل کر کے Have a Pepsi Day بنا دیا گیا۔

1975 میں جب امریکی فوج نے ویتنام جنگ کا خاتمہ کیا اور صدر نکسن اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے تو کوک نے امریکیوں کو نئے راستے کی تلاش پر ابھارا اور اس کے لیے نعرہ look up متعارف کروایا۔

1977: کولا وار کھلے عام شروع ہوئی جب پیپسی نے پیپسی چیلنج کا انعقاد کرنے کا فیصلہ کیا جس میں پیپسی کے نمائندوں نے عوامی جگہوں پر ٹیبل لگا کر 2 سفید کپ میں پیپسی اور کولا میں سے ایک کا انتخاب کرنے کا کہا۔

عوام کو موقع دیا گیا کہ وہ دونوں کپس میں سے چکھ کر ایک فلیور کا انتخاب کریں ، رزلٹ کے مطابق عوام نے پیپسی کو ترجیح دی۔

یہ مہم 1980 تک وسیع کر دی گئی اور پیپسی کو فینز کی توجہ حاصل ہونے لگی اوراس کی وجہ پیپسی چیلنج کمپین کے نتائج تھے۔

جب ڈیموکریٹک پارٹی کے جمی کارٹر 1977 میں امریکی صدر بنے تو انہوں نے پیسپی کو وائٹ ہاوس سے باہر کرے کے کوک کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔

اس وقت تک کوک ڈیموکریٹک پارٹی سے جڑ چکی تھی اور پیپسی نے ری پبلکن پارٹی کا انتخاب کر لیا تھا، یہ ایک مضحکہ خیز بات تھی کیونکہ کوک کا فلسفہ پیپسی کے مقابلے میں زیادہ قدامت پسند تھا۔

پیپسی ایک بار پھر پاکستان مارکیٹ میں 1979 میں داخل ہوئی، اس بار پیپسی کی ٹی وی کمرشل کو بھی اردو میں ترجمہ کے ساتھ پیش کیا گیا۔

1980 پیپسی yuppie بننے میں کامیاب ہوئی، 1970 کی دہائی کی Me Generationمیں تبدیلی کر کے اسے Gimme Generation قرار دیا گیا۔

1980 میں پیپسی نے Gimme Generation کے ساتھ باتیں شروع کر دیں ، اب اس کا نعرہ تھا: ‘Pepsi’s Got Your Taste For Life’.

دی گڈ لائف، کوک ابھی زیادہ پیچھے نہیں تھی، 1982 میں کمپنی نے بتایا کہ باکارڈی رم کوک کے ساتھ بہترین مزا دیتی ہے۔

مئی 1985 کے ٹائم میگزین کا کور،  امریکہ میں 60 فیصد شئیر کا مالک ہونے کے باوجود کوک کے شئیرز 1983 میں گر کر 23 فیصد تک جا پہنچے۔کمپنی بہت مشکلات میں گھر گئی، رد عمل میں کوک نے 1985 میں اوریجنل ریسیپی کو اپنا اور نیو کوک متعارف کروائی، یہ بھی ایک غلط قدم ثابت ہوا، بہت جلد لوگ کوک کی بوتلیں گلیوں میں بہانے لگے، پیپسی نے نیو یارک ٹائمز میں پورے صفحے پر اپنی ایڈ شائع کروائی جس میں پیپسی کو کولا وار کا فاتح قرار دیا گیا۔

1985، پرانی کوک کی خبر فرنٹ پیج پر شائع ہوئی، تین ماہ کے اندر کوک آسانی سے اوریجنل کوک کو کوکا کولا کلاسکس کے طور پر واپس لانے میں کامیاب ہوئی۔حیران کرنے والی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کوک کے سخت ری ایکشن اور میڈیا پر جاری جنگ کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ کوک کا مومنٹم بحال ہو گیا جو اس کمپنی کے ایگزیکٹو اور ایڈورٹائزنگ ایجنیساں بحال کرنے میں ناکامی کا سامنا 1976 کے بعد سے کر رہی تھیں ، کوکا کولا کلاسکس کی آمد کے بعد کوک کی فروخت کی شرح تیزی سے بڑھنے لگی۔

۔The gimme Generation نے اس کے اپنے ثقافتی برانڈ پیدا کرنے شروع کیے، چونکہ Gimme Generation زندگی کے بہت سے انتخابات کے کنسیپٹ سے بھر پور لطف اٹھا رہی تھی اسلیے پیپسی نے چائس آف نیو جنریشن کا اعزاز حاصل کر لیا۔

1984 میں thriller نامی البم کی شاندار کامیابی کے بعد پیپسی نے مائیکل جیکسن کی برانڈ ایمبیسیڈر کے طور پر خدمات حاصل کیں ۔

1987 میں پیپسی نے پاکستان کے مشہور کرکٹر عمران خان کو سائن اپ کیا، اس وقت تک پیپسی نے کوک کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اور پاکستان کا سب سے بڑا برینڈ بنا چکا تھا۔ انڈیا کی نئی ڈی ریگولیشن پالیسیوں کے تحت کوک 1993 میں واپس اس ملک میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا، اسی سال پیپسی نے انڈیا میں اپنا ڈیبیو کیا۔

80 کی دہائی کے اواخر میں Gimme Generationکی خصوصیات (ethos) کو ایک جھٹکا پڑا اور جواب میں 1990 ایک ایسی دہائی قرار پائی جس میں نئے concepts متعارف ہوئے جن میں ملٹی کلچرلزم کو خاص اہمیت حاصل تھی، اس نئی جنریشن کو جنریشن x کا نام دیا گیا، پیپسی نے اسے جنریشن نیکسٹ کا لیبل دیا۔

1990 کی دہائی میں ایک شفٹ کی توقع رکھتے ہوئے کوک نے 1960 کی دہائی کے نعرے the real thing کو زندہ کرنے کی کوشش کی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کوک ہی اصل میں حقیقی کولا ہے۔

کرکٹ سٹارز پر بہت زیادہ انوسٹ منٹ کے علاوہ پاکستان میں پیپسی نے لوکل پاپ ایکٹ کو بھی سائن اپ شروع کرنا شروع کیاجس کا آغاز 1980 اور 1990 کی دہائی کے بیچ میں ہوا تھا، پیپسی نے کولا مارکیٹ کے 62 فیصد شئیر پر کنٹرول حاصل کر لیا۔

اگرچہ کوک کو کئی دہائیوں سے بھارت اور پاکستان میں اولمپکس سے جوڑا جا رہا تھا، پہلی بار یہ ایک بڑے سپورٹنگ ایونٹ کا سپانسرر بنا، یہ 1996 کے پاکستان، بھارت اور سری لنکا میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کا آفیشل ڈرنک قرار پایا۔

2000 کی دہائی میں نوجوانوں کو زیادہ شعور حاصل ہو چکا ہے جس کی وجہ انٹرنیٹ کی دستیابی تھی، سوشل میڈیا کی وسعت کے ساتھ ساتھ نئی نسل اپنی رائے کے معمالے میں زیادہ ضدی بن گئی، سوشیالوجسٹ حضرات نے اسے جنریشن y کا نام دیا۔

1990 کی دہائی کی جنریشن x کے مقابلے میں جنریشن y بہت زیادہ ڈیمانڈنگ ہو گئی، نئی جنریشن کا مرکزی خیال ‘وانٹ مور’ بن گیا، یہ ایک ایسے دور میں پروان چڑھ رہا تھا جہاں ٹیکنالوجی ہر طرح کے سماجی اور ٹیکنالوجیکل حدود کو چیلنج کر رہا تھا، 2000 کی دہائی کے آغاز میں پیپسی کے نعرے نے جنریشن y کے کلچرل ڈائنیمک کو محدود کرنے کی کوشش میں dare for more کا نعرہ متعارف کروایا۔

کوک نے 2000 کی دہائی میں جنریشن y کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنی اپیل کو دہرایا، اس نے ایک نئے طریقے سے خوشی کے کنسیپٹ کو کیپچر کرنے کی کوشش کی۔

1960 کی دہائی سے کوک کو ڈیموکریٹک پارٹی سے ایسوسی ایٹ کیا گیا جب کہ پیپسی کو ری پبلکن پارٹی کے ساتھ جوڑا گیا، لیکن 2008 کے امریکی صدارتی الیکشن میں یہ سلسلہ تبدیل ہو گیا اور پیپسی نے ڈیموکریٹک پارٹی کے باراک اوبامہ کا ساتھ دینا شروع کیا جب کہ کوک ری پبلکن امیدوار جان مکین کا حمایتی تھا۔

پاکستان میں جہاں 1980 کے اواخر سے پیپسی نے کوکا کولا کمپنی کو کارنر کیے رکھا، کوک نے 2010 کے بعد سے ترقی کا سفر شروع کیا، اس نے پیپسی کو کئی دہائیوں بعد پہلی بار دباو میں ڈال دیا، جب پیپسی نے 2000 کے اوائل میں لوکل پاپ میوزک کو ترک کر دیا اور صرف کرکٹ تک اپنے آپ کو محدود کر لیا کوک سٹوڈیو نے اس خلا کو پر کیا، یہ ایسا شو تھا جو علاقے میں بہت تیزی سے مقبول ہو گیا، بدلتی قسمتوں کے ساتھ پہلی بار پاکستان میں کوک ایک ٹرینڈ سیٹر بن گیا اور پیپسی اس کا فالوور بن گیا۔

2017 میں ایک پیسی ایڈ میں ایک مظاہرہ کرنے والے شخص کو پولیس افسر کو پیپسی پیش کرتے ہوئے دکھایا گیا جس پر پیپسی کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، اسے ایکٹوازم کو اہمیت دینے کی کوشش قرار دیا گیا، حالات کو دیکھتے ہوئے اس ایڈ کو ہٹا دیا گیا۔

پاکستان میں ٹرینڈ سیٹنگ کا نیا سٹیٹس دیکھتے ہوئے کوک کمپین نے یہ مشورہ دیا کہ عوام کو چائے کی بجائے کوک پینے کو ترجیح دینی چاہیے، چونکہ پاکستان میں چائے بہت زیادہ پی جاتی ہے اس لیے اس مشورہ پر کمپنی کو مذاق کا نشانہ بنایا گیا۔

تبصرے بند ہیں۔