ملک شام کی تہذیبی و تاریخی اہمیت

محمد وسیم

اس سے پہلے کی تحریروں میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ ادیان سماویہ میں تینوں مذاہب کے نزدیک یہ سرزمین بڑی اہمیت کی حامل ہے ، اسلام میں مکہ و مدینہ کے بعد سب سے متبرک خطہ بلادِ شام ہی کو مانا گیا ہے ، آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی حیاتِ طیبہ میں اس خطہ کی بڑی اہمیت رہی ہے ، آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے جزیرہء عرب سے باہر نبوت سے پہلے اسی ملک کا سفر کیا ، بچپن میں اپنے چچا ابو طالب کے تجارتی قافلہ کے ساتھ ، جوانی میں ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے تجارتی قافلے کو لے کر ، جزیرتہ العرب سے باہر آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی حیاتِ طیبہ میں اسلام کا سب سے پہلا غزوہ اسی سرزمین پر واقع ہوا جو ‘غزوہ موتہ’ کے نام سے معروف ہے ، غزوہء موتہ کے ایک سال بعد آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے یوروپ والوں کو کرارا جواب دینے کے لئے اپنی حیاتِ مبارکہ کا سب سے بڑا اسلامی لشکر لے کر اسی ملک کا رخ فرمایا ، ہجرت کے 9 ویں سال سیرت کے عظیم واقعات میں اسے ‘غزوہء تبوک’ کے نام سے جانا جاتا ہے

آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اس خطہ کی طرف اپنی توجہ برقرار رکھی ، آپ نے غزوہء موتہ کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ایک دوسری فوج تشکیل دی جو ‘جیش اسامہ’ کے نام سے جانی جاتی ہے ، اس فوج کی مہم جوئی سے قبل ہی آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم اس دنیا سے رخصت فرما گئے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے فرمان کے مطابق ان عظیم خطرات کے باوجود جو آپ کی وفات کے بعد فتنہء ارتداد اور منافقین کی شکل میں سامنے کھڑے تھے ، جیش اسامہ کو اپنی مہم پر بهیجا ، اس فوج کی کامیاب مہم جوئی کے عظیم فوائد جلد ہی سامنے آگےء ، اس خطہ پر اسلام کی ہیبت بیٹهتے ہی سارا عرب دوبارہ اسلام کے کنٹرول میں واپس آگیا

سرزمینِ شام پر اسلام کا سب سے پہلا معرکہ ‘غزوہء موتہ’ درحقیقت اسلام اور عیسائیت کے بیچ پہلا معرکہ تها ، اس معرکہ میں اس سرزمین کی اہمیت بھی اسی دن سے طے ہوگئی ، اس دن کے بعد سے آج تک اسلام و عیسائیت کے مابین ساری جنگیں اسی خطے کے گرد گھومتی ہیں ، کل کے صلیبی حملے اور آج کے نئے صلیبی حملوں کی تاریخ اس پر گواہ ہے ، غزوہء موتہ شام میں لڑی گئی ، جس میں ایمان کی قوت اور جہاد کے معجزانہ پہلو کچھ اس طرح جلوہ گر ہیں کہ اس کا مطالعہ ہر دور میں ایمان کو قوت بخشتا ہے ، اور ایک نئی قوت اور نصرتِ الٰہی کی بشارت دیتا ہے ، جزیرتہ العرب سے باہر 8 ہجری میں اسلامی تاریخ کا سب سے پہلا غزوہ ‘غزوہء موتہ’ سرزمینِ شام پر ہی واقع ہوا ، یہ جنگ تاریخِ انسانی کی سب سے انوکھی جنگ تهی بلکہ اسے ایک معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے ، غزوہء موتہ کے قائدین زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ،  جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ تھے ، جو شہید ہوئے ، اس کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کمان سنبھالی

غزوہء موتہ کا معجزاتی پہلو یہ تھا کہ مسلمانوں کی تعداد فقط 3000 تھی ، اس تین ہزار کی چھوٹی سی فوج کے سامنے رومیوں نے 2 لاکھ کی فوج کا پہاڑ کھڑا کر دیا تھا ، مسلمانوں نے پھر بھی اس سے ٹکرانے کا فیصلہ کر لیا ، ایک ایسی فوج سے جو اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور فوجی قوت مانی جاتی تھی ، جو مسلمانوں کے مقابلے بہت ہی Advance ہتھیاروں اور جنگی وسائل سے لیس تھی ، اگر رومیوں کی فوج صرف مارچ کر جاتی تو مسلمانوں کی چھوٹی سی تعداد کو گردو غبار میں اڑا دیتی ، صحابہء کرام بھی اتنی بڑی فوج کو دیکھ کر ششدر رہ گئے ، وہ بھی سوچ میں پڑ گئے کہ ان حالات میں کیا کیا جائے ؟ بہتر ہوگا کہ مدینہ میں ‘ہائی کمانڈ’ کو اس صورتِ حال کی اطلاع دی جائے ، اس فوج سے ٹکرانا خود کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہوگی ، لیکن عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ جو شاعرِ رسول تھے اور شوقِ شہادت میں برجستہ شعر کہتے تھے ، صحابہء کرام کے شوقِ شہادت کو چھیڑا ، ان کے اس یادگار جملے نے ‘ہم عدد سے نہیں ، ایمان کی طاقت سے لڑتے ہیں’ اصحابِ رسول کو رومن امپائر کے لئے قدرت کا تازیانہ بنا دیا

سرزمینِ شام پر کفر و ایمان کے بیچ یہ پہلا معرکہ تھا ، گرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کی بذات خود قیادت نہیں فرمائی پهر بھی اسے غزوہ کہا جاتا ہے ، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہزاروں میل دور بیٹھے اس مہم کے لمحات سے باخبر تھے- بخاری کی روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی خبر دیتے ہوئے فرمایا : زید نے لشکر کا علم اٹهایا اور جام شہادت نوش کیا ، پھر جعفر نے قیادت سنبھالی اور وہ بھی شہید ہوئے ، اسی طرح عبد اللہ بن رواحہ بھی شہادت سے سرفراز ہوئے ، یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، فرمایا : پهر اللہ کی تلوار میں سے ایک تلوار نے قیادت سنبھالی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں مسلمانوں پر کشادگی فرمائی ، یہ خبریں آپ اس وقت دے رہے تھے جب مجاہدین اسلام ہزاروں کلو میٹر دور تھے ، اس جنگ میں جب تینوں قائدین شہید ہوگئے تو اسلامی فوج کے اتفاق سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے قیادت سنبھالی ، دن بھر کی لڑائی کے بعد جب رات کو دونوں فوجوں نے ہتھیار رکھے تو خالد بن ولید کی عبقری فوجی قیادت اپنی تدبیروں میں لگی ہوئی تھی ، پھر اس کے بعد دن میں دورانِ جنگ خالد بن ولید دشمن فوجوں کے سامنے مسلمانوں کی فوجی صف میں تبدیلی کر کے بھیجتے رہے ، جس سے کہ دشمنوں کو نئی فوجی کمک آنے کا احساس ہوا ، اس سے ان کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا ، اس ہیبت کے طاری ہونے کے بعد خالد بن ولید نے بھرپور فوجی حملہ کیا اور ان کو شکست سے دوچار کیا

خود حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی زبانی اس دن انهوں نے نو تلواریں رومیوں کو مارتے ہوئے توڑیں ، جب تلوار نہ ملی تو ایک تلوار نما ‘یمنی لو ہے’ سے لڑنا شروع کیا ، ساتھ ہی آپ نے فوجی نظم و ضبط کے ساتھ اپنی فوج کو پیچھے ہٹانا شروع کیا ، اس طریقے سے رومی ڈر گئے کہ یہ مسلمانوں کی کوئی چال ہے ، اس طرح سے خالد بن ولید مسلمان فوجوں کو کامیابی اور عزت کے ساتھ نکال کر واپس لے آئے ، اس غزوہ کا معجزاتی پہلو یہ تھا کہ اس میں جہاں دشمنوں کے لا تعداد فوجی مارے گئے وہیں مسلمانوں میں سے صرف 13 صحابہء کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا ، مسلمانوں کی اس عظیم کامیابی سے اس وقت ظلم و زور پر قائم دنیا کی حکومتیں اسلام کی اس دهمک سے کانپ اٹهیں- اور اسلام کی حقانیت دشمنوں کے دلوں میں چھاپ چهوڑ گئی۔

تبصرے بند ہیں۔