ملک پر ایمرجنسی کا سایہ بڑھ رہا ہے

عبدالعزیز

جب سے مودی جی نے دہلی کی کرسی سنبھالی ہے ملک طرح طرح کی آفتوں سے دوچار ہے۔ انھوں نے جو سیدھے سادے ہندستانیوں کو اچھے دن کا خواب دکھایا تھا وہ تو بہت پہلے ہی چکنا چور ہوگیا۔ اب تو لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ ’’مودی جی اچھے دن تو آنے سے رہے، مجھے برے دن ہی لوٹا دیجئے‘‘۔ نریندر مودی کے بزرگ استاد اور مربی مسٹر ایل کے ایڈوانی نے نریندر مودی کے کام کاج کے طریقہ کو دیکھ کر ایک سال بعد ہی یہ کہہ دیا کہ ’’ملک میں ایمرجنسی کا خطرہ لاحق ہے‘‘۔
NDTV (این ڈی ٹی وی) کے ہندی چینل پر مودی جی کے اشارے پر محکمہ اطلاعات و نشریات کی ایک کمیٹی نے ایک روز کیلئے پابندی عائد کر دی۔ ہریانہ کے ایک ریٹائرڈ فوجی نے پنشن اور بقایہ رقم نہ ملنے کی وجہ سے پریشان حال ہوکر خود کشی کرلی۔ دہلی کے ایک اسپتال میں جب دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال اور کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی خود کشی کرنے والے فوجی کے غم زدہ خاندان کو تسلی دینے اور ڈھارس بندھانے کیلئے گئے تو پولس نے انھیں روک (Detain) لیا۔ مسٹر راہل گاندھی کو مقامی جیل میں پولس لے گئی اور دو گھنٹے کے بعد ان کی رہائی ہوئی۔ ٹی وی پر پورا ملک یہ تماشہ دیکھ رہا تھا کہ ریاست کا وزیر اعلیٰ محض اس لئے پولس کی گرفت میں ہے کہ وہ اپنی ریاست میں ایک غمناک واقعہ کے معائنہ اور مشاہدہ کیلئے گیا اور مرنے والے کے خاندان کی تعزیت کیلئے پہنچا ہے۔ اس طرح کے واقعات کسی ملک میں اگر ایمرجنسی نافذ ہوتی ہے جب ہی ہوتے ہیں ۔ محترمہ ممتا بنرجی اور مسٹر لالو پرساد یادو نے کہا ہے کہ ہندستانی قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ نریندر مودی ایک ڈکٹیٹر اور آمر کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ملک میں ایمرجنسی جیسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ ملک کے دیگر لیڈروں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مدھیہ پردیش میں جیل سے باہر نکال کر آٹھ مسلم نوجوانوں کو فرضی انکاؤنٹر کے نام سے انھیں مدھیہ پردیش کی پولس نے گولیوں سے بھون دیا۔ پہلے تو میڈیا اور اخبارات والے نے اس سلسلے میں بہت سے سوالات اٹھائے کہ آٹھ دس گھنٹے میں پولس نے کیسے انھیں پکڑا اور پھر وہ کیسے مال میں جاکر نئے کپڑے خریدے اور پہنے؟ ان میں سے کسی کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے؟ عموماً جیل سے بھاگنے والے سارے لوگ ایک ساتھ نہیں ہوتے بلکہ ادھر ادھر ہوجاتے ہیں۔ یہ سب کیسے ایک مقام اور ایک جگہ پر ملے اور پولس نے انھیں گولیوں سے چھلنی کر دیا؟
مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ وہاں کے وزیر اعلیٰ شیو راج چوہان ہیں۔ ان کے دور حکومت میں ’ویاپم گھوٹالہ‘ ہوا جس میں 50 افراد پر اسرار طریقے سے مار دیئے گئے۔ آج تک انکوائری ہورہی ہے مگر اس پر اسرار واقعہ کی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔
بھوپال میں فرضی انکاؤنٹر کی ویڈیو کلیپنگ اب سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں تک پہنچ رہی ہے، جس میں پولس اپنے بڑے افسر سے کہہ رہی ہے کہ سب کو مار کے کام تمام کر دیا۔ افسر انھیں شاباشی دے رہا ہے۔ یہ سب آوازیں ریکارڈنگ کے ذریعہ سنائی دے رہی ہیں۔ اب تو یہ بات صاف ہوگئی کہ مدھیہ پردیش پولس کی یہ ساری کارستانی ہے، کیونکہ بغیر حکومت کے اشارے کے ایسا بہیمانہ قتل نہیں کرسکتی۔
وزیر اعلیٰ مدھیہ پردیش مسٹر شیو راج چوہان نے پہلے کہا تھا کہ انکاؤنٹر کی NIA کے ذریعہ انکوائری ہوگی۔ پھر کہا کہ CID اس کی انکوائری کرے گی لیکن جب جمعہ کے دن مدھیہ پردیش کی ساری مسجدوں کے نمازیوں کی طرف سے زعفرانی حکومت کی ظالمانہ اور سفاکانہ حرکت کے خلاف پرزور مظاہرہ ہوا تو حکومت نے خانہ پُری کیلئے ہی سہی ایک ریٹائرڈ جج سے انکوائری کا حکم صادر کیا ہے۔
بھاجپا حکومت کے دور میں ملک کی ہر ریاست میں جو کچھ ہورہا ہے اور راجدھانی میں جہاں سے حکومت کی جارہی ہے اس کی ناک کے نیچے جو کچھ کیا جارہا ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ملک میں کیا کچھ ہونے والا ہے۔ کانگریس لیڈر ڈگ وجئے سنگھ نے یہ کہہ کر مسلمانوں کے خلاف بھگوا حکومت کے منصوبے اور سازش کو بے نقاب کر دیا کہ ’’جیل سے صرف مسلمان لڑکے ہی فرار ہوتے ہیں، آخر کیا بات ہے؟ ‘‘
مسلمانوں کو بھی اس حکومت کے رویہ کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہئے اور اس ظالمانہ حکومت سے نمٹنے کیلئے مختصر اور لمبی مدت کیلئے ایک منصوبہ بنانا چاہئے۔ یہ کام مسلمانوں کی جماعتوں کو مل جل کر ’مسلم مجلس مشاورت‘ کے مشترکہ پلیٹ فارم سے کرنا چاہئے۔ اس وقت مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جو آواز تحفظ شریعت کیلئے اٹھ رہی ہے وہ بجا ہے مگر مسلم نوجوانوں کا دن دہاڑے قتل اور گرفتاریاں اس سے کہیں بڑا مسئلہ ہے۔ طلاق ثلاثہ، تعددِ ازدواج کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ اس میں بورڈ کو مصلحتاً فریق نہیں بننا چاہئے۔ جب بن ہی گیا ہے تو یہ بالکل قانونی جنگ ہے۔ جلسوں، احتجاجوں اور مظاہروں سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ ممکن ہے حکومت پر کچھ اثر پڑے مگر سپریم کورٹ کے ججوں پر اس کا بالکل اثر نہیں پڑے گا۔ وہ پہلے ہی سے مسلم پرسنل لاء سے کھار کھائے بیٹھے ہیں، ان کا جو فیصلہ ہوگا وہ اہل دانش سے پوشیدہ نہیں ہے۔ جہاں تک یکساں سیول کوڈ کا معاملہ ہے تو اس ملک میں کوئی بھی حکومت آئے جائے، وہ ہر گز نہ قانون بنا کر پیش کرسکتی ہے اور نہ نافذ کرنے کی جرأت کرسکتی ہے کیونکہ فرقہ پرستوں کو پہلے اپنے بھائیوں سے ہی جنگ و جدل کرنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ مسلمانوں کی باری تو بعد میں آئے گی۔ میرے خیال سے پرسنل لاء کے مسئلے سے بھی زیادہ اہم مسلم نوجوانوں کا قتل اور ان کی گرفتاریاں ہیں۔ اس مسئلہ کو امت کو ہاتھ میں لینا چاہئے اور سنجیدگی سے اس کی کاٹ کرنی چاہئے۔ جو سیکولر طاقتیں ہیں جو بی جے پی کو بہار کی طرح شکست دے سکتی ہیں ان کے ساتھ مل جل کر سر گرمی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی اگر اقتدار کی کرسی پر براجمان رہی تو ملک و قوم دونوں کا نقصان ہوگا اور سب سے بڑا نقصان امت مسلمہ کا ہوگا۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔