ایمان کے تقاضے

جہاں گیرحسن مصباحی

اللہ تعالیٰ کا ارشادہے کہ’’میں نے جنات وانسان کو اپنی معرفت وعبادت کے لیے پیداکیا۔’’ (ذاریات:56)
عبادت توتقریباً ہرمسلمان جانتاہے اورکرتابھی ہے لیکن جہاں تک معرفت الٰہی کی بات ہے تو اِس تعلق سے ہم انتہائی غافل ہیں ،کیوں کہ ہم نے معرفت الٰہی کوایک خاص طبقہ کے لیے مخصوص سمجھ لیاہے،جب کہ حقیقت یہ ہے معرفت الٰہی کے بغیر اللہ کی عبادت صرف رسمی ہوگی اوراخلاص سے اس کاکوئی تعلق نہ ہوگا ۔
اب سوال پیداہوتاہے کہ معرفت الٰہی کیاہے؟میرے خیال میں موٹے طورپر معرفت الٰہی یہ ہے کہ ہم اللہ کی ذات وصفات پر قلبی تصدیق کے ساتھ ایمان رکھیں اورجس طرح کسی محسوس کی جانے والی شئے پرہمارا ایمان ہوتاہے،اس سے کہیں زیادہ ہمارے قلب میں اس بات کا یقین ہوکہ اللہ ایک ہے(قُل ہُوَاللہُ اَحَدٌ)،اس کاکوئی شریک نہیں،وہ قادرمطلق ہے(وَہُوَعَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ)،وہ بڑی حکمت والاہے(إِنَّهٗ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ )،اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے پر سخت پکڑ ہوگی (اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ)،وہ جب چاہے جہاں چاہے ہماری گرفت کرسکتاہے(وَاللہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ)، کیوں کہ وہ اپنے جاہ وجلال اور جمال وکمال کے ساتھ ہر جگہ حاضرو ناظر ہے(وَہُوَعَلٰی کُلِّ شَیءٍشَہِیْدٌ،اَیْنَمَاتُوَلُّوافَثَمَّ وَجْہُ اللہِ)،چناں چہ جب یہ اعتقادہمارے دل ودماغ میں جم جائے گا توپھر ہمارا دین بھی سنورجائےگا اور ہماری دنیا بھی آخرت کی کھیتی میں بدل جائے گی۔وہ یوں کہ جب بھی ہم کوئی عمل کریں گے تو پہلے یہ ضرور خیال آئے گاکہ ہم جو عمل کرنے جارہے ہیں وہ عمل رضائے الٰہی کے خلاف تو نہیں،اور جب ایسی سوچ ہمارے اندرپیدا ہوجائے گی تو کسی کو برابھلاکہنے سے پہلےسیکڑوںبارسوچیں گے،کسی کو فاسق وفاجر،یاکفر کے دلدل میں ڈھکیلنے سے پہلےہزاروں بار غوروفکر کریں گے اوراختلاف کی صورت میں بھی سخت وسست کہہ کرلوگوں کوزحمت پہنچانے کے بجائے حکمت وموعظت اور اخلاق کی نرمی کے ذریعے رافت ورحمت کاسامان مہیاکریں گے۔
اس کے نتیجے میں نہ صرف دینی سطح پرفوائد حاصل ہوں گےکہ دین کی اشاعت عام ہوگی اورتبلیغ دین کاحلقہ پھیلے گا بلکہ دنیاوی سطح پر بھی سماجی ومعاشرتی فوائد حاصل ہوں گے کہ ہر چہارجانب امن وسکون کا ماحول بنے گا ،نیزآپسی محبت،اخوت وبھائی چارگی اور باہم تعاون کا جذبہ پیداہوگا،جس کی ضرورت ہر عہدمیں صرف دین و مذہب ہی کو نہیں بلکہ پوری انسانیت کو ہے۔
آج ہمارے درمیان بظاہرنہ انبیاومرسلین ہیں،نہ صحابہ کرام ہیں اور نہ ہی تابعین وتبع تابعین ہیں ،لیکن ان کی روحانیت،ان کے فرمودات،اوراُن کے اعمال ہمارے پاس کسی نہ کسی شکل میں موجودہیں جوبہر حال ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہیں،بشرطیکہ ہم اپنی زندگی کی صبح وشام اُن کی روحانیت،فرمودات اور اعمال کے سانچے میں ڈھال لیں،نہ کہ اُن کی روحانیت،فرمودات اوراعمال کو اپنی پسندکی زندگی کے لیے استعمال کریں۔
مثال کے طورپرآج ہمیں اپنی آخرت کی تو کچھ فکرنہیں ہوتی لیکن دوسروں کی آخرت کی فکرمیں پریشان رہتے ہیں۔ہم خود اسلام وایمان کے دائرے میں داخل ہیں یا نہیں،اس کے محاسبے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے،لیکن دوسروں کو اِسلام وایمان کے دائرے سے نکالنے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے اسلاف کرام نےتواپنے کردارواخلاق اورعلم و عمل سے غیروں تک اِسلام پہنچایااوردین کی انمول تعلیمات کو ہمہ جہت عام کرکےصرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ ساری دنیاکو انسانیت کا سبق دیا،جب کہ ہم اپنے کردارواخلاق اورعلمی واستدلالی قوت سے نہ صرف اسلام کے آفاقی پیغام کا دائرہ کم کررہے ہیں، بلکہ عالمی سطح پراُسے سخت نقصان بھی پہنچارہے ہیں۔
مزےکی بات یہ ہے کہ جب ہم سےیہ کہاجاتاہے کہ کسی ایسےشخص کو دین سے خارج کیوں کرکیا جائے جو کلمہ گو بھی ہے، قرآن و حدیث پر عمل کرنے والابھی ہے،اوراہل سنت وجماعت سے بھی ہے ،تو جھٹ سے ہم قائل کے سامنے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کردیتے ہیں کہ’’بہت سے لوگ قرآن کریم ہی سے گمراہ ہوجاتےہیں اور بہت سے لوگ قرآن کریم ہی سے ہدایت پاتے ہیں۔(بقرہ:26)
اورایسےوقت میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان عالیشان کونظراندازکردیتے ہیں جس میں فرمایاگیاہے کہ’’اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ذریعے رضائے الٰہی کی پیروی کرنے والوں کوسلامتی کی راہوں کی ہدایت دیتاہے ، نیز ایسے افراد کو اللہ تاریکیوں سے نکال کر نورکی طرف لاتاہےاوراُنھیں صراط مستقیم کی ہدایت دیتاہے۔(مائدہ:16)
یعنی ہم دوسروں کو پہلی آیت کریمہ کےپہلےحصےکامصداق سمجھتے ہیں اورخودکو دوسرے حصے(یعنی ہدایت) کانمونہ قرار دیتے ہیں،جب کہ ایک امکانی پہلو یہ بھی ہے کہ ہم خود اِس آیت کریمہ کے پہلے حصے کے مصداق ہوں اور جس کو بددین وگمراہ اورفاسق وفاجرقراردے رہےہیں اسی پراِس آیت کریمہ کادوسرا حصہ صادق آتاہو۔
اس لیے ہمیں اپنے اوپریہ لازم کرلیناچاہیےکہ کسی بھی کلمہ گوشخص کے بارے میں کوئی بھی حکم دینے سے پہلے اسلاف کے صرف فرمودات ہی کو پیش نظرنہ رکھیں ،بلکہ ان کی عملی زندگی کے پہلوؤں کوبھی سامنے رکھیں۔ تاکہ ہمارے کسی عمل سے دین و معاشرے کو کوئی نقصان نہ پہنچے،نیزہم افراط وتفریط اور تشدد وغلو کا شکار ہونے سے بھی محفوظ رہیں۔
مزید ایک اورنقص جو عام طورپرہمارے اندرپایا جاتا ہے ،وہ یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں ایمان باللہ اورایمان بالرسا لۃ کے ساتھ ایمان بالآخرۃراسخ نہیں۔اب چوں کہ ہم خودایمان واعتقادکے اعتبارسےمضبوط نہیں ہیں،پھردوسروں کو ایمان واعتقاد کے ترازو میں کیسے تول سکتے ہیں،اوراُنھیں صراط مستقیم سےمنحرف کیسے قراردےسکتے ہیں؟جب کہ ایمان باللہ،ایمان بالرسالۃ اورایمان بالآخرۃ میں راسخ ہوئے بغیر نہ توہم خودصراط مستقیم پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ سکتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کوصراط مستقیم پر قائم رہنے کا طریقہ بتاسکتے ہیں۔
چناں چہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم صراط مستقیم پر مضبوطی کے ساتھ قائم ودائم رہیں اورخَیْرُالْاُمُوْرِاَوْسَطُہَا۔(بہترین عمل میانہ روی اوراعتدال پسندی ہے)کے مصداق بنیں توسب سےپہلےہمیں اپنےاعتقادات درست وراسخ کرنے ہوں گے۔تاکہ کسی بھی کلمہ گوشخص کے خلاف کوئی یقینی حکم لگانے،یا کوئی حتمی فیصلہ لینے سے پہلےہم یہ غورکرلیں کہ کہیں ہمارایہ عمل ذاتی عناد، خودپرستی اور خطاپر مبنی تو نہیں۔نیزہمیں اس طورپر بھی سوچنےسمجھنے کا موقع مل جائےکہ:
1۔ اللہ ستارہےیعنی عیب پوشی فرمانے والاہے،لہٰذاہمیں بھی عبدالستارہوناچاہیے،تاکہ صراط مستقیم سے دورہوجانے والےشخص کو اِتنی مہلت مل جائے کہ وہ اپنےکیے پرشرمندہ ہو،اورتوبہ کرکے اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَن لَّاذَنْبَ لَہٗ (توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کچھ گناہ کیا ہی نہیں)کے حلقے میں شامل ہوجائے۔ نیزاس کے تائب ہونے میں ہم بھی مددکرنے والے بن جائیں۔
2۔ہم رحمت عالم کی اُمت ہیں،لہٰذاہمیں بھی رحمت ورافت کے جذبےسےسرشارہوناچاہیےاورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ایسے شخص کے حق میں ہدایت کی دعاکرنی چاہیے،تاکہ وہ دوبارہ صراط مستقیم پر گامزن ہوسکے۔
3۔ خوف آخرت کی وجہ سےہمارے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ جائےکہ ہم جسے مجرم قراردے رہےہیں ،کیا واقعی وہ مجرم ہے؟ کہیں ایساتونہیں کہ ہمارایہ عمل اللہ ورسول کے نزدیک جرم عظیم ہو، اور کل قیامت میں ہم پکڑے جائیں۔لہٰذا اِن باتوں کی وجہ سے ہم خود بھی ناپسندیدہ عمل سے بچیں گے اور ایک کلمہ گو شخص کو بھی دائرۂ اسلام سے وابستہ رہنے کا موقع فراہم کریں گے۔
غرض کہ جس طرح ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے ساتھ ہمیشہ حسن وخوبی کامعاملہ کرے،اسی طرح ہم بھی اللہ رب العزت کے بندوں کے ساتھ ہمیشہ حسن ظن رکھیں،اُن کے اندرحسن وخوبی کو تلاش کریں اوراُن کی تضلیل وتکفیر میں جلدی نہ کریں۔جب یہ سبق ہمارے دل ودماغ میں اَزبرہوجائے گاتو نہ تو دین میں بدامنی پھیلےگی اور نہ ہی عالمی سطح پر دین کے تعلق سے غلط فہمیاں پیداہوں گی ۔نیز اگربالفرض کچھ لوگ جانے انجانے میں فسق وفجور،یاضلالت وگمرہی میں مبتلا ہوجائیں تو اُنھیں بھی جلد ہی اصلاح وتوبہ کی توفیق مل جائے گی۔

تبصرے بند ہیں۔