ہم خود نہیں جانتے کہ مشترکہ سول کوڈ کیا ہے؟

محمد بہاؤالدین

ہندوستان کے 21ویں لا کمیشن کے چیر مین شری بلبیر سنگھ چوہان نے ٹائمز آف انڈیا کی نمائندہ آر تی ٹیکوچوہان سے انٹرویو کے دوران 7اکتوبر کو جاری کیے گئے سوالنامے سے متعلق جو طلاق ثلاثہ سے نسبت عوام کی رائے مانگنے کے لیے تیار کیا گیا تھا کہ اس طریقہ ثلاثہ کو ختم کرنا چاہیئے یا یکساں سول کوڈ کا نفاظ عمل میں لایا جائے۔اس سوالنامے کی وجہ سے قومی سطح پر اقلیتی حقوق سے متعلق لا کمیشن کے پینل جن میں ستیہ پال جین اور ابھئے بھاردواج دو جانے مانے سیوم سیوک سنگھی ہیں (جب سے موجودہ سرکار و جود میں آئی ہے ہر کمیشن و مرکزی بورڈ کے مختلف پینلوں پر پرانے اور نئے سیوم سیو ک سنگھیوں کی نامزدگی عمل میں لائی جارہی ہے۔) اس پینل کا کہنا ہے ہ وہ سماجی انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں نہ کہ ملک کے مختلف قوانین کا خاتمہ ۔ ملک کی تکثریت کی طرح قوانین بھی تنوع ہے۔
کمیشن کے پینل کے مطابق یہ کہا گیا کہ دستور ساز اسمبلی یکساں سول کوڈ کے بارے میں رظامندی نہ دیتے ہوئے اسے مستقبل کے لیے چھوڑ دیا ہے ۔ اور دستور می دیے گئے رہنمایا نہ اصول کے آرٹیکل 44میں endeavorکا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔جس کی وجہ سے یہ کوشش ہے کہ اسے کس طرح حکومت کی چاہت اور آرزوکے مطابقت کی تکمیل کے لیے رہنمایانہ اصول میں جس طرح تعلیم ‘صحت ‘ اغذیہ اور ماحولیات وغیر سے متعلق قانون سازی ہوئی ہے اسی طرح اس معاملے میں بھی قانون سازی کا عزم ہے۔چوں کہ سپریم کورٹ نے اس جانب متعدد بار اپنے مختلف فیصلوں کے دوران اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے جب کہ 2015میں پرکاش بنام پھلا وتی کے فیصلے میں بھی توجہ دلائی گئی ہے جس کے متن سے ہی موجودہ بحث کا آغاز کیا گیا۔اس طرح چیر مین لاء کمیشن نے موجودہ سوالنامے کی تاریخ و پس منظر کو واضح کیا ہے۔
یونیفارم سول کوڈ کا مقصد و معنی اور اس کی ہندوستان کو کیوں ضرورت ہے اس سوال کے جوب میں انھوں نے کہا کہ وہ خود نہیں جانتے کہ یونیفارم سول کوڈ کیا ہے؟ اور اس مرحلہ پر اس کی کیا ضرورتیں ہیں؟ ہم اس بات کا بھی اندازہ نہیں لگا سکے اس کا نمونہ کیا ہو؟ عوام میں کس حد تک قبول ہوگا اور حکومت اس معاملے میں کس حد تک آگے جانا چاہتی ہے۔ہم نے صرف ایک علمی بحث کا آغاز کیا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ عوام کیا سوچتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔
( تب تو عوام کو ان کی علاقائی زبانوں میں اور اردو میں اس سوالنامے اور اپیل کی اشاعت پرنٹ میڈیا اور الیکٹرا نک میڈیا کے ذریعہ سے عوام تک پہنچانا چاہیئے تھا۔)
اس سوال پر کہ آپ عوام تک راست طورپر کیوں جانا چاہتے ہیں۔ اسکے جواب میں انھوں نے کہا کہ کمیشن ایک سفارشی ادارہ ہے اس لیے ہم جمہوری طور طریقوں پر یقین رکھتی ہیں اور ہم وہ بات جو عوام نہیں چاہتے اس کو لایا جائے یا نہیں؟ ہماری سفارش اسٹنڈنگ کمیٹی کو جائے گی جس کے بعد پارلیمنٹ کو جائے گی اس کے بعد حکومت فیصلہ لے سکے گی کہ آیا اس پر وہ عمل آوری کرے یا نہ کرے۔
پورے ملک سے عوام کی رائے کے حصول کا طریقہ کیا ہوگا، جس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہم پہلے ہی دن سے عملہ کو متعین کرچکے ہیں کہ وہ لوگوں کی رائے جمع کریں۔ اس طرح ہمیں ہزاروں خطوط اور مراسلے بذریعہ ای میل پہنچ رہے ہیں ۔ہمارے لیے یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ اس قسم کی کاروائی کررہے ہیں۔لا کمیشن نے حال ہی میں تمام وکلاء سے اپیل کی تھی کہ وہ ایڈوکیٹ ایکٹ 1961کی ترمیم کے سلسلے میں اپنی رائے دیں۔ لیکن یونیفارم سول کوڈ کی ابتدائی تیاریوں کے خلاف مختلف مذہبی اقلیتوں نے اس کی مخا لفت کی ہے ۔اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا ہمارے سفارش کی بنیاد اعداد شماری کے بنا پر نہیں بلکہ اس معاملیمیں سیاسی مذہبی جماعتوں سے بھی رجوع کی جائے گی۔انھوں نے کہا کہ وہ اقلیتوں کے نمائندوں کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کے مشوروں کے بنا کچھ نہیں ہوگا۔ ہمیں اس معاملے میں عجلت بھی نہیں ہے اس لیے انکا کہنا ہے کہ اس وقت کا احتجاج وقت سے پہلے والا معاملہ ہوگیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ لا کمیشن کے سوالنامہ مخصوص جمہور کے خلاف تیار کیا گیا ہے؟ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ اگر آپ کی سوسائٹی میں بلا لحاظ مذہب جو رسم و رواج مستعمل ہیں اس بارے میں اگر لوگ نشان دہی کرتے ہیں تو ہم یقیناًان پر غور کریں گے۔ دوسرا طور طریقہ مثلاً میتری قرار(MISTRESS DEED)میں اس کی شمولیت اور اس میں کیا اصلاح کی ضرورت ہے جس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہندوستان مین کئی رسم و رواج رائج ہیں جن میں اصلاح کی ضرورت ہے: مثلاً ہندووں میں ایک سے زائد شوہر کا رواج آج بھی ملک کے چند حصوں میں جاری ہے۔نیا انڈیا اس معاملے میں کس طرح سوچتا اور دیکھتا ہے۔ہم اس خصوص میں ملک بھر سے رحجانات جاننا چاہتے ہیں۔
کیا یکساں سول کوڈ سے مذہبی آزادی والے حقوق کی پامالی ہوگی؟ اس کے جوب میں انھوں نے کہا کہ عدالت اور حکومت کسی کے بھی مذہبی وہ عقائد کی آزادی میں مخالفت نہیں کرے گی۔لیکن مذہب وعقیدہ اور اس کی عمل آوری میں مثلاً مختلف طریقے جیسے چھوت چھات ‘دیو داسی‘ بچپن کی شادی اور کثیرشوہر والارواج وغیرہ یہ سب مذہب کے نام پر عمل ہورہاہے۔ دو ہزار برس پہلے ایک ہی گوتر کی شادی پر پابندی ہے پر ہندو میرج ایکٹ 1955نے اس کے کی اجازت دی ہے۔ بچپن کی شادی پر پابندی والے قانوں کی کثرت سے پامالی ہوتی ہے۔ لیکن کیایکساں سول کوڈ اس کی عمل آوری کرے گا تو اس سلسلے میں انھوں نے کہا کہ اگر کسی قانون پر عمل آوری نہیں ہوتی ہے تو متضرر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ عدالت کی مددلے اور قانون پر عمل آوری کرائے۔
مذکورہ بالا انٹرویو سے قبل بھی ہندوستان ٹائمز کے نمائندے جتن سے انٹرویو کے دوران معزز چیر مین نے کہا کہ یکساں سول کوڈ کا معاملہ دستور ہند کے آرٹیکل 21سے جوڑنا چاہیے جو انسانی زندگی کی عظمت سے متعلق ہے۔یعنی اس سلسلے میں رہنمائے اصولوں کی پالیسی پر بحث ہی نہیں ہے بلکہ انسانی عظمت اور اسکے وقار کا معاملہ ہے۔ سماجی انصاف‘ جنسی مساوات وغیرہ جیسے معاملات پر یکساں سول کوڈ محیط ہوگا۔دراصل سپریم کورٹ کے زیر دوران مقدمے میں مسلم قانون نفس معاملہ نہ تھا۔ یکساں سول کوڈ کو غیر مسلم فریقین کی جائداد سے متعلق مقدمے میں اسے زبردستی گھسیٹا گیا اس میں طلاق ثلاثہ کا ذکر ویسا ہی ہے جیسے ٹی وی پر مذہبی مقامات میں عورتوں کے داخلے کے مسلئے پر بھی طلاق ثلاثہ کا ذکر۔۔۔۔ دراصل طلاق ثلاثہ کو آرٹیکل 21سے جوڑ کر اسے بنیادی حق زندگی سے جوڑنے کی کوشش ہے۔جب کہ آرٹیکل21دستور ہند میں یو ہے: 21۔ کسی شخص کو اس کی جان یا شخصی آزادی سے قانون کے ذریعہ قائم کئے ہوئے ضابطہ کے سوا کسی اور طریقہ سے محروم نہ کیا جائیگا۔ یعنی جان اور شخصی تحفظ کا تعلق طلاق ثلاثہ سے ہے؟جبکہ طلاق اگر شرعاًہو تو رحمت ہے۔اور اس کا ستعمال غیر شرعی ہوتو زحمت ہے۔ بلکہ مخالفین مسلم لاء کے لیے منہ زوری کرنے کے لیے موقع فراہم کرنا ہے۔
مذکورہ بالا آرٹیکل کی آڑ میں حکومت اور سپریم کورٹ نے قانون ہم جنس اور living together کو تسلیم کیا ہے جب کہ ان لوگوں کی تعداد کسی شمار میں نہیں۔ پھر بھی حکومت مغربی تہذٰب سے متاثر اور مشرقی تہذیب سے بیزاری کا مظاہرہ کیا ہے۔کوئی بھی مذہب میں ہم جنس اور بغیر شادی کے مردوزن کے اختلاط کو جائز اور پسندیدہ نہیں سمجھتا۔لیکن مثبت اقدار کو منفی اقدار پر کامیابی کے لیے ملک میں تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔اور اس موقع پر شعور بیداری سے عام لوگوں میں اخلاقی رحجان پیدا کیا جاسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔