منزل ما دور نیست: ایک تجزیاتی مطالعہ

عالم نقوی

’منزل ما دور نیست‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے  ادارے ’مرکز برائے تعلیم و ثقافت مسلمانان ہند (CEPECAMI)کے طلبائے ’برج کورس ‘کی خود نوشت تحریروں  پر مشتمل ایک چشم کشا کتاب کا نام ہے جو، برج کورس نہ ہوتا، تو  شاید معرض وجود میں آ ہی نہیں سکتی تھی۔ اس  مایہ ناز ادارے کے ڈائرکٹر جناب راشد شاز ہیں جن کی تحریر کردہ تازہ ترین   کتاب ’کودرا ‘ اور برج کورس کے طلبا کی تحریر کردہ کتاب ’منزل ما دور نیست ‘دونوں ایسی کتابیں ہیں جنہیں  ہرپڑھے لکھے  مسلمان کی نظر سے  ایک بار ضرور گزر نا چاہئیے۔  ’کودرا‘ مصنف کی  اُن ہی   مسلسل کاوشوں  کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے لیے اس سے قبل بھی اپنی ایک تصنیف ’’کتاب  العروج ‘‘میں وہ لکھ چکے ہیں کہ ’’ایک نئی ابتدا بالکل ہی نئے انقلابی اقدامات کی طالب ہے۔ غور و فکر کے پرانے سانچے جب تک نہیں ٹوٹتے ایک نئے شاکلہ کی تشکیل نہیں ہو سکتی۔ نئے اقدامات کے لیے کم سے کم شرط ایک نئے دماغ کی تیاری ہے جو یقیناً پرانی کتابوں کے وِرد سے تیار نہیں ہو سکتا ۔ یہ نیا دماغ تشریح و تعبیر کے گھسے پٹے طریقوں کے بجائے ’قرآن مجید ‘ کو ایک نشان ہدایت کے طور پر کچھ اس طرح برتنے کا اہل ہو(نا چاہئیے )کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی شاہراہ’’وحیِ (رَبَّانی)کی تجلیوں ‘‘ سے جگمگا اُٹھے۔ آیات ِاَحکام کے ساتھ ساتھ(قرآن حکیم کی) آیاتِ اِکتِشاف بھی اُس کی توجہ کا محور ہوں۔ گویا پوری’ کتابِ ہدایت ‘ کو ایک وحدت کی طرح، اِس طرح  برتنے کی، طرح ڈالی جائے کہ (جمود و اختلاف کی) موجودہ  صورت حال کا خاتمہ ہو سکے ‘‘۔

  برادر عزیز راشد شاز، محترم اسرار عالم کی قبیل کے مرد ِمجاہد ہیں جنہیں   صرف مخالفت ہی نہیں سنگین مخالفتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن اِس میں کوئی نئی بات نہیں ہماری تاریخ صرف   عاقلانہ  و عالمانہ اور مؤمنانہ  ہی نہیں احمقانہ وجاہلانہ اور  منافقانہ   مخالفتوں کے ذکر سے  بھی کبھی خالی نہیں رہی۔ ایسا نہ ہوتا تو قرآن بار بار یہ نہ کہہ رہا ہوتا کہ تم جن چیزوں میں اختلاف کرتے ہو ہم تمہیں وہاں (قیامت میں یا میدان حشر میں ) دکھا دیں گے (کہ ان کی حقیقت کیا تھی )فَیُنَبِّئُکُم بِما کُنتُم فیہِ تَختَلِفُون!

ابھی حال ہی میں ’مرکز برائے فروغ تعلیم و ثقافت  برائے مسلمانان ہند (Centre for Promotion of Educational and Cultural Advancement of Muslims of India ..CEPECAMI)کے زیر اہتمام چلنے والے ’برج کورس ‘ کی مخالفت و حمایت میں علما اور دانشوروں کے نظریات سامنے آئے۔ ایک ’عالم دین ‘ نے برج کورس کو  براہ راست ’’الحاد کا کارخانہ‘‘ ہی قرار دے ڈالا۔ جس کے جواب میں ممبئی کے  ایک  مشہور  صاحب ِعلم، اہل ِقلم دانشورنے نسبتاً راہِ اعتدال اختیار کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ شاز صاحب  کی کتابوں میں بیان کردہ خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، اس پر علمی گفتگو بھی ہو سکتی ہے۔ ۔لیکن میرے خیال میں ’برج کورس ‘کی اپنی اِفادیت ہے اور (یہ ضروری نہیں کہ ) اس میں تعلیم حاصل کرنے والا ہر طالب علم اُن سے اور اُن کے (راشد شاز کے) ہر خیال سے اتفاق  (بھی کرے )اس لیے شاز صاحب (کی کتابوں سے متعلق تحریروں کو ) شاز صاحب(کے افکار ) تک محدود ہونا چاہئیے، ان کو برج کورس سے جوڑ دینا مناسب نہیں ہے ‘‘۔

 ممبئی ہی کے ایک اور اہل دانش ایکٹی وسٹ  نے مذکورہ بالا بیان پر یہ تبصرہ کیا کہ  اُن کے نزدیک ’’ وہ(متذکرہ  نظریات کے حامل صاحب علم ) Over Optimistic ہیں ‘‘۔

ایک دوسرے  ایکٹی وسٹ مجاہد نے(جو علی گڑھ میں رہتے ہیں ) اِن دونوں تجزیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے  جو کچھ لکھا وہ  درست ہونے کے باوجود ایک حد تک خَلطِ مَبحَث پر مَبنی ہے  کہ:

 ’’راشد شاز صاحب کے خیالات سے قطع نظر عصری جامعات میں علوم شرقیہ کی تعلیم کا مقصد  طلبہ کے اندر مادہ پرستانہ طریقہ مطالعہ فروغ دینا ہے۔ اِن کورسوں سے استفادہ کو کار آمد بنانے کے لیے خود اعتمادی کے ساتھ بالغ نظری کی(بھی) ضرورت ہےجو نا پختہ فارغین (مدارس ) میں نہیں پائی جاتی (دینی )مدارس میں جدید باطل نظر یات سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ(فارغین مدارس) موجودہ حالات میں باطل کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ (البتہ)عصری جامعات (یونیورسٹیاں ) ہی وہ مراکز ہیں جہاں باطل کو سمجھنے کا موقع مئیسر آتا ہے۔ مستشرقین کا مقصد صرف (دینی ) عقائد کو بنانا ہی نہیں ہے بلکہ دین کا مطالعہ غیب اور آخرت سے بے نیاز ہو کر کرنا ہے تاکہ اُنہی بنیادوں پر مغربی طریقہ تحقیق کے لیے ذہن سازی ہو سکے۔ ‘‘

پہلی بات تو یہ کہ اے ایم یو کے  دینیات  (تھیالوجی)، علوم اسلامیہ و مشرقیہ  اور برج کورس کے شعبوں کے بارے میں  یہ خیال رکھنا کہ ’’اُن کا مقصد طلبہ کے اندر مادہ پرستانہ طریقہ مطالعہ کو فروغ دینا ہے ‘‘ محض بے خبری ہی نہیں حد سے بڑھی ہوئی  ’بد گمانی ‘ بھی ہےاور قرآن کا حکم ہے کہ:

 ’’اے ایمان والو!  بہت زیا دہ گمان کرنے(بدظنی) سے بچو کہ بعض گمان(ظن) گناہ (اثم)ہوتے ہیں (الحجرات۔ ۱۲)!

اور دوسرے یہ کہ انہوں نے تمام فارغین مدارس کو ناپختہ ذہن اور بالغ نظری سے عاری قرار دے ڈالا ہے۔ یا کم از کم ان کے متذکرہ بالا جملے سے یہی مفہوم برآمد ہوتا ہے ! ظاہر ہے کہ اس نقطہ نظر کو بھی صد فی صد درست نہیں قرار دیا جا سکتا۔ تیسرے یہ کہ ان کے مطابق تمام مدارس ِ دینیہ  ’جدید باطل نظریات سے پوری طرح ناواقف ہوتے ہیں ‘ یہ بھی Over Exaggerationکے زمرے  کا قول ہے۔

برج کورس کی تو خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ دنیوی یا مادی علوم سے’ حقیقی فائدہ‘ اٹھانے والے ذہن اور افراد بناتا ہے !وہاں آکر دنیوی علوم سے بہرہ ور ہونے والے یہ طلاب  اپنے اپنے مدارس سے، عالم حقیقی  اللہ، اس کے نمائندوں  اور اس کی نازل کردہ کتاب کی معرفت حاصل کر نے کے بعد ہی وہاں  پہونچتے ہیں !

رہی کتاب ’کودرا ‘ تو اس کا بنیادی مقصد اس امت کی شیرازہ بندی ہے جس کے لیے لازم ہے کہ اہل ِ قبلہ کے سبھی گروہ ایک دوسرے کو ضال اور مضل کہنے کے بجائے  سب اپنے  اپنے انحرافات کا سنجیدگی اور ایمانداری سے جائزہ لیں۔ ہم یہ نہ بھولیں کہ ہماری اصل ایک ہی ہے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی ذات ہمارا مشترکہ سرمایہ ہے۔یہ جو آج ہمارے ہاتھ میں معلومات کا سمندر ہے جسے آپ جام جمشید کی طرح لیے پھرتے ہیں، انٹرنٹ کی اس نئی دنیا نے افہام و تفہیم کے نئے  امکانات روشن کیے ہیں، اب نہ تو حکمرانوں کے بس میں ہے کہ وہ کسی علمی مناقشے پر پہرہ بٹھا سکیں اور نہ ہی فرقہ پرست علما کے لیے ممکن ہے کہ وہ کسی مکالمے کو اپنی قیل و قال سے روند ڈالیں۔

وہ دن گئے جب فرقے اپنی کتابیں چھپائے رکھتے تھے۔ ایک واقعی مکالمہ اور محاکمہ کی دنیا تو اب وجود میں آئی ہے۔ اگرچہ اس کا ایک دوسرا پہلو  بھی ہے اور وہ تشویشناک ہے کہ دونوں طرف کے فرقہ باز مولوی جو ایک دوسرے کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا چاہتے ہیں اب یو ٹیوب پر شب و روز بر سر پیکار ہیں، نفرتوں کے کاروبار میں مسلسل شدت آرہی ہے، ایک دوسرے کے خلاف لعن طعن، کفر و گمرہی کے فتوےاور محاربے کی دعوت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مگر اس چیلنج سے قطع نظر مسئلے کا ایک خوشگوار پہلو یہ بھی ہے کہ  اُمت کی ’نئی نسل ‘ان یکطرفہ بیانات پر آنکھ  بند کر کے یقین کر لینے کے بجائے از خود تحقیق کر کے حقائق سے آگاہ ہونا چاہتی ہے۔

عرب و عجم، روم اور امریکہ میں نوجوانوں کی قابل ذکر تعداد فرقہ وارانہ تنگ نظری کو ترک کرنے اور باہمی منافرت کی زہریلی فضا سے باہر آنے  کے لیے بیتاب نظر آتی ہے۔ حکومتیں پریشان ہیں، (نام نہاد ) علما کے روایتی حلقے متوحش ہیں (کہ ان کی اجارہ دارہ کے خاتمے کے دن قریب آتے جا رہے ہیں )اور معلومات کی اس شاہراہ پر نئی نسل اُن کی اجازت اور ان کی ایما کے بغیر بڑھتی چلی جارہی ہے، برف پگھل رہی ہے، اس پروسس کو روکنا اب کسی کے بس کی بات نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نئی نسل معلومات کے اس لا متناہی سمندر سے با لآخر گہر ریزے جمع کر لے گی۔

اگر واقعی ایسا ہو سکا تو اہل سنت کے نوجوان تمام شیعہ مخالف پروپیگنڈوں کے باوجود اس امر پر آگاہ ہو جائیں گے کہ اہل تشیع بھی اسی نبوی مشن کا حصہ ہیں جن کے یہاں اہل بیت کی محبت میں قدرے شدت پائی جاتی ہے۔ انٹر نٹ کا یہ نیا ٹول انہیں بآسانی اس بات پر آگاہ کر سکے گا کہ روایت کی تمام سنی کتابوں میں نہ صرف یہ کہ شیعہ مؤقف کی حدیثیں موجود ہیں بلکہ شیعہ راویوں پر اعتماد کیے بغیر سنی محدثین کی گاڑی آگے نہیں بڑھتی۔ کوئی ایسی سنیت جو شیعہ مداخلت سے ماورا ہو اس کا وجود نہیں پایا جاتا۔ دوسری طرف اس بات کا بھی امکان ہے کہ اہل تشیع کے نوجوان اس کا ادراک کر سکیں کہ (احادیث نبوی کی )کتب اَربَعہ،نہج ا لبلا غہ اور تفسیر و تعبیر کے شیعی لٹریچر میں حضرت علی اور دیگر ائمہ کرام خاص طور پر امام محمد باقر اور امام جعفر صادق سے بکثرت ایسے اقوال منقول ہیں جو شیخین کی عدالت اور کبار صحابہ کرام سے حضرت علی کے خوشگوار تعلقات اور ان حضرات کی ہاشمی و اموی خاندانوں میں باہمی رشتہ داریوں پر شواہد فراہم کرتے ہیں ‘‘    (کودرا۔ص۲۲۹۔۲۳۲)

’’دراصل معاملہ، کشت و خون کو روکنے کے لیے،ایک مؤثر اسٹریٹجی کی تشکیل کا ہے۔ صحت مند مکالمے کے لیے ضروری ہے کہ ہرفریق دوسرے کے   نقطہ نظر کو ہمدردانہ طور پر سمجھنے کی کوشش کرے ۔ ۔شیعہ اور سنی دونوں فرقے جن تراشیدہ تاریخی واقعات کے اسیر ہیں ان کے سحر سے دونوں ہی نجات  حاصل کرنے کی امکانی کوشش کریں۔ ۔تاریخ وتعبیر کی کتابوں میں گمراہ کن بیانات اس طرح سمو دئیے گئے ہیں کہ گویا یہ مذہبی کتابیں نہ ہوں بارود بھرے ہوئے خود کش اسلحے ہوں۔ ۔جب تک اللہ کی نازل کردہ کتاب  ِمبین متبعین محمدﷺ کے لیے واحد حوالہ نہیں بنتی۔ ۔‘‘(کودراص۔۲۳۹) صورت حال میں کسی مثبت اور خوش آئند تبدیلی کا امکان نہیں۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کو حق اور باطل کو باطل کی طرح دکھا دے ہماری ہدایت فرمائے اور ہمیں ظالموں کے  ظلم اور عدو ِّمبین کے شر سے بچا لے  آمین۔

تبصرے بند ہیں۔