منزل ہے میرے عشق کی فہم و گماں سے دور

 شازیب شہاب

تنہا کھڑا ہوں کب سے میں اپنے مکاں سے دور
اپنوں نے کر دیا ہے مجھے آشیاں  سے دور

گو ساعتِ  وصال ہے قسمت  پہ منحصر
کس کو پسند ہے کہ ہو کوئے بتاں سے دور

جس نے سفر  کی آنچ  میں  سب کچھ جلا دیا
منزل ہے روشنی کی اسی کارواں سے دور

ملنے  کی آرزو میں لیے  بوجھ عمر  کا
ہے زندگی اداس کھڑی مہرباں سے دور

آوارگیِ عشق کی حد بھی ہو اے صنم
در در  بھٹک رہا ہوں ترے آستاں سے دور

کہتے رہے  وہ خود کو  مسیحائے خلقِ عام
لیکن رہے غریب کی آہ و فغاں سے دور

کیسے لگے نہ آگ دلِ خستہ حال میں
کیوں  ہے بہار رقص کناں گلستاں سے دور

یوں ہی چلوں میں راہِ وفا میں کہاں تلک
،،منزل ہے میرے عشق کی فہم و گماں سے دور،،

خطرے میں روشنی تھی مری  اس لیے  شہابؔ
اک روز  ٹوٹ کر میں ہوا کہکشاں سے دور

تبصرے بند ہیں۔