منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

ممتاز میر

جناب اسرار عالم نے اپنی کتاب دجال میں کہیں لکھا ہے کہ فقہ اسلامی نے دین اسلام کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا شاید ہی کسی نے پہنچایا ہو انھوں نے مزید لکھا ہے کہ مختلف فقہ قرآن حدیث سے براہ راست استنباط کی راہ میں دیوار بن کھڑے ہو گئے۔ ہمارے بڑے بڑے علمائے کرام نے مختلف فقہوں کو قرآن حدیث کا قائم مقام بنا کر رکھ دیا تھا۔ان کے ان خیالات کی بنا پر جماعت اسلامی کے ایک سیکریٹری حلقہ نے مجہول شخص قرار دیا تھا۔

فقہ کیا ہے؟ زمان ومکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے قرآن حدیث میں پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرنا،فقہ ہے۔ہمارے نزدیک ہر سو پچاس سال بعد فقہ کو بدلتے رہنا چاہئے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قرآن قیامت تک کفایت کرے گا۔ اور دنیا میں قرآن ہی واحد کتاب ہے جس کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے وہ گنجائش رکھی ہے کہ وہ سو کیا ہزار لاکھ سال کے بدلتے حالات کو اپنے اندر سمیٹنے کی گنجائش رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر ۱۴۰۰ سال پہلے اللہ نے قرآن میں فرمایا کے ہم نے تمھارے لئے سورج چاند ستاروں کو مسخر فرمادیا ہے۔ سوچئے کہ ۱۴۰۰ سال پہلے اس لفط مسخر کے کیا معنی لئے جاتے ہوں گے اور آج لفظ مسخر سے کیا سمجھا جائے گا ؟لفظ تو وہی ہے مگر زمانے کے ساتھ ساتھ اس کے معنی بدلتے رہے یا اس میں وسعت پیدا ہوتی رہی۔ مگر ہمارے فقہ ۱۲۰۰ سالوں سے جوں کے توں ہیں۔۱۲۰۰ سالوں میں ہمارے فقیہ طلاق کے فتوے بدلنے سے قاصر رہے۔چاروں فقہ کی حدود سے باہر نکلنے کو ’مہا پاپ‘سمجھا جاتا رہا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا سازشاً ہوا۔وہ لوگ جو پیغمبر ﷺ کی زندگی میں ہی دین کو برباد کرنے کی سازشوں میں لگے ہوئے تھے حضور ﷺ کے وصال کے بعد وہ طاقتور بھی ہوتے چلے گئے اور نڈر بھی۔ ان کی نشاندہی کرنے والے دھیرے دھیرے اٹھتے جا رہے تھے۔جب کوئی باقی نہیں بچا تو انھوں نے کھل کھیلا۔ورنہ کسی بھی امام نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ میرا فرمایا ہوا حرف آخر ہے۔ اب مزید کسی تحقیق و اجتہاد کی ضرورت نہیں۔

ہوا یوں کے دسویں ؍بارہویں روزے کو ہم نے تحریک اسلامی کے زیر انتظام مسجد کے بورڈ پر یہ لکھ دیا’طاق راتوں کا کیا۔حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔باشندگان شہر کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ وہ ملک کے دیگر حصوں کی بہ نسبت روزہ؍ تراویح میں ایک دن پیچھے چل رہے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم طاق راتیں اپنی ترتیب سے منائیں یا ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ۔مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ مل بیٹھ کر یہ طے کریں اور ملت کو مطلع کریں۔اللہ نے قرآن میں مشورے کا حکم دیا ہے ‘ہماری یہ بات مسجد انتظامیہ ۲۴ گھنٹے بھی برداشت نہ کر پائی۔اور بورڈ مٹا دیا گیا۔یہ اس جماعت کا حال ہے جس کے بانی ؒ کو عمر بھر نئی باتیں کرنے کی بنا پر گالیاں کھانی پڑیں۔جس نے صحابہء کرام کو ’معیار حق ‘سے ہٹا دیا۔ جس کی کتاب ’خلافت و ملوکیت‘کو آج بھی متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔مگر اتنا زمانہ بدل جانے کے بعد بھی کسی نے اسے Disown نہیں کیا۔ بانی نے کہا تھا کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو سیاسی کشمکش سے کنارہ کش ہو کر من حیث القوم صرف دعوت کا کام کرنا چاہئے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے اس وقت بانی کے مشوروں کا مذاق اڑایا تھا آج ان کی اولاد یہ کہہ رہی ہے کہ کرنے کا کام تو وہی تھامگر جماعت آج لنگوٹ کس کر میدان سیاست میں کود چکی ہے۔

مسجد میں بورڈ کے مٹا دیئے جانے کے دوسرے دن ہم نے بمبئی کے ایک مفتی صاحب ،جو ہمارے دوست بھی ہیں سے رابطہ کیا اور ان سے موجودہ حالت میں طاق راتوں کے مسئلے پر استفسار کیا۔تو انھوں نے ایک لمحہ تردد کئے بغیر جواب دیا کہ ہم اپنے مطلع کے تابع ہیں۔ یعنی ہم جس ترتیب سے تراویح پڑھ رہے ہیں اسی کے مطابق ہمیں طاق راتوں کا حساب کرنا ہوگا۔یہ ایک مسلکی مولوی کارٹا رٹایا جواب تھا۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر ملک کے دیگر حصوں میں (واضح رہے کہ امسال ۵۰؍۶۰ کلو میٹر پر واقع شہروں میں روزوں؍مطلع کا فرق واقع ہوا ہے) ۲۹ کا چاند ہو جاتا ہے تو کیا ہم اس وقت بھی اپنے مطلع کے تابع رہیں گے یا اب چھلانگ لگا کر دوسرے مطلع میں گھس جائیں گے؟اس سے پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے کہ ہمارے مولوی عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے کہہ کر عید منا لیتے ہیں اور اگر کہیں ۲۸ ہی روزے ہوئے ہیں تو ایک روزہ بعد میں رکھنے کا حکم دیتے ہیں۔

علامہ اقبال نے کہا تھا ؂

آئین نو سے ڈرنا ،طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

ہمارا سوال یہ ہے کہ ہمارے علماء کرام اپنے مسلک سے اوپر اٹھ کر براہ راست قرآن و حدیث سے رہنمائی حاصل کرنے کو ڈرتے کیوں ہیں؟ہم تو دیکھتے ہیں کہ بالکل ابتدائی دور میں قرآن و حدیث سے ہٹ کر بھی اجتہاد کیا جاتا تھا۔  خدا کے لئے دین کو متحرک رکھئے، جامد نہ بنائیے۔

تبصرے بند ہیں۔