منشور حقوقِ انسانی دیتی ہے دہائی

عائشہ عروج

منشور حقوقِ انسانی دیتی ہے دہائی

بن موت مجھکو مارا ہے نئے نسل کے انساں نے

دفعات سارے اب میرے یہ خون کے آنسوروتے ہیں

یوں ہمکو روندا جاتاہے یوں ہمکو کچلا جاتا ہے

چھن گئی ہے آزادی درآئی ہے بربادی

اُجڑ رہاہے گلستاں ،بکھر رہاہے ہندوستاں

علم کے دریا پار کرو، تعلیم تمہارا زیور ہے

چاہےہندو ہو یا مسلماں،چاہے سکھ ہو یاعیسائی۔

دین کا اپنے پرچار کرو،یہ حق ہے ہم انسانوں کا

اپنی اپنی مرضی ہے سونچ سمجھکر کرو قبول۔

انجمن بھی تم بناؤ خیر کے سارے کام کرو

کھول زباں کو تو اپنی ہے آواز اٹھانا حق تیرا

یوں قتل کرو نہ انساں کو نہ نسلیں تم برباد کرو

کچھ تو خوفِ خدا رکھوانسانیت کا کام کرو

دولت،ثروت اور حکومت یہ سب کے سب بے معنی ہیں

آزادی ،تحفظ اور ساوات آفاقی حقوق ہیں سارے

رنگ نسل نہ جس زباں فرق کرو نہ مذہب کا

امتیازات ختم کرو ،بھائی چارہ عام کرو

پیغامِ حق کو عام کرو دستور کا بھی مان رکھو

دے رہی ہے یہ دہائی منشور حقوقِ انسانی

تبصرے بند ہیں۔