منصف کی تلاش

مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی

انصاف سے معاشرہ پُرامن ہوسکتا ہے جس معاشرے سے یہ نعمت اُٹھ جاتی ہے وہاں امن کاہونامحال ہے اگر آج ہم امن کی تلاش کی کوشش کرتے ہیں توکہیں بھی امن دکھلائی نہیں دیتااس کی یہی وجہ ہے کہ انصاف نہیں ملتایہاں بلکہ بِکتاہے جس دیس میں انصاف بِک رہاہو وہاں کی عوام کبھی بھی ترقی کی راہ پہ گامزن نہیں ہوسکتی ایک وقت تھا کہ مسلمان عرب وعجم پہ چھائے ہوئے تھے غیرمسلم بھی مسلم عدالت میں اپناجرگہ لے کر آتے تھے اور وقت کے امیرالمئومنین کے ہرفیصلے پہ لبیک کہتے تھے آئیے آپ کودربارِفاروقی ؓ میں لے چلتے ہیں ایک دفعہ ایک یہودی اور ایک منافق کا جھگڑا ہوا منافق ظاہراًمسلمان تھااس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پا س ہم اپنا جھگڑالے کے جاتے ہیں جوفیصلہ وہ کریں گے ہم دونوں منظورکر لیں گے۔ دونوں نبی کریم ﷺ کے پاس گئے اور نبی کریم ﷺنے دونوں کی بات سنی اور فیصلہ اس یہودی کے حق میں فرمادیا۔ اس منافق نے کہا کہ ہم اپنا جھگڑا حضرت عمر ؓکے پاس لے کے چلتے ہیں چنانچہ حضرت عمر ؓکے پاس گئے اس یہودی نے کہا کہ ہمارے درمیان فیصلہ آپ کے پیغمبر نے کر دیا ہے جب آپ ؓ نے یہ سناتو آپ اپنے گھر گئے اندر سے تلوار لے کے آئے اور فرمایا جومیرے نبی کے فیصلے کو نہیں مانتا اس کا فیصلہ عمر کی تلوار کرتی ہے حضرت عمر ؓنے تلوار چلائی اوراس منافق کا سر تن سے جدا کر دیاجب اللہ کے رسولﷺکو اس بات کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے فاروق کا لقب عطاکیا (یعنی حق اور باطل کے درمیان  فرق کرنے والا)

حضرت عمر فاروق ؓ کے فیصلوں کوپڑھ کر کئی غیرمسلموں نے اسلام قبول کیا اورآپ کے تمام فیصلوں کوسراہا

   لادین ہو،دیندار ہو،مشرک ہوکہ کافر!

   ہرشخص نے دی ہے تیری عظمت کی گواہی

یہ دربارفاروقی تھاکہ جہاں اپنے بھی پرائے بھی نظرآتے تھے اورفیصلہ قرآن وسنت کے مطابق ہوتاتھااورکبھی بھی حضرت عمرؓ نے یہ نہیں فرمایاکہ مجھے استثناء حاصل ہے

حضرت عمرؓ کے تن کاکپڑا

حضرت عمرفاروق ؓ بہت ہی بارعب اور نڈر تھے لیکن انصاف ہمیشہ آپکی عدالت سے ہی ملتاتھا حضرت عمر ؓایک دفعہ ممبررسولﷺ پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑاہوگیااورکہنے لگا کہ

 اے عمر!ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتائوگے کہ یہ جو تم نے کپڑاپہنا ہواہے یہ زیادہ ہے اور جبکہ بیت المال سے جو کپڑاملاتھا وہ اس سے بہت کم تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایاکہ اس مجمع میں میرا بیٹاموجود ہے اس بات کا جواب میرا بیٹادے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اٹھ کر کے کھڑے ہوئے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ بیٹابتائوکہ تمہاراباپ یہ کپڑاکہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس ممبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایاکہ جومیر ے باباکو کپڑاملاتھا وہ بہت ہی کم تھااس سے ان کا پورالباس نہیں بن سکتاتھا۔ اور ان کے پاس جو لباس تھا وہ بہت خستہ حال تھا اس لیئے میں نے اپنا کپڑابھی اپنے والد کو دے دیاجس سے ان کاپورا لباس بن گیا۔ ۔ سبحان اللہ کیا عظیم لوگ تھے کہ جن کے سامنے ایک غریب آدمی بھی کھڑاہوکر کہ پوچھ سکتا تھا کہ۔

اے امیرالمئومنین تقریر بند کیجئے ذرایہ بتایئے کہ جو تن پہ لباس پہنا ہوا ہے یہ کہا ں سے لایاہے؟آج کے دورمیں غریب کو اپنے حاکم سے پوچھناتو درکناردیکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ آپ ؓ نے ہمیشہ عدل اور انصاف کاجھنڈالہرایااپنی رعایا کاخاص خیال رکھاآپ کا مشہور قول آج بھی درددل رکھنے والے ہر مسلمان کے کانوں میں گونجتاہے اور دل پہ نقش کیا ہواہے کہ اگر دریائے فارات کے کنارے کتابھی پیاس کی وجہ سے مرگیاتوکل قیامت کے دن اسکی پوچھ عمرسے ہوگی۔

قانون سب کے لیے اگرایک ہوجائے توہربندہ اپنے ہاں خوش وخرم زندگی گُزارسکتاہے لیکن ہمارے ہاں قانون ایک نہیں آئیے درباررسالت کے فیصلوں کودیکھتے ہیں.

ایک مرتبہ شرفائے قُریش کی ایک عورت فاطمہ بنت الاسودچوری کے جرم میں پکڑی گئی۔ مقدمہ پیش ہوا،ثبوت کے مل جانے پرنبی پاک ؐنے ہاتھ کے کاٹنے کاحکم صادر فرمایا۔ عمائدیں قریش نے شرافت نسب کی وجہ سے اس سزاکوباعثِ عار سمجھ کر کوشش کی کہ کسی طرح آپ فاطمہ کوبری کر دیں اس کام کی تکمیل کے لیے حضرت اسامہ بن زیدؓ کوآپ کے پاس سفارشی بناکر بھیجا.

حضورﷺ نے خفگی کے لہجہ میں اسامہ ؓ سے فرمایااے اسامہ!اللہ کی مقرر کردہ سزامیں سفارش کودخل دیتے ہو؟خبردارآئندہ ایسی غلطی کاارتکاب مت کرنا.

اس کے بعدآپ ؐ نے حضرت بلال ؓ کوحکم دیاکہ سب کومسجد میں جمع کروجب لوگ آگئے توآپ ؓ نے تاریخی خطبہ ارشاد فرمایاجس کاکچھ حصہ نقل کیاجارہاہے.

تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب کوئی بڑآدمی جرم کاارتکاب کرتاتواسے رہاکر دیتے اورغریبوں کوسزادیاکرتے تھے۔ خداکی قسم اگر فاطمہ بنت محمدبھی چوری کرتی تواس کابھی ہاتھ کاٹ دیاجاتا۔

شاعر نے نبی کریم ﷺ کی پاک عدالت کے بارے میں کچھ یوں کہا:

   ؎ جہاں مجرم کوملتی ہیں سزائیں بھی جزائیں بھی

  کوئی لائومثال ایسی عدالت ہوتوایسی ہو

جنبہ داری کودیکھنے والے منصف کبھی بھی مقام حاصل نہیں کرسکتے اورنہ ہی زیادہ دیرمنصب منصفی پہ فائزرہ سکتے ہیں.

حضرت زبیرؓ اورایک انصاری کاکھیت کے پانی پرجھگڑاہوگیا۔ انصاری کہتاتھاپہلے میں دوں گا۔ مقدمہ حضوراکرم ؐ کی خدمت میں پیش ہوا۔ آپ نے مقامِ متنازعہ کانقشہ طلب کیا تومعلوم ہواکہ اس پانی کے قریب حضرت زبیرؓ کاکھیت ہے اوراس کے بعد انصاری کاکھیت ہے اس لیے فیصلہ یہ ہو اکہ پہلے زبیر اپنے کھیت میں پانی لگالیں اوراس کے بعد انصاری کودیدیں۔

انصاری یہ سن کر بولاکہ حضرت زبیر آپ کے رشتہ دار ہیں اس لیے آپ نے ان کے حق میں فیصلہ سنادیاہے۔ حضوراکرم ؐ کو اس کی یہ بات ناگوارگُزری۔ فرمایاکہ اے نادان!اگر میں نے بھی انصاف نہ کیاتوپھر کون انصاف کرے گا؟بخداجس نے جنبہ داری سے کام لیااورانصاف چھوڑ دیاوہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.

جانب داری سے پا ک فیصلے میں ہمیشہ قوت دیکھی گئی ہے اورایسے منصف کانام اورکام ہمیشہ زندہ رہاہے آج ہمیں بھی ایسے منصف کی تلاش ہے جوفیصلہ قرآن وسنت کی روشنی میں کرے کیونکہ امن حق سچ کے فیصلوں میں ہی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔