میں نے جنت تو نہیں دیکھیں ہے، ماں دیکھی ہے!

ذوالقرنین احمد

ماں کا دن منانے والے وہ لوگ ہیں جو شادی ہونے کے بعد اپنی شریک حیات کی فرمائش پر اسکی خوشی کیلئے ماں باپ سے الگ ہو جاتے ہیں یا پھر ان بوڑھے ماں باپ کو اولڈ ہاؤس میں شفٹ کر دیتے ہیں کبھی انکی خبر لینے کیلئے نہیں جاتے۔ ایک چھوٹا بچہ اپنی دادی کی گود میں کھیل کر تھوڑا سمجھدار ہوتا ہے ایک دن اسکی ماں اپنے شوہر کو کہتی کی میں اس بڑھیا سے یعنی تمہاری ماں کے کام کر کے تھک گئ ہو اب مجھسے برداشت نہیں ہوتا تم انہیں اولڈ ہاؤس چھوڑ کر آجاؤ یا میں یہ گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہو۔ ایک دن تنگ آکر اس شوہر نے اپنی ماں کو کہا تم کچھ دن اولڈ ہاؤس رہو ہم نیا گھر لینے کے بعد تمہیں جلدی لینے آ ٔینگے اور اس طرح ماں کو اولڈ ہاؤس چھوڑ کر آجاتاہے اس وقت اسکا بیٹا بھی اسکے ساتھ ہوتا ہے اور بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو باپ گھر آکر پوچھتا ہے کے تم بار بار پیچھے کیا دیکھ رہے تھے تب بچہ جواب دیتا ہے جو غیرت مند انسان کیلئے بڑے شرم کی بات ہیں اور افسوس کی بات ہیں وہ بچہ کہتا ہے میں دیکھ رہا تھا وہ جگہ کونسی ہیں اور اسکا نام کیا ہیں کیونکہ جب ممی پا پا تم بوڑھے ہو جاونگے تب مجھے بھی تمہیں وہاں چھوڑنے جانا ہوگا، یہ جواب سن کر اسکے ماں باپ حیران و ششدر رہ گۓ دنیا مکافات عمل ہیں جو جیسا کریگا ویسا بھریگا اور دنیا میں اسکے کیے کی سزا اور جزا ملے گی ہی آخرت میں بھی جواب دینا ہوگا جہاں حاکم اللہ خود ہوگا اور وہاں نا کسی کی سفارش کام آئیں گی۔

ایک دن ماں کے نام پر جشن منانے سے ماں کا حق ادا نہیں ہوجاتا ماں کا حق تو انسان  تا عمر ادا نہیں کر سکتا بچے کی پیدائش کا مرحلہ ہی اتنا درد اور تکلیف دہ ہوتا ہے کہ جس میں ماں کی کہی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہے، اسلام نے جو مقام عورت کو دیا ہے اسمیں سب سے افضل ماں کا درجہ ہیں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ماں کی خدمت اور عظمت کہ مقام کو اس طرح سے بیان کیا کہ” کاش میری ماں حیات ہوتی میں عشاء کی نماز کیلئے کھڑا ہوتا اور ادھر سے میری ماں مجھے پکارتی محمد تو میں نماز توڑ کر حکم بجا لاتا ، ایک صحابی نے آپ سے دریافت کیا کے میرے لیۓ والدین میں سے سب سے زیادہ خدمات کا حقدار کون ہیں تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیری ماں، ان صحابی نے پھر سوال کیا اسکے بعد کون آپ نے کہا تیری ماں ، صحابی نے پھر سوال کیا ،آپ نے کہا تیری ماں، صحابی نے پھر سوال کیا تو آپ نے کہاں اسکے بعد تیرا باپ، ماں وہ مقدس ہستی ہیں کے اللہ نے جنکی گود سے بڑے بڑے انبیاء کا  ایک سلسلہ چلایا اور آخر میں خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں مبعوث فرمایا، دنیا میں جتنے بھی عظیم لوگ گزرے ہیں جنہوں نے کا ٔنات کے بڑے بڑے حصے پر حکمرانی کی، اور بھی ایسے نوجوان گزرے جنہوں نے ملک کے ملک فتح کیے اسلام کی سر بلندی کیلئے جن نوجوانوں نے اپنی جانیں قربان کی اور شہادت کے مقدس مقام پر پہنچے ان کارناموں کے پیچھے جس ہستی کا ہاتھ ہے وہ مقدس نفوس انکی ماؤں کا کارنامہ ہیں جنہوں نے ایسے جیالوں کو جنم دیا اور انکی بہترین تربیت کی لیکن آج مغرب نے آزادی نسواں کے نعرہ کے نام پر عورتوں کو گھروں سے باہر لاکر کھڑا کردیا چاہے وہ کوئی بھی میدان ہو چھوٹی سی نوکری سے لے کر ایٔر ہوسٹس اور سیاسی میدان سے لے کر صنعتی اداروں تک عورتیں کام کرتی دیکھأی دیتی ہے جہاں دن بھر وہ ان ہوس پرستوں کی حوس کا نشانہ بنتی ہیں، آجکل تو کسی بھی عمر کی خواتین محفوظ نہیں ہیں ہے انہیں صرف ایک پروڈکٹ کی طرح سمجھا جارہا ہے استعمال کرو اور پھینک دو، یہ جو مغرب نے آزادی کا نعرہ دیا آج وہی مغرب کی خواتین مشرقی معاشرے کی طرف لوٹنے کیلے اور اسلام کے نظام حیات کو اپنانے کیلے دوڑی چلی آرہی ہیں جب عورتیں گھروں میں رہ کر بچوں کی صحیح تربیت کیا کرتی تھی تو انسانی دنیا کو بہترین لوگ ملا کرتے تھے، آجکل ماں باپ دونوں نوکری کرتے ہیں اور بچے نوکرانیوں کے حوالے کر دیتے ہیں تو ایسے گود میں پلنے والے بچے بڑے ہوکر ان ماں کو صرف ایک دن کیلے یاد کرتے ہیں اور مدرز ڈے منا کر سمجھتے ہیں کے ماں کی محبت اور انکی قربانیوں کے حق کو ادا کردیا۔
اسلام نے جو مقام ماں کو دیا کسی اور مذہب کے پاس اسکا تصور بھی موجود نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہا کہ تم اپنے والدین کو اف تک نہ کہوں، اور ایک حدیث میں ہیں کہ اگر تمہاری ماں تمہیں کہے کے اپنی بیوی کو چھوڑ دو اور اپنا پورا مال خرچ کردو تو تم ویسا ہی کرو، یہ اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہے، ماڈرن دور کے بچے آجکل ایسی سیکڑوں مثالیں دیکھنے ملتی ہیں کے جو ماں باپ اپنے ۷ ،۸ بچوں کی پرورش کرتے ہے وہی بچے اپنے قدموں پہ کھڑے ہونے پر اپنے ماں باپ کو سب ملکر بھی پالنے کیلے تیار نہیں، ماں کسی بیٹے کے پاس ہوتی ہیں اور باپ کسی اور بیٹے کے پاس ہوتا ہیں، اور کہی پر تو ہفتہ کے مطابق کھانے کا الگ الگ بیٹے کی طرف باری ڈالی جاتی ہے، کہی دوایوں کی ذمے داری مہینے کے حساب سے چھوٹے بڑے بیٹے پر ڈالی جاتی ہے ، اور کوئی گھر سے ہی بے دخل کر دیتا ہے، یہ سب تربیت کا نتیجہ ہوتا ہیں معاشرے کی تشکیل اور اصلاح میں والدین کا کردار اہم ہوتا ہیں اگر ماں اسلامی شریعت کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش کریں اور خود بھی عمل پیرا ہو تو بچے پھر اویس قرنی، عبدالقادر جیلانی، جنید بغدادی، بابا فرید الدین گنج شکر، جیسے بنتے ہیں اور اپنے والدین کے ناموں کو ر وشن کرتے ہیں، اس لیے آج معاشرے کی اصلاح و تشکیل اسلامی شریعت کے مطابق کرنے کی ضرورت ہیں جس میں ماؤں کا عظیم کردار ہیں، تب جاکر ماؤں کی عظمت اور مقام کو صحیح معنوں میں سمجھا جائے گا اور ہر روز پھر یوم ماں ہوگا۔

سبھی یادیں سبھی ارادے اور سپنے ٹوٹ جاتے ہیں
بوڑھے والدین سے بچے یونہی روٹھ جاتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔