بے پردہ سرو تم پہ ردا کیوں نہیں آتی

احمد نثارؔ

اس دور جہالت کو قضا کیوں نہیں آتی

ہر سمت محبت کی فضا کیوں نہیں آتی

٭٭٭

ٹھوکر سے سنبھلتے ہیں سبھی، تو نہیں سنبھلا

آخر تجھے جینے کی ادا کیوں نہیں آتی

٭٭٭

کیوں بوجھ سمجھتے ہیں سروں پر یہ دپٹے

بے پردہ سرو تم پہ ردا کیوں نہیں آتی

٭٭٭

کیا ہوگیا تقویٰ کی نظر تیری نظر کو

آوارہ نگاہوں کو حیا کیوں نہیں آتی

٭٭٭

تا عمر جہنم کے خزینے کو کما کر

روتا ہے کہ جنت کی ہوا کیوں نہیں آتی

٭٭٭

کیا بیچ دیا تونے ضمیروں کو زمانے؟

تجھ کو تِرے اندر کی صدا کیوں نہیں آتی

٭٭٭

دعویٰ ہے تمہیں اپنی وفائوں پہ ولیکن

ہر سمت سے پھر بوئے وفا کیوں نہیں آتی

٭٭٭

بوتے ہی نہیں بیج وفا اس پہ ستم یہ

کرتے ہیں گلہ شاخ وفا کیوں نہیں آتی

٭٭٭

اخلاص و قرینے سے نثارؔ آپ پکاریں

پھر دیکھئے رحمت کی گھٹا کیوں نہیں آتی

تبصرے بند ہیں۔