دشمن سکوت کا ہوں میں اپنے وجود میں
شازیب شہاب
دشمن سکوت کا ہوں میں اپنے وجود میں
اک شور سا مچا ہوں میں اپنے وجود میں
…
کیا سر کروں میں معرکہء گردشِ حیات
گم ہو کے رہ گیا ہوں میں اپنے وجود میں
…
ذرے میں ہو کے رہ گئی ہو روشنی اسیر
کچھ اِس طرح چھُپا ہوں میں اپنے وجود میں
…
کیسی لطیف آنچ پہ وہ رکھ گیا مجھے
ہر دم سلگ رہا ہوں میں اپنے وجود میں
…
میری چمک سے ہی ہے منور نشانِ راہ
پرتاب نقشِ پا ہوں میں اپنے وجود میں
…
اے چشمِ بدگمان کبھی دیکھ کر تو دیکھ
رنگین خواب سا ہوں میں اپنے میں وجود میں
…
اے شامِ یاس خوش نہ ہو آؤں گا لوٹ کر
خورشید آس کا ہوں میں اپنے وجود میں
…
یہ کس کا لمس مل گیا چاہت کی چاک پر
یہ کس کو دیکھتا ہوں میں اپنے وجود میں
…
میری تلاش میں بھی تو نکلے کوئی شہابؔ
مدت سے گم شدہ ہوں میں اپنے وجود میں
تبصرے بند ہیں۔