دشمن سکوت کا ہوں میں اپنے وجود میں

شازیب شہاب

دشمن سکوت کا ہوں میں اپنے وجود میں
اک شور سا مچا ہوں میں اپنے وجود میں

کیا سر کروں میں معرکہء گردشِ حیات
گم ہو کے رہ گیا ہوں میں اپنے وجود میں

ذرے میں ہو کے رہ گئی ہو روشنی اسیر
کچھ اِس طرح چھُپا ہوں میں اپنے وجود میں

کیسی لطیف آنچ پہ وہ رکھ گیا مجھے
ہر دم سلگ رہا ہوں میں اپنے وجود میں

میری چمک سے ہی ہے منور نشانِ راہ
پرتاب نقشِ پا ہوں میں اپنے وجود میں

اے چشمِ بدگمان کبھی دیکھ کر تو دیکھ
رنگین خواب سا ہوں میں اپنے میں وجود میں

اے شامِ یاس خوش نہ ہو آؤں گا لوٹ کر
خورشید آس کا ہوں میں اپنے وجود میں

یہ کس کا لمس مل گیا چاہت کی چاک پر
یہ کس کو دیکھتا ہوں میں اپنے وجود میں

میری تلاش میں بھی تو نکلے کوئی شہابؔ
مدت سے گم شدہ ہوں میں اپنے وجود میں

تبصرے بند ہیں۔