منفعت بخش عہدے قانونی بحث کے متقاضی

ڈاکٹر مظفرحسین غزالی

عام آدمی پارٹی کے20 ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دےئے جانے سے اس سردی کے موسم میں بھی دہلی کا سیاسی پارا چڑھ گیا ہے۔ آناً فاناً میں کئے گئے اس فیصلہ سے منفعت بخش عہدوں پر تقرری کی بنیادپر رکنیت کے خاتمہ کے حوالہ سے گرما گرم بحث شروع ہو گئی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے اراکین کے خلاف یہ کارروائی19 جون 2015 کو پرشانت پٹیل کے ذریعہ صدر جمہوریہ کو دی گئی عرضی کوبنیاد بناتے ہوئے کی گئی ہے۔ اس میں صدر جمہوریہ سے21 ارکان اسمبلی کو منفعت بخش عہدوں پر اپوائنٹ کئے جانے کی شکایت کی گئی تھی۔ یہ معاملہ 10؍نومبر2015 کو انتخابی کمیشن کے پاس پہنچا۔ عام آدمی پارٹی نے نااہل قرار دےئے گئے ممبران کو پارلیمانی سکریٹری مقر رکیا تھا۔ اس وقت پارٹی کے اندربھی مختلف کمیٹیوں کے ذریعہ ارکان اسمبلی کوپارلیمانی سکریٹری بنائے جانے کے خلاف آواز اٹھی تھی۔ پارٹی کے کئی تاسیسی ممبران نے یہ مشورہ دیاتھا کہ ان عہدوں پر پارٹی فاؤنڈرو مخلص کارکنوں کو مقرر کیا جائے مگر اروند کجریوال، گوپال رائے، منیش سسودیا اور دوسرے پی اے سی کے ممبران نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔

دہلی اسمبلی کے20 ارکان کی رکنیت ختم کئے جانے پر بی جے پی کے سینئر لیڈر یشونت سنہا نے ٹوئیٹ کیا’’ عام آدمی پارٹی کے 20 اراکین اسمبلی کو نااہل قرار دینے کا حکم فطری انصاف کے اصول کے یکسر خلاف ہے۔ کوئی سنوائی نہیں ، ہائی کور ٹ کے فیصلے کا انتظار نہیں ، کیا یہ خراب قسم کی تغلق شاہی نہیں ہے؟‘‘ بی جے پی کے ہی دوسرے سینئر لیڈر شتروگھن سنہا نے اس فیصلہ پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے جلد انصاف کی امید جتائی۔ وہیں این ڈی اے کی اتحادی جماعت شیوسینا نے بھی اپنی ناپسندیدگی درج کرائی جبکہ کانگریس کے اجے ماکن نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی اور الیکشن کمیشن نے ایک طرح سے عام آدمی پارٹی کی مددکی ہے۔ اگر یہ فیصلہ تین ہفتہ پہلے لیا جاتا توراجیہ سبھا کے انتخابات میں یہ 20 ارکان ووٹ نہیں دیتے۔ عام آدمی پارٹی کی الکا لامبا نے اسے صدر جمہوریہ کا تیزی سے لیاگیا فیصلہ بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمارا موقف جاننے کی بھی کوشش نہیں کی۔ عام آدمی پارٹی دہلی کے صدر اور کابینی وزیر گوپال رائے نے اس واقعہ کو’بدبختانہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے ارکان اسمبلی کو صدر جمہوریہ سے ملاقات کا موقع نہیں دیاگیا۔ کئی سیاسی، سماجی اشخاص نے انتخابی کمیشن کے اس قدم کو حکومت وقت کی خوشنودی پر مبنی بتایا اور عوام پر اس کے بدترین اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جبکہ قانون کے جانکار اس پورے معاملہ پر سوال اٹھارہے ہیں ۔

عام آدمی پارٹی کے صدر اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے اس معاملہ پر اپنا تاثردیتے ہوئے کہا کہ اوپر والے نے شاید اسی لئے ہمیں 67 سیٹیں دی تھیں ۔ 20 ممبران کی رکنیت ختم ہونے کے بعد بھی ہماری سرکار پر کوئی اثرنہیں پڑے گا۔ انہوں نے بوانا کی پبلک میٹنگ میں اس ناانصافی کے خلاف عوام سے ساتھ دینے کی اپیل کی۔ وہیں نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا نے لکھے گئے کھلے خط میں اس معاملہ پر بنیادی سوال اٹھائے۔

یہ دہلی کا اکیلا معاملہ نہیں ہے، ملک کی مختلف ریاستوں میں سو سے زیادہ ارکان اسمبلی منفعت بخش عہدوں پر کام کررہے ہیں ۔ بھاجپا کی حکومت والے اروناچل پردیش میں 31 ممبران اسمبلی پارلیمنٹری سکریٹری کے پوسٹ پر کام کررہے ہیں ۔ گوہاٹی ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے باوجود سرکار نے اسے یہاں لاگو نہیں کیا۔ آئین میں پارلیمنٹ کیلئے دفعہ102، اسی طرح اسمبلیوں کیلئے قانون موجود ہے جس کے تحت کسی بھی ارکان اسمبلی یا پارلیمنٹ کی تقرری منفعت بخش عہدوں پر نہیں کی جاسکتی۔ اگر کوئی ممبر ایسی پوزیشن ہولڈ کرتا ہے تو اس کی رکنیت ختم ہوجائے گی۔ سرکار کے پاس اس سے بچاؤ کی لا محدود طاقت موجود ہے۔ وہ جس عہدے کو چاہے قانون بناکرمنفعت بخش عہدہ کے زمرے سے باہر کرسکتی ہے۔ اس کی خبریں پورے ملک سے برابر آتی رہتی ہیں کہ فلاں فلاں پوزیشن ہاؤ آف پروفٹ کے زمرے سے باہر کردی گئی ہیں ۔ اسی کے تحت حج کمیٹی، اقلیتی کمیشن، وقف بورڈ، لیڈرآف اپوزیشن، مولانا آزاد فاؤنڈیشن، پلاننگ کمیشن،جواہر لال نہرو فاؤنڈیشن، بنگال انڈسٹریل ڈولپمنٹ کارپوریشن، نیفڈجیسے عہدے ہیں جو ہاؤس آف پروفٹ کے زمرے سے باہر ہیں ۔

عام آدمی پارٹی نے اپنے 20 اراکین اسمبلی کو پارلیمنٹری سکریٹری بنادیا بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ دہلی کے قانون کے مطابق وزیراعلیٰ پارلیمنٹری سکریٹری رکھ سکتا ہے۔ عام آدمی پارٹی کی غلطی یہ ہے کہ اس نے پہلے پارلیمنٹری سکریٹریوں کا تقرر کیا بعد میں قانون بناکر لیفٹیننٹ گورنر کو بھیجا۔ نجیب جنگ نے اس پردستخط نہ کرکے صدر جمہوریہ کو ان کی رائے کیلئے بھیج دیا۔ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کو اس پر دستخط کردینے چاہئے تھے لیکن انہوں نے دستخط کرنے سے منع کردیا۔ اس سے مرکزی حکومت اور دہلی سرکار کے درمیان تعلقات ٹھیک نہ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ یہ معاملہ جب ہائی کورٹ پہنچا تو اس نے تقرریاں رد کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا کیوں کہ پارلیمنٹری سکریٹری بنائے جانے کے بل پر لیفٹیننٹ گورنر یا صدر جمہوریہ کے دستخط نہ ہونے کی وجہ سے یہ قانون نہیں بن سکا، اس لئے یہ تقرریاں رد کی جاتی ہیں ۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اراکین کو منفعت بخش عہدے دینے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے اور قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ 91 ویں آئینی ترمیم کے مطابق 15 فیصد سے زیادہ اراکین کو وزیر نہیں بنایا جاسکتا۔ سرکار اپنے ممبران پارلیمنٹ یا اسمبلی کو مصروف رکھنے کیلئے اس طرح کی پوزیشن دیتی ہے۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ اگر اراکین اسمبلی یا پارلیمنٹ کو کوئی پوسٹ دے دی جائے گی تو وہ ہاؤس میں سرکار سے مشکل سوال نہیں پوچھیں گے۔ سرکار کی پالیسیوں یا فیصلوں میں کمیاں نہیں نکالیں گے، جبکہ پارٹی وہپ کے خلاف کوئی بھی ممبر نہیں جاسکتا۔ اگر کوئی رکن وہپ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کی ممبر شپ ختم ہو جائے گی۔ ہاؤس آف پروفٹ کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں میں یکسانیت نہیں ہے۔ مثلاً جیا بچن کے کیس میں یہ کہا گیا کوئی تنخواہ لی یا نہیں لی اس کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔ کیا پیسے لئے جاسکتے تھے۔ اگر پیسے کا کسی بھی طرح کے لین دین کا امکان ہے تووہ آفس آف پروفٹ مانا جائے گا۔ اس کا نام کچھ بھی ہو، ہونریریم، سفر خرچ یا کچھ اور۔ دوسرے 2014 کے کیرالہ حج کمیٹی کے میٹر میں سپریم کورٹ نے کہا کہ آؤٹ آف پاکٹ اخراجات لئے گئے ہیں تو یہ منفعت کا معاملہ نہیں ہوگا اور رکنیت ختم نہیں ہوگی۔ عام آدمی پارٹی عدالت میں اسی معاملہ کو نظیر کے طورپر پیش کرے گی۔

الیکشن کمیشن نے عام آدمی پارٹی کے اراکین کی نااہلی کے معاملے کو جس اندازسے ٹریٹ کیا اس سے کئی طرح کے شک وشبہات پیدا ہوتے ہیں مثلاً آپ کا کہنا تھاکہ پارلیمنٹری سکریٹریوں کو جو تقرری نامہ دیاگیا، اس میں تنخواہ نہ ملنے کی بات صاف طورپر لکھ دی گئی تھی۔ ہمارے ممبران نے سرکاری کھاتے سے ایک بھی روپیہ نہیں لیا۔ پارلیمنٹری سکریٹریوں کے تقرر کو ہائی کورٹ نے پہلے دن سے ہی رد کردیاتھا۔ جب تقرر ہوا ہی نہیں ، تو ان کی رکنیت کیسے ختم کی جاسکتی ہے۔

الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر لمبی سنوائی کی لیکن آخر میں جو سفارشات تیار ہوئیں ان پر عام آدمی پارٹی کو اپنی بات کہنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ بلکہ کہا گیا کہ اگر کچھ کہنا ہے تو لکھ کر دے دیں ۔ اگر پارٹی لکھ کر کچھ نہیں دیتی ہے تو یہ مانا جائے گا کہ اسے کچھ نہیں کہنا ہے۔ پھر 120 صفحہ کی سفارشات سنیچر کے دن صدر جمہوریہ کو بھیجی جاتی ہے جس پر اتوار کو صدر جمہوریہ دستخط کردیتے ہیں اور اسی دن وزارت قانون و انصاف نوٹیفکیشن جاری کردیتی ہے۔ اس جلد بازی سے لگتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، کیوں کہ 1978 میں 44 ویں آئینی ترمیم اور 1982 کے انڈسٹریل ڈسپیوٹ قانون کا نوٹیفکیشن آج تک جاری نہیں ہوسکا توپھرعام آدمی پارٹی کے ممبران کو نااہل قرار دینے میں اتنی عجلت کیوں دکھائی گئی،یہ سوچنے کا سوال ہے۔ وقت آگیا ہے جب آفس آف پروفٹ کے مسئلہ پر تفصیل سے بحث ہو۔ آئین و پارلیمانی روایتوں کی روشنی میں قانون بنے تاکہ پھر کسی رکن اسمبلی یا پارلیمنٹ کی رکنیت اس طرح خطرے میں نہ پڑے اوریہ جمہوریت کا سچا جشن ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔